خبریں

ملک گیر ’لو جہاد‘ قانون لانے کا کوئی منصوبہ نہیں: وزارت داخلہ

لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت جی کشن ریڈی نے کہا کہ متعلقہ معاملہ بنیادی طور پرریاستی  حکومتوں کےموضوع  ہیں اور قانون کی خلاف ورز ی ہونے پر ایجنسیاں کارروائی کرتی ہیں۔

جی کشن ریڈی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

جی کشن ریڈی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:وزارت داخلہ  نے منگل کو کہا کہ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون لانے کا اس کافی الحال کوئی منصوبہ  نہیں ہے۔منگل کوپارلیامنٹ کے بجٹ سیشن کے دوران لوک سبھا میں وزیر مملکت جی کشن ریڈی نے یہ جانکاری دی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر نے پارلیامنٹ کو بتایا،‘متعلقہ معاملہ  بنیادی طور پرریاستی حکومتوں  کے موضوع ہیں اور قانون کی خلاف ورزی ہونے پر ایجنسیاں کارروائی کرتی ہیں۔’

جی کشن ریڈی نےمزید کہا کہ آئین  کے ساتویں شیڈول  کے مطابق، پبلک آرڈراور پولیس ریاست کےموضوع ہیں اور ایسے میں تبدیلی مذہب سے متعلق جرائم  کو روکنا، معاملہ درج کرنا، جانچ کرنا اور مقدمہ چلانا بنیادی طور پر ریاستی حکومتوں  سے متعلق  ہیں۔ ایسے معاملے میں قانون کی خلاف ورزی  ہونے پر کارروائی کی جاتی ہے۔

بتا دیں کہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش جیسی بی جے پی مقتدرہ ریاستوں نے دوسرے مذہب میں شادی کے لیےتبدیلی مذہب کے خلاف قانون کو منظوری دی ہے۔ اتر پردیش پہلی ایسی ریاست ہے، جہاں مبینہ  لو جہاد کو لےکر اس طرح کا قانون لایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ہریانہ نے بھی اس کےخلاف قانون لانے کی مانگ کی ہے۔ کچھ ہندوتوادی تنظیمیں لگاتار مرکزی حکومت  سے مبینہ  لو جہاد کے خلاف قانون لانے کی مانگ کرتی رہی ہیں۔لو جہاد ہندوتوادی تنظیموں کے  ذریعے استعمال  کی  جانے والی اصطلاح  ہے، جس میں مبینہ  طور پر ہندوخواتین  کو زبردستی یا بہلا پھسلاکر ان مذہب تبدیل کروا کر مسلمان سے اس کی شادی  کرائی  جاتی ہے۔

حالانکہ، قانون کا بڑے پیمانے پرغلط استعمال بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، بالخصوص بین مذہبی شادیوں کے خلاف جو اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔

اتر پردیش میں کئی ایسے معاملے سامنے آئے جس میں آپسی رضامندی سے بین مذہبی شادی  کرنے والے یا کرنے جا رہے جوڑوں  کو نہ صرف ہراساں  کیا گیا بلکہ جیل بھی بھیجا گیا۔ ایسے ہی ایک معاملے میں ایک خاتون  کااسقاط حمل  تک ہو گیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق قانون  لانے کے بعد سے اترپردیش میں 14 کیس درج کیے گئے اور 51 لوگوں کو گرفتار کیا گیا، جس میں سے 49 ابھی جیل میں ہیں۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)