منو بھائی کی تیسری برسی پرخصوصی تحریر:یہ ماں سے محبت ہی تھی کہ وہ لکنت کا شکار ہو گئے۔ اِس لکنت کا سبب ماں کے گال پر پڑنے والا وہ تھپڑ تھاجو طیش میں آکر منو بھائی کے والد نے جڑ دیا تھا۔ یہ منو بھائی کے بچپن کا واقعہ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ چیزوں کو بہت سمجھنے لگے تھے۔ ماں کو یوں پٹتا دیکھ کر وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو لکنت کا شکار ہو چکے تھے۔
منو بھائی سے میری پہلی ملاقات زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہوئی تھی۔ تب میں ایک طالبعلم تھا اور منو بھائی امروز سے وابستہ معروف صحافی۔ یہ سن 1980-81 کا تھا۔ کئی سال بعدبین الجامعاتی تقاریب کا انعقاد ممکن ہو پایا تھا لہٰذا طلبا و طالبات بہت پرجوش تھے۔ اس سلسلے میں ایک عدالت یونیورسٹی کے اقبال آڈیٹوریم میں لگائی گئی۔ عدالت نہ کہیں عدالتی کھیل کہہ لیں۔ پورا ہال طلبا اور طالبات سے بھرا ہوا تھا۔طلبا و طالبات کی اس عدالت کے سامنے اِ ستغاثہ زیر غور تھا:
”اِخلاقی اِنحطاط کا ذمہ دار کون؟“
پولیس، والدین، فلم اسٹار، صحافی،کئی شعبوں سے متعلق نمایاں نام اپنے اپنے شعبے کا دفاع کرنے کو موجود تھے۔پولیس اور پولیس والوں کا دفاع چوہدری محمد امین ڈی آئی جی، فلموں اورفن کاروں کا افضال احمد،جب کہ صحافیوں اور صحافت کادفاع منو بھائی نے کیا تھا۔میرے حصے میں صحافت کے خلاف استغاثہ پیش کرنے کی ذمہ داری لگی تھی۔ میں نے اپنا کیس خوب تیاری سے پیش کیا اور بہت سارے تراشے ہوا میں لہرا لہرا کر جیوری کو بتاتا رہا کہ ساری خرابی کی ذمہ دار یہ صحافت ہے۔
منو بھائی نے وکیل صفائی کے طور پر پیش ہو کر اپنی بات کا آغاز یوں کیا تھا؛
”می لارڈ، میری زبان میں لکنت ہے اس لیے میں عدالت سے درخواست کروں گا کہ وہ میری زبان کی لکنت کو توہینِ عدالت خیال نہ کرے۔“
اُنہوں نے عدالت کا لفظ یوں رُک رُک کر کہا کہ ”عداااا“ الگ اور ”لت“ الگ ہو گئی اور پورا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ پروگرام کے مطابق اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسن قریشی کو اس عدالت میں بطور وکیل صفائی پیش ہونا تھا مگر جب طلبایونیورسٹی کی گاڑی لے کر اُنہیں لینے لاہور پہنچے تو اُنہوں نے معذرت کر لی تھی۔ ایسے میں منو بھائی سے درخواست کی گئی، وہ مان گئے۔طلبا خوشی خوشی اُسی گاڑی پر منو بھائی کو لے آئے۔ ان کی حاضر دماغی اس واقعہ کو بھی اپنے حق میں استعمال کر گئی۔ کہنے لگے؛
”می لارڈ! آپ کے سامنے استغاثہ یہ ہے کہ معاشرے میں اِخلاقی اِنحطاط کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ دور کیوں جاتے ہیں می لارڈ،اس کے ذمہ دار تو یہیں موجود ہیں۔“
پورے ہال میں سناٹا چھا گیا تو منو بھائی نے اِضافہ کیا؛
”می لارڈ! میں منیر احمد قریشی عرف منو بھائی جو کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گااور سچ یہ ہے کہ مجھے لاہور سے اغوا کرکے یہاں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں پیشی کے سمن الطاف قریشی کے نام نکلے تھے، یہ منیر قریشی کو پکڑ لائے ہیں اور زبردستی پکڑ لائے ہیں۔ کیا کسی کو اغوا کرنا اخلاقی انحطاط کی علامت نہیں ہے؟اگر ہے تو اس انحطاط کے ذمہ دار یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر غلام رسول چوہدری ہیں جو اس اغوا میں برابر کے شریک ہیں۔“
پورا ہال ایک بار پھر قہقہوں اور تالیوں سے گونج اُٹھا۔ جیوری نے آرڈر آرڈر کہہ کر اور میز پر عدالتی ہتھوڑے برسائے اور بہ مشکل توجہ حاصل کی۔ منو بھائی میرے دیے گئے دلائل کی طرف آئے اور کہا۔
”وکیل ِاِستغاثہ نے تلاش کرکرکے اخبارات کے گندے گندے تراشے عدالت میں پیش کیے ہیں۔ یہ اس سے آدھی محنت سے صحافت کی اچھی باتیں بھی اکٹھی کر سکتے تھے مگر یہ ان کی ذاتی پسند کا معاملہ ہے۔ کسی کی ذاتی پسند کو مقدمے کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔لیکن می لارڈ، استغاثہ نوجوان اور کم عمر ہے اور اس عمر میں عریانی اور فحاشی انہیں اچھی نہیں لگے گی تو کیا ہماری عمر میں لگے گی۔“
منو بھائی کے لگ بھگ ہر جملے پر قہقہے اُچھلتے رہے۔ صحافت کا دفاع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو وہی دکھائے گی جو خود معاشرے میں دیکھے گی اور ایک لطیفہ سنانے کا موقع پیدا کرکے یوں گویا ہوئے۔
”می لارڈ! ایک دفعہ ایک گنجا حجام کی دکان پر گیا اور کرسی پر بیٹھتے ہی کہا، خلیفہ جی کچھ دکھائی دے رہا ہے کیا تراشنا ہے؟“۔“
ایسا کہتے ہوئے منو بھائی نے وائس چانسلر کے سر کی جانب اشارہ کیا جو فارغ البال تھے اور یہ منظر طلبا طالبات کو لطف دینے اور قہقہے لگانے کے لیے کافی تھا۔ گفتگو کا یہ انداز ان کی لکنت میں بھی ایک لطف پیدا کر رہا تھا۔ منو بھائی نے کہا؛
”خلیفہ جی، جو کنگھا قینچی لیے گنجے سر کو اوپر سے دیکھ رہے تھے، کہنے لگے ”جو کچھ ہے ابھی آپ کی جھولی میں آگرے گا۔“جو کچھ آپ تماش بینوں کے سروں پر ہوتا ہے اگلی صبح اخبار آپ کی دہلیز پر آپ کو دکھا دیتا ہے۔“جسے آپ اخلاقی انحطاط کہہ رہے ہیں یہ تو پہلے سے معاشرے میں موجود ہوتا ہے۔“
پھر اضافہ کرتے ہوئے کہا؛
”می لارڈ! استغاثے کا حال اس لڑکی جیسا ہے جس نے اپنی سہیلیوں سے پوچھا تھا کہ جب جواں لڑکے اکٹھے ہوتے ہیں تو کیا باتیں کرتے ہیں؟ اور جب اُس کی سہیلی نے اُسے بتایا کہ وہی باتیں جیسی ہم لڑکیاں کرتی ہیں، تو وہ شر ما کر کہنے لگی تھی”ہائے اللہ وہ کتنے بے شرم ہیں۔“
پہلی ملاقات کا قصہ طویل ہورہا ہے۔ جو منظر میں نے دکھایا یہ اسٹیج پر ہو رہا تھا۔ تقریب کے بعد الگ سے ملاقات بھی خوب رہی مگر میں نے یہ قصہ ذرا تفصیل سے یوں سنایا ہے کہ آپ جان سکیں منو بھائی کتنے حاضر جواب اور اپنی دلچسپ باتوں سے محفل کو لوٹ لینے والے تھے۔ منو بھائی سے میری آخری ملاقات کشور ناہید کے ہاں جنوری 2018 سال پہلے اُن کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔
اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ایس ڈی پی آئی نے ایک نشست رکھی تھی جس کی صدارت پرویز رشید نے کی جبکہ گفتگو کرنے والوں میں اعتزاز احسن، فتح محمد ملک،کشور ناہید اور دوسرے احباب شامل تھے۔ اس تقریب میں منو بھائی کی گفتگو اور نظموں نے جو سماں باندھا تھاشاید ہی اس کو بھلایا جاسکے۔
ان دنوں بھی احتساب کا چرچا تھا اورمنو بھائی سے فرمائش کر کے حاضرین نے ان کی وہ تیکھی پنجابی نظم سنی جس میں احتساب کے چیف کمشنر صاحب بہادر کومخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ چوروں اور ڈاکوؤں کا احتساب چوروں اور ڈاکوؤں سے کیسے ممکن ہو پائے گا۔
ان دو ملاقاتوں کے بیچ جب جب منو بھائی سے ملا، انہیں پڑھا یا سنا اُس درد کو محسوس کیا جو انہیں انسانیت کے حوالے سے عمر بھر لاحق رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی اِنسان دوستی اُن کی ترقی پسندی اور روشن خیالی ہے اور زِندگی کا شناخت نامہ بھی۔منو بھائی کہا کرتے تھے، زِندگی کے مختلف مراحل پر آدمی کا شناختی کارڈ بدلتا رہتا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ عمر بھر ان کے پاس شناختی کارڈ رہا اس پر ان کی شناختی علامت انسان دوستی روشن لفظوں سے لکھ دی گئی تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اپنے بارے میں انہوں نے لکھا تھا؛
”میں وزیر آباد میں میاں غلام حیدر کا پوتا اور بابو محمد عظیم قریشی کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی کے مختلف اسٹیشنوں پر میں اسٹیشن ماسٹر کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی میں اخباری رپورٹر اور ٹیلی وژن کا ڈرامہ نگار تھا۔ کرشن نگر لاہور میں ملک شمس کا کرایہ دار تھااور اب ریواز گارڈن لاہور میں364ہو کر رہ گیا ہوں کہ یہاں لوگ میرے مکان کا نمبر جانتے ہیں۔
مجھے میرے والد اور میرے دادا کو نہیں جانتے۔میاں غلام حیدر کی مسجد، بابو محمد عظیم قریشی کے پلیٹ فارم اور ٹیلی وژن کے ڈرامے میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور یہاں اپنا نیا شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش میں مصروف ہوں۔“
منو بھائی کے ہاں یہ ساری شناختیں اُن چھوٹے چھوٹے نقطوں کی طرح ہیں جن سے مل کر ایک بڑی تصویر بنتی ہے۔ انسان دوست منو بھائی کی خوب صورت تصویر اور کوئی بھی نقطہ اس تصویر سے باہر نہیں ہے۔ منو بھائی نے اپنے آپ کو ”عام آدمی“ کہا۔ ایسا عام آدمی جو غربت میں زندگی بتا دیتا ہے، بھوکا سوتا ہے،ننگے پاؤں کانٹوں پر چلتا اوردھوپ میں پیاسا جلتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہی عام لوگ منو بھائی کے قلم کا موضوع ہو کر کاغذ پر اُترتے رہے ہیں۔
منو بھائی چلے گئے تو ہر شخص سوگوار ہوا۔ میں ابو ظہبی میں تھا۔ دوستوں کا فون آیا وہ منو بھائی کے لیے تعزیتی ریفرنس میں میری شرکت چاہتے تھے۔ یہ اجلاس وہاں کی پاکستان جرنلسٹ فورم نے نیاز لائبریری پاکستان ایسوسی ایشن دبئی میں رکھا تھا۔ تقریب ہوئی اور بھرپور ہوئی۔ سب منو بھائی کو یوں یاد کر رہے تھے جیسے اُن کاکوئی بہت ہی قریبی عزیز بچھڑ گیا ہو۔
کسی نے اُن کی کالم نگاری کے موضوعات کا ذکر چھیڑا جو پچھڑے ہوئے اور پسے ہوئے طبقات کی دُکھوں کا احاطہ کرتے تھے تو کسی نے اُن کی جمہوریت پسندی اور آمریت دشمنی اور اس سے جڑے ہوئے دلچسپ واقعات کا۔ کوئی اُن کی شاعری کا ذِکر کر رہا تھا اور کوئی اُن کی ڈرامہ نگاری کا جن میں عام آدمی سے جڑے ہوئے موضوعات کہیں بھی نظر سے اوجھل نہ ہوتے تھے۔ سندس فاؤنڈیشن کا ذکر ہوا اور عورتوں کے حوالے سے ان کی طرف سے مسلسل اُٹھائی گئی آواز کا بھی۔
اجلاس ختم ہو گیا، سب کے دِل بوجھل تھے۔ میری بیگم یاسمین جو اس اجلاس میں تھیں، میرے قریب آئیں کہا، مجھے افسوس ہے آپ میں سے کسی نے اس بات کا ذکر نہیں کیا جو میں نے کشور ناہید کے ہاں اُن سے خود سنی تھی اور بہت روئی تھی۔ مجھے یاد آگیا اس آخری ملاقات میں ہم سب کشور ناہید کے ہاں جمع تھے۔ وہیں منو بھائی نے کئی باتیں بتائی تھی جو لگ بھگ سب میری پہلے سے سنی ہوئی یا پڑھی ہوئی تھی۔تاہم وہ بات جس کا یاسمین ذکر کر رہی تھیں یقینا وہی تھی جسے وہ گھر آکر بھی بار بار دہراتی تھیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔
منو بھائی نے بتایا تھا کہ ان کے والد طبیعت کے سخت تھے۔ اُن کے مزاج کے خلاف بات ہوتی تو فوراً بھڑک اُٹھتے جبکہ ماں بہت نرم دِل اور سراپا محبت تھیں لہٰذا وہ ماں کے قریب ہوتے چلے گئے۔ اور یہ ماں سے محبت ہی تھی کہ وہ لکنت کا شکار ہو گئے۔ اِس لکنت کا سبب ماں کے گال پر پڑنے والا وہ تھپڑ تھاجو طیش میں آکر منو بھائی کے والد نے جڑ دیا تھا۔ یہ منو بھائی کے بچپن کا واقعہ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ چیزوں کو بہت سمجھنے لگے تھے۔ ماں کو یوں پٹتا دیکھ کر وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو لکنت کا شکار ہو چکے تھے۔
ماں سے محبت انہیں عورت کے وجود سے لپٹے ہوئے دُکھوں کے قریب لے گئی تھی۔ اپنی کالم نگاری کے آغاز کے بارے اُن کا کہنا تھا کہ اس کا محرک بھی ایک ماں کا دُکھ تھا، وہ ماں جس کا بچہ گم ہو گیا تھا اور جس نے اپنے گمشدہ بچے کی ایک نشانی یہ بتائی تھی کہ اس نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ جب دکھیاری ماں اپنے بچے کی نشانیاں بتا رہی تھی تو اچانک رُک کر دور خلا میں دیکھنے لگی تھی۔ اُس کے بچے کو گم ہوئے کچھ دن گزر گئے تھے۔کہنے لگی”اب تو اس کے سفید کپڑے بھی سفید کہاں رہے ہوں گے، میلے ہو گئے ہوں گے۔“
بہت سال پہلے منو بھائی نے اپنے ایک کالم کا عنوان پنجابی میں یوں جمایا تھا:”اسی تے گلاں کرنے آں“۔ یعنی ہم تو بس باتیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کا دَم بھرنے والوں کوہم نے محض ”باتیں“ کرتے پایا ہے۔ باتیں باتیں اور صرف باتیں۔ اس سے آگے کچھ نہیں مگر منو بھائی کا معاملہ یوں تھا کہ وہ محض باتیں نہیں کرتے تھے۔ اُن کی زندگی اس کا عملی مظہر ہو گئی تھی اور وہ انسانیت کے دُکھوں سے جڑا ہوا دِل نکال کر کاغذ پر رَکھ دِیا کرتے تھے۔ اپنے دوست عباس تابش کا ایک شعر یاد آتا ہے:
یہ جو ہے پھول ہتھیلی پہ اسے پھول نہ جان
میرا دل جسم سے باہر بھی تو ہو سکتا ہے
اور آخر میں مجھے یہ کہناہے کہ ”گریبان“ کے نام سے لکھے گئے کالموں میں محض باتیں نہیں ہوتی تھیں، منو بھائی کا دھڑکتا ہوا اور لہو اچھالتا ہوادِل ہوتا تھا۔ انسانیت کے درد میں لہو لہو ہوتا دِل۔ اسی دِل نے اُنہیں ساری زندگی بے چین رکھا۔مجھے یاد ہے،منو بھائی کے جس کالم کا عنوان میں نے اوپر لکھ دیا ہے، اس کے آغاز میں انہوں نے یہ بھی لکھا تھا؛
”یہ محض قرین قیاس یا ممکن ہی نہیں یقینی بھی ہو سکتا ہے کہ صحرائے اعظم کے کسی نخلستان کی تتلی کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کے رد عمل سے قطبین کا کوئی آئس برگ یا ہمالیہ کا کوئی گلیشئیر ٹوٹ جائے اور ہزاروں بستیاں ”ایوالانچ“ کی زد میں آ جائیں“۔
مجھے یوں لگتا ہے،منو بھائی کی حسیات کے علاقے میں ایسی ہزاروں بستیاں تھیں جو اِنسانی دُکھوں سے عبارت تھیں، صحرائی نخلستان کی تتلی کے پروں کی جنش سے ”ایوالانچ“ کی زد میں آنے والی انسانی بستیاں۔ منو بھائی اپنی حسیات کے اندر، بہت اندر اور انہی تند پانیوں کی باڑھ میں جیون بسر کرتے رہے اور انہی انسانی دُکھوں کے ہلکوروں میں اپنی ساری حسوں سمیت زندہ آدمی کی زندگی جی کر چلے گئے۔
(مضمون نگار برصغیر کے معروف فکشن رائٹر ہیں)