اکال تخت جتھے دار گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا ہے کہ دہلی سکھ گرودوارا مینجنگ کمیٹی ہر سال فتح مارچ کا انعقاد نشان صاحب کے ساتھ لال قلعہ میں کرتی ہے۔ اسے گلوان گھاٹی میں پھہرایا جاتا ہے۔ اس سال یوم جمہوریہ کے پریڈ کا حصہ نشان صاحب تھا۔ اسے خالصتان کا جھنڈا کہہ کرتنقید کرنا صحیح نہیں ہے۔
نئی دہلی: اکال تخت جتھےدار گیانی ہرپریت سنگھ نے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشدد کی مذمت کی، لیکن یہ بھی کہا کہ لال قلعے میں کسی خالی پول پر نشان صاحب کو پھہرانا کوئی جرم نہیں تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سنگھ نے مرکزی حکومت اور کسان یونینوں سے ایک قدم پیچھے ہٹنے اور نرم رخ اپنانے کی گزارش کی۔
جتھےدار نے ایک بیان میں کہا، ‘لال قلعے پر کسانوں یا پولیس کے تشدد کوصحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے، لیکن لال قلعے پر خالی پول پر نشان صاحب کو پھہرانے کا تنازعہ کوئی مدعا نہیں ہے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘دہلی سکھ گرودوارا مینجنگ کمیٹی ہر سال فتح مارچ کا انعقاد نشان صاحب کے ساتھ لال قلعے میں کرتی ہے۔ نشان صاحب کو گلوان گھاٹی میں پھہرایا جاتا ہے۔ اس سال یوم جمہوریہ کےپریڈ کا حصہ نشان صاحب تھا۔ نشان صاحب کو خالصتان کا جھنڈا کہہ کر تنقید کرناصحیح نہیں ہے۔’
جتھےدار نے کہا، ‘گرودواروں پر، موٹرسائیکلوں پر یا کمیونٹی رسوئی میں نشان صاحب کو پھہرانے کا مطلب اور اہمیت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس جگہ میں ابدیت یا گناہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ نشان صاحب کا مطلب ہے بھوکوں کے لیے کھانا، بےگھر کے لیے پناہ اور بیماروں کے لیے دوا۔ اس لیےیہ جرم نہیں ہے، اگر کسی نے لال قلعے میں نشان صاحب کو پھہرایا ہے۔’
تشدد پر انہوں نے کہا، ‘جب بھی ایسے واقعات رونماہوتے ہیں، تو اصل مجرم ہمیشہ بچ جاتے ہیں اور بےقصور لوگوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ کئی بےقصور لوگوں کو یوم جمہوریہ کے واقعات کےسلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ شرمناک پیش رفت ہے۔یوم جمہوریہ پر جو کچھ بھی ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔’
اس کے ساتھ ہی انہوں نے مرکزی حکومت اور کسان تنظیموں کو جھگڑے میں سختی چھوڑنے کی صلاح دی۔جتھےدار نے کہا، ‘مظاہرہ میں سسٹم بحال کرنے کے لیے یہ وقت کامطالبہ ہے کہ کسان تنظیم ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے بچیں اور احتیاط کے ساتھ پر امن طریقے سے آگے بڑھیں۔ بات چیت سے ہی معاملہ سلجھنے والا ہے۔ سرکار کو ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہیے۔ یہ عقل مندی ہوگی، اگر ہم بھی ایک قدم پیچھے ہٹیں۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘معاملے کاحل ہونا چاہیے، تاکہ دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے سکھ اورتمام کسان واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ میں اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ بات چیت سے معاملہ سلجھ سکتا ہے۔بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا جانا چاہیے۔ضدچھوڑ دیں۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘یوم جمہوریہ کے واقعات نےتحریک کو چوٹ پہنچائی ہے۔مظاہرہ کے سلسلہ کو بنائے رکھنارہنماؤں کی ذمہ داری ہے۔ مثبت نتیجے کے لیے رہنماؤں کو کریڈٹ ملتا ہے اور تحریک کے دوران کچھ بھی ناخوشگوار ہونے پر انہیں نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔’
معلوم ہو کہ تینوں نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کو لےکر منگل کو یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ذریعے نکالی گئی ٹریکٹر پریڈپر تشدد ہو گئی تھی اور مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تھا، گاڑیاں پلٹ دی تھیں اورتاریخی لال قلعہ پر ایک مذہبی جھنڈا لگا دیا تھا۔
پولیس نے جمعرات کو کسان رہنماؤں کے خلاف لک آؤٹ نوٹس جاری کیا اور یواے پی اے کے تحت ایک معاملہ درج کیا تھا۔ دہلی پولیس نے یوم جمہوریہ کےموقع پرہوئےتشدد کے پیچھے کی‘سازش’کی جانچ اسپیشل سیل سے کرانے کا اعلان کیا تھا۔
اس تشدد کے سلسلے میں پولیس نے اب تک 33 ایف آئی آر درج کی ہیں اور کسان رہنماؤں سمیت 44 لوگوں کے خلاف لک آؤٹ نوٹس جاری کیے ہیں۔
ان ایف آئی آر میں راکیش ٹکیت، یوگیندریادو اور میدھا پاٹیکر سمیت37 کسان رہنماؤں کے نام درج کیے گئے ہیں۔ اس ایف آئی آر میں قتل کی کوشش، دنگا اورمجرمانہ سازش کے الزام لگائے گئے ہیں۔حکام کےمطابق، جن کسان رہنماؤں کے نام ایف آئی آر میں درج ہیں، انہیں اپنے پاسپورٹ بھی انتظامیہ کے پاس جمع کرنے ہوں گے۔
Categories: خبریں