خبریں

سپریم کورٹ نے زرعی قوانین پر روک لگائی، کسانوں سے بات چیت کے لیے بنائی کمیٹی

سپریم کورٹ کی جانب سےزرعی قوانین پر مرکز اور کسانوں کے بیچ تعطل کو ختم  کرنے کے مقصد سے بنائی گئی کمیٹی میں بھارتیہ کسان یونین کے بھوپیندر سنگھ مان، شیتکاری سنگٹھن کے انل گھانوت ، پرمود کمار جوشی اور ماہرمعاشیات اشوک گلاٹی شامل ہیں۔ ان چاروں نےنئے قوانین کی حمایت  کی ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کو تینوں متنازعہ زرعی قوانین پر اگلے آرڈر تک کے لیے روک لگا دی۔ساتھ ہی عدالت نے ان قوانین کی مخالفت میں دہلی کی سرحدوں پر ڈیرہ  ڈالے کسانوں اور سرکار کے بیچ جاری تعطل کو ختم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام کیاہے۔

چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راماسبرامنیم کی بنچ نے اس معاملے میں بھی تمام فریقوں کو سننے کے بعد ان قوانین کےعمل پر اگلے آرڈر تک کے لیے روک لگا دی۔ بنچ نے کہا کہ وہ اس بارے میں آرڈر پاس کرےگی۔

عدالت کے ذریعےبنائی  جانے والی کمیٹی ان قوانین کو لےکر کسانوں کے خدشات اور شکایتوں پر غور کرےگی۔

اس معاملے کی شنوائی کے دوران عدالت نے مظاہرہ کر رہے کسانوں سے بھی تعاون  کرنے کی اپیل کی اور صاف کیا کہ کوئی بھی طاقت اسے تعطل کو دور کرنے کے لیے اس طرح کی کمیٹی کی تشکیل سے نہیں روک سکتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس کمیٹی میں بھارتیہ کسان یونین کے بھوپیندر سنگھ مان اور شیتکاری سنگٹھن کے انل گھانوت شامل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی پرمود کمار جوشی اور زرعی ماہر معاشیات اشوک گلاٹی کمیٹی  کے دیگر دو ممبر ہوں گے۔

حالانکہ اس کمیٹی کو لےکرتنقید ہو رہی ہے کیونکہ اس میں شامل تمام ممبروں  نے قبل میں زرعی قوانین کی حمایت  کی ہے، جبکہ مظاہرہ کررہے کسانوں کی بنیادی  مانگ ہے کہ ان قوانین کو رد کیا جانا چاہیے۔

کورٹ نے کہا کہ کوئی طاقت اسے نئے زرعی قوانین پر جاری تعطل  کو ختم  کرنے کے لیےکمیٹی کی تشکیل سے نہیں روک سکتی اور اسے معاملے کو سلجھانے کے لیے قانون کو ملتوی  کرنے کا حق ہے۔اس نے کسانوں کے مظاہرہ  پر کہا، ہم عوام کی زندگی اور ملکیت  کے تحفظ کو لےکرفکرمند ہیں۔

عدالت  نے ساتھ ہی کسان تنظیموں سے تعاون  مانگتے ہوئے کہا کہ زرعی قوانین پر ‘جو لوگ صحیح معنوں  میں حل چاہتے ہیں، وہ کمیٹی  کے پاس جائیں گے۔’اس نے کسان تنظیموں سے کہا، ‘یہ سیاست نہیں ہے۔سیاست اور عدلیہ میں فرق ہے اور آپ کو تعاون کرنا ہی ہوگا۔’

اس بیچ،مرکز نے عدالت کو مطلع کیا کہ دہلی بارڈر پرمظاہرہ کر رہےکسانوں کے بیچ خالصتانی عناصر نے پیٹھ بنا لی ہے۔ مرکز نے عدالت  میں دائر ایک عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ اس تحریک میں خالصتانی عناصر آ گئے ہیں۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے تین زرعی قوانین کو لےکر کسانوں کےمظاہرہ سے نمٹنے کے طریقے پر سوموار کو مرکزکو آڑے ہاتھ لیا اور کہا کہ کسانوں کے ساتھ اس کی بات چیت کے طریقے سے وہ ‘بہت مایوس’ہے۔

اس بیچ وزارت زراعت نے عدالت میں حلف نامہ دائر کرکے سرکار کی طرف سے کسانوں کے ساتھ بات چیت کے لیے کی گئی کوششوں کا ذکر کیا۔

وہیں دہلی پولیس کی طرف سے عدلیہ میں عرضی  دائر کرکے کسانوں کو 26 جنوری کی مجوزہ‘ٹریکٹر ریلی’یا کسی بھی طرح کے مارچ پر روک لگانے کا آرڈردینے کی اپیل کی۔ اسے لےکر کورٹ نے کسان تنظیموں کو نوٹس جاری کیا ہے۔

عدالت تینوں زرعی قوانین کےآئینی جواز کو چیلنج دینے والی اور دہلی کی سرحدوں پر ڈیرہ  ڈالے کسانوں کو ہٹانے کے لیے عرضیوں کی شنوائی کر رہی تھی۔

عدالت نے کہا کہ اس وقت وہ ان قوانین کو ختم کرنے کے بارے میں بات نہیں کر رہی ہے۔بنچ نے کہا، ‘یہ بہت ہی حساس صورتحال ہے۔ ہمارے سامنے ایک بھی ایسی عرضی نہیں ہے جو ان قوانین کو مفید بتا رہی ہو۔’

اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے دلیل دی کہ کسی بھی قانون پر اس وقت تک روک نہیں لگائی جا سکتی جب تک عدالت یہ نہیں محسوس کرے کہ اس سےبنیادی حقوق یاآئین کےمنصوبےکی خلاف ورزی  ہو رہی ہے۔

بنچ نے کہا، ‘ہماری منشا یہ دیکھنے کی ہے کہ کیا ہم ان سب کا کوئی مشترکہ حل نکال سکتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے آپ سے (مرکز)پوچھا کہ کیا آپ ان قانون کو کچھ وقت کے لیے ملتوی  رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن آپ وقت نکالنا چاہتے تھے۔’

بنچ نے کہا، ‘ہمیں نہیں پتہ کہ کیا آپ حل کا حصہ ہیں یا پریشانی کا حصہ ہیں۔’ عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ دن بہ دن بگڑ رہا ہے اور لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔یہی نہیں، ان زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے کسانوں کے یونین سے بھی بنچ نے کہا، ‘آپ کا بھروسہ ہے یا نہیں، لیکن ہم سپریم کورٹ  ہیں اور ہم اپنا کام کریں گے۔’

بنچ نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ مظاہرہ کر رہے کسان کووڈ 19کے لیےطے ضابطوں  کے مطابق مناسب دوری پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں لیکن وہ ان کے لیےکھانا اور پانی کو لےکرفکرمند ہیں۔بنچ نے اس خدشہ کا بھی اظہارکیا کہ اس تحریک کے دوران امن و امان میں خلل ڈالنے والے کچھ واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔

بنچ نے کہا کہ ان قوانین کے عمل پر روک لگائے جانے کے بعد مظاہرہ کررہے کسان اپنی تحریک جاری رکھ سکتے ہیں، کیونکہ عدالت کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتا کہ اس نے مخالفت کی آواز دبا دی۔عدالت نے کہا کہ بات چیت صرف اس لیے ٹوٹ رہی ہے کیونکہ مرکز چاہتا ہے کہ ان قوانین کے ہر پہلوپر چرچہ کی جائے اور کسان چاہتے ہیں کہ انہیں ختم کیا جائے۔

اٹارنی جنرل نے جب بنچ سے کہا کہ سرکار اور کسانوں کے بیچ اگلے دور کی بات چیت 15 جنوری کو ہونے والی ہے اور اس لیےعدالت کو آج کوئی آرڈر پاس نہیں کرنا چاہیے، بنچ نے کہا، ‘ہمیں نہیں لگتا کہ مرکز ٹھیک سے اس مسئلے کو لے رہی ہے۔ ہمیں ہی آج کوئی کارروائی کرنی ہوگی۔ ہمیں نہیں لگتا کہ آپ مؤثر ہو رہے ہیں۔’

غورطلب ہے کہ اس سے پہلے مرکز اور کسانوں کے بیچ ہوئی آٹھویں دور کی بات چیت میں بھی کوئی حل نکلتا نظر نہیں آیا کیونکہ مرکز نے متنازعہ قانون کو رد کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسان رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی‘گھر واپسی’ صرف قانون واپسی کے بعد ہوگی۔

مرکز اور کسان رہنماؤں کے بیچ 15 جنوری کو اگلی بیٹھک مجوزہ ہے۔ حالانکہ، اس دوران ایسی خبریں آئی تھیں کہ سرکار نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنے دیں۔حالانکہ، اس کے بعد کسان تنظیموں نے کہا کہ قانون سرکار نے بنایا ہے اور ہم اسی سے قانون واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں او رسپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے بعد بھی واپس نہیں لوٹیں گے۔

سوموار کو عدالت نے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ  کر رہے کسان تنظیموں سے کہا، ‘آپ کو بھروسہ ہو یا نہیں، ہم بھارت کی سب سے بڑی عدالت ہیں، ہم اپنا کام کریں گے۔’

معلوم ہو کہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

 (خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)