خبریں

کسانوں کے مظاہرہ میں دہلی کے آئی ٹی او پر نوجوان کی موت

نوجوان کی پہچان 27سالہ  نوریت سنگھ کے طور پر ہوئی ہے۔ نوریت آسٹریلیا میں گریجویشن کی پڑھائی کر رہے تھے اور حال ہی میں ہندوستان  لوٹے تھے۔ وہ اتر پردیش کے رام پور ضلع کے بلاسپور تحصیل کے تحت آنے والے ڈبڈ با گاؤں کے رہنے والے تھے۔

دہلی کے آئی ٹی اوپر منگل کومظاہرہ  کے دوران ٹریکٹر پلٹنے سےنوجوان  کی موت ہو گئی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

دہلی کے آئی ٹی اوپر منگل کومظاہرہ  کے دوران ٹریکٹر پلٹنے سےنوجوان  کی موت ہو گئی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ  کر رہے کسانوں نے گزشتہ26 جنوری کو دہلی میں ٹریکٹر پریڈ نکالا تھا، جو پرتشدد ہو گیا۔ تشددکے دوران ایک نوجوان  کی موت کی جانکاری ملی ہے۔ ٹریکٹر پریڈ کے دوران دہلی کے آئی ٹی او پر ٹریکٹر پلٹنے سے اس میں سوار نوجوان کی موت ہو گئی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،نوجوان  کی پہچان 27سالہ نوریت سنگھ کے طور پر ہوئی ہے۔ نوریت آسٹریلیا میں پڑھائی کر رہے تھے اور حال ہی میں ہندوستان  لوٹے تھے۔

وہ اتر پردیش کے رام پور ضلع کے بلاسپور تحصیل کے تحت آنے والے ڈبڈ با گاؤں کے رہنے والے تھے۔ بلاس پور حلقہ  کے تمام کسان دہلی میں ہو رہے کسانوں کے مظاہرہ میں شامل ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، حکام  نے بتایا کہ نوریت تین دن پہلے اس تحریک میں شامل ہوئے تھے۔

دہلی پولس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا،‘ہمیں ٹکر مارنے کی کوشش میں کچھ کسان ہڑبڑی میں گاڑی چلا رہے تھے۔ ہم نے ٹریکٹر کو بیریکیڈ سے ٹکراتے ہوئے دیکھا۔ ہمارے اسٹاف اسے (نوجوان )بچانے گئے، لیکن کسانوں کے ایک گروپ  نے انہیں روک دیا۔ ایسا شبہ  ہے کہ اس حادثے کی وجہ سے ان کی موت  ہو گئی۔’

پولیس نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کرتے ہوئے کسان نوجوان کی لاش  کو ترنگے میں لپیٹ کر آئی ٹی او کراسنگ پر بیٹھے رہے۔

رپورٹ کے مطابق، حالانکہ بلاس پورحلقہ  کے ایک کسان منی دیو چترویدی نے پولیس کے اس بیان کو خارج کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا، ‘پولیس نے نوریت پر آنسو گیس کا گولا چھوڑا۔ اس کا ایک ٹکڑا نوریت کے سر پر لگا اور انہوں نے اسٹیرنگ وہیل پر کنٹرول  کھو دیا۔ پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔’

حکام  نے دعویٰ کیا کہ منگل کو غازی پور اور سنگھو بارڈر سے بڑی تعداد میں کسان آئی ٹی او پر جمع ہو گئے تھے اور نئی دہلی ضلع کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جب انہیں روکا گیا تو ان میں سے ایک گروپ تشددپر آمادہ ہو گیا اور بیریکیڈکو توڑ دیا۔ لوہے کی گرل اور ڈیوائیڈر کو نقصان پہچایااور پولیس پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کی۔

نوریت کی موت کے بعد منگل شام کو رام پور ضلع انتظامیہ  اور پولیس کی ایک ٹیم ان کی فیملی  سے ملی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، حالانکہ انتظامیہ نے ابھی ان کی موت کی سرکاری طور پر تصدیق  نہیں کی ہے۔نوریت نے دو سال پہلے شادی کی تھی اور ان کی بیوی  بھی آسٹریلیا میں پڑھائی کرتی ہیں۔

ایک پولیس اہلکارنے بتایا، ‘نوریت کے والد صاحب سنگھ نے ہمیں بتایا کہ مقامی  کسان، جو دہلی میں ہو رہے مظاہرے کا حصہ تھے، نے انہیں بتایا ہے کہ ان کے بیٹے کی موت ہو گئی ہے۔’

اہلکار نے بتایا،‘اہل خانہ  نے ہمیں بتایا کہ نوریت کے دہلی میں ہونےاور کسانوں کے مظاہرہ  میں شامل ہونے کی جانکاری انہیں نہیں تھی۔فیملی نے بتایا کہ وہ ایک رشتہ دار سے ملنے باج پور (اتراکھنڈ کے ادھم سنگھ نگر ضلع میں) گئے تھے۔’

رام پور کے ضلع مجسٹریٹ آنجنیہ کمار سنگھ نے بتایا کہ فیملی  کو شبہ ہے کہ وہ باج پور سے دہلی گئے ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوریت کی موت کی سرکاری جانکاری ملنے کے بعد وہ آگے کی کارروائی کریں گے۔

بلاس پور کے سرکل افسر نے کہا، ‘اہل خانہ  نے ہمیں بتایا کہ نوریت آسٹریلیا سے گریجویشن کی پڑھائی کر رہے تھے اور کچھ وجوہات سے واپس لوٹ آئے تھے۔ ابھی وجہ کی تصدیق کی جانی  ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ کئی جگہوں  پر پولیس اور کسانوں کی  جھڑپ ہوئی اور سینکڑوں کسان طے شدہ راستے  سے ہٹ کر تاریخی  لال قلعہ کےاحاطہ  اور شہر کےمرکز آئی ٹی او پہنچ گئے، جس سے پولیس اہلکاروں  کو لاٹھی چارج کرنا پڑا اور آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے۔

آئی ٹی او پر اس وقت انتشار کا ماحول دیکھنے کو ملا جب ڈنڈوں سے لیس سینکڑوں مظاہرین  پولیس اہلکاروں  کو دوڑاتے نظر آئے اور وہاں پولیسکے ذریعے کھڑی کی گئی بسوں کو ٹریکٹر سے دھکیلتے دکھے۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں  کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔

اس کو لےکر سرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئے زرعی قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیے جانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔

 (خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)