کیا یہ صحیح وقت نہیں ہے کہ ملک میں پولیس سسٹم اور نظام عدل کو لےکر سوال اٹھائے جائیں؟
جوزف کے، کے متعلق کوئی غلط خبریں مشہور کرتارہا ہوگا، جبھی وہ ایک سہانی صبح کو بلا کسی قصور کے گرفتار ہوگیا۔
پراسرار مقدمہ ؛فرانز کافکا
شہرہ آفاق ناول نگارفرانز کافکاکے ناول‘دی ٹرائل ’(پراسرار مقدمہ) کایہ ابتدائیہ ؛ جوتقریباً ایک صدی پہلے (1925)شائع ہوا تھا، آپ کو آج بھی بہت بامعنی لگ سکتا ہے۔ناول کسی جوزف کے کے اردگرد گھومتا ہے، وہ کسی بینک میں ملازم ہے، اس کو اس کی30ویں سالگرہ پر دو اجنبی لوگوں کی نشاندہی پر گرفتار کیا جاتا ہے۔
ناول اس کردارکی ان تمام کوششوں پر مرکوز ہے، جس میں وہ اپنے اوپر پر لگے الزامات کو معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، جو کبھی واضح نہیں ہوتے، ناول اس کی ان بدحواس کوششوں کی بات کرتا ہے جہاں وہ ان الزمات سےبری ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا اختتام اس کی31ویں سالگرہ کے محض دو دن پہلے شہر کے باہر ایک کان(معدن ) کے پاس اس کے قتل کے ساتھ ہوتا ہے۔
معلوم ہو کہ یہ قلمکار جس کوبیسویں صدی کے عالمی ادب کی عظیم ناول نویس تصور کیا جاتا ہے، جو بہت کم عمری میں چل بسا، چاہتا تھا کہ اس کے تمام مخطوطات جس میں اس کا یہ نامکمل ناول بھی شامل تھا – اس کی کے بعدنذر آتش کر دی جائے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کے قریبی دوست میکس براڈ، جس کواس نے یہ ذمہ داری سونپی تھی، اس نے اس کی ہدایات کو نہیں مانا ، جس کا نتیجہ تھا ایک شہرہ آفاق تخلیق جو بے حس اور غیرانسانی نوکر شاہی نظام کے سامنے ایک عام آدمی کی جدوجہد کے بہانے اس کو بے پرد ہ کرتی ہے اور شہری حقوق کے شدید بحران کی صورتحال کونشان زد کرتی ہے۔
گجرات کے سورت میں بیس سال پہلے ایک تعلیمی کانفرنس میں جمع ہوئے 127 لوگ جن میں سے پانچ لوگوں کی اس دوران موت بھی ہو چکی ہے جنہیں کالعدم تنظیم سیمی سے وابستہ بتایا گیا تھا، ان کی اتنی طویل مدت کے بعد ہوئی بےداغ رہائی سے یہ بات پھر ایک بار بامعنی ہو اٹھی ہے۔
دسمبر2001 میں گروپ میں شامل لوگ آل انڈیا مائنارٹی ایجو کیشن بورڈ کےزیر اہتمام منعقد کانفرنس کے لیےملک کی دس الگ الگ ریاستوں سے لوگ جمع ہوئےتھے، جن میں کچھ راجستھان سے آئے دو وی سی ، چار پانچ پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور ایک ریٹائرڈجج کے علاوہ دوسرے پیشوں سے وابستہ پڑھے لکھے افرادشامل تھے۔
ان لوگوں کو بےداغ رہا کرتے ہوئے عدالت نے پولیس پرسخت تبصرہ کیا ہے کہ اس کا یہ کہنا کہ یہ سب لوگ کالعدم تنظیم‘سیمی’ سے وابستہ تھے، نہ قابل بھروسہ ہے اور نہ ہی تسلی بخش ہے، جس کی وجہ سے تمام ملزمین کو شک کافائدہ دےکر بری کیا جاتا ہے۔’
ان سب میں ہی شامل ہے آصف شیخ جو 2001 میں گجرات یونیورسٹی میں صحافت کے ٹاپر تھے، اس کیس نے ان کی زندگی ایسے تباہ کی کہ اس کو آج بھی ٹھکانہ نہیں ملا۔ دہشت گرد کا ٹیگ لگ گیا تھا، اس لیے کسی میڈیا ہاؤس نے نوکری نہیں دی، کبھی کال سینٹر میں کام کیا، کبھی کپڑے بیچے، کبھی لاؤڈ اسپیکر کی دکان کھولی اور پچھلے 13 سالوں سے مرچی بیچ رہے ہیں۔
معلوم ہو ان سب کو ایک سال سے زیادہ تک ایسے فرضی الزامات کے لیے جیل میں بند رہنا پڑا تھا اور عدالتی کارروائی میں شامل ہونے کے لیے آنا پڑتا تھا۔ان 127 میں سے ایک ضیاء الدین انصاری کا سوال غورطلب ہے کہ ‘عدالت نے ہمیں عزت کے ساتھ رہا کیا ہے، لیکن ان لوگوں – افسروں کا کیا جنہوں نے ہمیں نقلی مقدموں میں پھنسایا تھا، کیا انہیں بھی سزا ہوگی۔’
عدالت کاپولیس پر سخت تبصرہ دراصل حال کے وقتوں میں اسی طرح مختلف دفعات میں جیل کے پیچھے بند دشا روی جیسے دیگر مقدموں کی بھی یاد دلاتی ہے، جہاں پولیس کو اپنے کمزور اورمتعصب جانچ کے لیےسرزنش کی گئی ہے۔
طےشدہ بات ہے کہ سورت کے فرضی مقدمے میں گرفتار رہے ان لوگوں کی بےداغ رہائی نہ اس قسم کا پہلامعاملہ ہے اور نہ ہی آخری۔یہ سسٹم کسی کی زندگی کس طرح برباد کر سکتا ہے، اس کا ایک ثبوت ہم 20 سال پہلے ریپ کے الزام میں گرفتار ہوئے وشنو تیواری کی ہوئی بےداغ رہائی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
کچھ ماہ پہلے ہوئی ڈاکٹر کفیل خان کی بےداغ رہائی میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جب انہیں سات ماہ کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ یاد رہے کورٹ کے سخت اور متوازن رویے کا بنا یہ ممکن نہیں تھا، جس نے ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف درج اس کیس کو ہی‘غیرقانونی’ بتایا۔
اس وقت بھی یہی بات کہی گئی تھی کہ ہماری پولیس اورعدلیہ نظام میں ڈاکٹر کفیل خان کاواقعہ محض ایک مثال نہیں ہے۔ ان کا نام کبھی افتخار گیلانی بھی ہو سکتا ہے، جنہیں کبھی‘آفشیل سیکریٹس ایکٹ’ کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور پھر باعزت رہا کیا گیا۔
یا اس جگہ پر چھتیس گڑھ کے کسی آدی واسی کا نام بھی چسپاں ہو سکتا ہے، جس کو اسی طرح سالوں سال جیل میں گزارنے پڑے ہوں اور پھر ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا گیا ہو۔سوال اٹھتا ہے کہ کسی کو فرضی کیس میں پھنسا کر ان کی زندگی خراب کر دینا یہاں اتنا آسان کیوں ہے؟
پتہ نہیں لوگوں کو ایک نوجوان عامر کا وہ واقعہ یاد ہے کہ نہیں جس کو اپنی زندگی کے 14 سال ایسےفرضی الزامات کے لیے جیل میں گزارنے پڑے تھے، جس میں کہیں دوردور تک اس کی شمولیت نہیں تھی۔اس پر الزام لگایا گیا تھا کہ دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں ہوئے 18 بم دھماکوں میں وہ شامل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ الزام جب عدالت کے سامنے رکھے گئے تو ایک ایک کرکے معاملے خارج ہوتے گئے اور عامر بےداغ رہا ہو گیا۔ (2012)
یہ الگ بات ہے کہ ان چودہ سالوں میں اس کےوالدکا انتقال ہو چکا تھا اور ماں کی ذہنی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ بیٹے کی واپسی کی خوشی کو محسوس کر سکے۔عامر کو جس تکلیف دہ دور سے گزرنا پڑا، جس طرح محکمہ جاتی امتیازی سلوک کا شکار ہونا پڑا، پولیس کی فرقہ وارانہ طنز کو جھیلنا پڑا، یہ سب ایک کتاب میں درج بھی ہے۔
‘فریمڈ ایز اے ٹیررسٹ (2016) کے عنوان سے شائع اس کتاب کے لیے جانی مانی صحافی اورشہری حقوق کے لیے کام کرنے والی نندتا ہکسر نے کافی محنت کی ہے۔کیایہ کہنا مناسب ہوگا کہ سرکاریں جب ایک خاص قسم کے ایجنڈہ سے بھر جاتی ہے اور لوگوں کی شکایتوں کے لیےبے حس ہو جاتی ہیں تو ایسے ہی نظاروں سے ہم باربار روبرو ہوتے رہتے ہیں۔
کیا یہ وقت نہیں ہے کہ پولیس سسٹم اور انظام عدل کو لےکر سوال کھڑے کیے جائیں؟
کچھ سال پہلے کسی ستیندر گرگ، جو ان دنوں جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر تعینات تھے اورجنہیں نارتھ ایسٹ کا چارج ملا ہوا تھا، ان کی فیس بک پوسٹ سرخیوں میں آئی تھی۔ (د ی ٹیلی گراف، 20 فروری 2017)
پوسٹ کا فوکس سال 2005 میں دہلی میں ہوئے بم دھماکے میں جن میں 67 لوگ مارے گئے تھے اس میں شمولیت کے الزام میں پکڑے گئے تین مسلم نوجوانوں اور گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد ان کی رہائی پر تھا۔
معلوم ہو کہ عدالت نے ان تینوں کے خلاف پولیس کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد کو ‘فرضی’قرار دیا تھا اور انہیں خارج کیا تھا اور پولیس کے خلاف سخت تبصرہ کیا تھا۔
اپنی پوسٹ میں جناب گرگ نے لکھا تھا کہ ‘آخر آپ جب کسی ایسے جرم کے لیے سلاخوں کے پیچھے گیارہ سال گزارتے ہیں، جسے آپ نے انجام نہیں دیا ہوتو آپ سسٹم سے نالاں ہو سکتے ہیں۔ میں ان نوجوانوں کی ذہنی حالت کا تصورکر رہا ہوں، جنہیں 11 سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے۔ آخر یہ کیساپولیس سسٹم ہے اور کس طرح کانظام عدل ہے جہاں بے گناہوں کو اس طرح جیل میں سڑنے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے۔’
اخبار کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ جن لوگوں نے اس کیس کی جانچ کی ہے، انہیں بھی جوابدہ بنانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پولیس کی اس جانبدارانہ جانچ کا نتیجہ ہے کہ ان 67 متاثرین کے اہل خانہ کے لیے بھی انصاف سے انکار کیا گیا ہے اور ہم شاید کبھی نہیں جان پائیں گے کہ آخر ان بم دھماکوں کو کس نے انجام دیا تھا!
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ آنے والے وقت میں کسی بے گناہ کو ڈاکٹر کفیل خان یاعامر جیسی حالت سے گزرنا نہ پڑے، اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے کہ ان بےگناہوں کو جھوٹے الزامات کے اس بوجھ کے سائے سے بھلے ہی وہ قانونی طور پر آزاد ہو گئے ہوں – کیسے نجات ی دلائی جا سکتی ہے۔
شاید سب سے آسان راستہ ہے ایسے لوگوں کو، جن کے ساتھ سسٹم نے زیادتی کی،معاوضہ دینا، جیسا کہ پچھلے ماہ ہیومن رائٹس کمیشن نے کیا جب اس نے چھتیس گڑھ سرکار کو یہ ہدایت دی کہ وہ ان کارکنوں ، بے گناہوں کو معاوضہ دیں، جن پرسال 2016 میں جھوٹی ایف آئی آر کی گئی تھی۔
معلوم ہو کہ اساتذہ ، کارکنوں کا وہ گروپ جس میں پروفیسر نندنی سندر، پروفیسر ارچنا پرساد، کامریڈ ونیت تیواری، کامریڈ سنجے پراتے وغیرہ شامل تھے، انسانی حقوق کی پامالی کی جانچ کرنے وہاں گیا تھا۔کمیشن نے کہا کہ ‘ہماری یہ مکمل رائے ہے کہ ان لوگوں کو ان جھوٹے ایف آئی آر کی وجہ سے یقینی طور پرشدید نفسیاتی اذیت سے گزرنا پڑا، جو ان کے حقوق کی خلاف ورزی تھی اور ریاستی سرکار کو انہیں معاوضہ دینا ہی چاہیے۔’
لیکن کیا ایسا معاوضہ واقعی ان سالوں کی بھرپائی کر سکتا ہے، اس شخص اور اس کے اندرون کو جھیلنی پڑی نفسیاتی اذیت کو بھلا سکتا ہے،یقینی طور پر نہیں!
معاوضے کی بات چل رہی ہے اور اچانک ایک تصویر آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی ہے جو پچھلے دنوں وائرل ہوئی تھی۔ اس تصویر میں ایک سیاہ فام کو بنچ پر بیٹھے دکھایا گیا تھا، جس کے بغل میں کوئی سفید فام بیٹھا ہے اور اسے تسلی دے رہا ہے۔
خبر کے مطابق سفید فام نے اس کے سامنے ایک خالی چیک بک رکھا تھا اور کہا تھا کہ وہ چاہے جتنی رقم اس پر لکھ سکتا ہے، معاوضے کے طور پر۔ سیاہ فام کا جواب حیران کرنےوالا تھا۔‘سر، کیا وہ رقم میری بیوی اور بچوں کو لوٹا سکتی ہے، جو غریبی میں گزر گئے جن دنوں میں بنا کسی جرم کے جیل میں سڑ رہا تھا۔’
دھیان رہے کہ غلط ڈھنگ سے پھنسائے گئے بےگناہوں کو معاوضہ دینے کی بات یہاں قانون کی کتابوں میں درج نہیں ہو سکی ہے۔
یاد کریں کہ اس وقت کی آندھرا پردیش سرکار نے ہیومن رائٹس گروپوں کی جانب سے مسلسل ڈالے گئے دباؤ کے بعد سال2007 کے مکہ مسجد بم دھماکہ کیس میں پکڑے گئے 16 بےگناہوں کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ معاوضے کی ادائیگی اس بات تائید تھی کہ انہیں غلط ڈھنگ سے پھنسایا گیا۔
معاوضہ دیے جانے کے ڈیڑھ سال کے اندر ہی عدالت نے اس معاملے میں دخل اندازی کی اور اس معاوضے کے حکم کو خارج کیا اور کہا کہ جن لوگوں کو معاوضہ دیا گیا ہے، اس کو واپس لیا جائے۔عدالت کا کہنا تھا کہ ‘مجرمانہ کیس میں بے قصور ثابت ہو جانا یا بری ہو جانا، یہ کوئی بنیاد نہیں ہو سکتا معاوضہ دینے کا۔’
دراصل ہم سپریم کورٹ کے ایک دیگر فیصلے کو (2014) یاد کر سکتے ہیں جس نے معاوضے کی تمام دلیلیں اس وجہ سے سرے سے خارج کی تھیں کہ اس کا کہنا تھا کہ اس سے ایک غلط مثال قائم ہو سکتی ہے۔خبروں کے مطابق ان سطروں کے لکھے جاتے وقت بھی عدالت کے سامنے ایک عرضی زیر سماعت ہے جہاں ایسے تمام بے گناہوں کو معاوضہ دینے کی مانگ کی گئی ہے، جنہیں طویل مدت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔
کوئی اشونی اپادھیائے، جو پیشہ سے ایڈوکیٹ ہیں، ان کی طرف سے دائر اس عرضی میں ان نکات کو اٹھایا گیا ہے؛اپنے اقتدار کاغلط استعمال کرکے کسی شخص کو جبراً دیا گیا کاراواس آئین کی دفعہ21 کے تحت اس شخص کی زندگی اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے، آج کی تاریخ میں ایسے فرضی معاملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے انصاف کے ساتھ کھلواڑ اور ملک کے نظام عدل میں ایک بلیک ہول کاامکان بنا ہے۔
عرضی میں بیس سال بعد ایک جھوٹے مقدمے میں سزا کاٹ کر نکلے وشنو تیواری کے کیس کا ذکرہے، جس میں کہا گیا کہ حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اسے باعزت بری کیا، لیکن اس کے لیے کسی معاوضے کی مانگ نہیں کی۔
عرضی میں عدالت کے سامنے یہ فریاد کی گئی ہے کہ وہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کو یہ ہدایت دے کہ وہ غلط ڈھنگ سے پھنسائے گئے لوگوں کو معاوضہ دینے کے گائیڈ لائن طے کرے۔
عرضی میں اس بات کو بھی نشان زدکیا گیا ہے کہ کس طرح سال 2018 کی لاءکمیشن کی رپورٹ میں اس نے سرکار سے سفارش کی تھی کہ وہ غلط ڈھنگ سے پھنسائےگئےلوگوں کےمعاوضے کا انتظام کرے، یا اس میں ببلو چوہان بنام دہلی سرکار کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلےکو نشان زد کیا ہے، جس میں غلط ڈھنگ سے پھنسائے گئے اور طویل قید کے بعد رہا ہوئے معاملے میں معاوضہ دیا گیا تھا۔ اسی فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے لاء کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔
کہنا مشکل ہے کہ اعلیٰ عدالت اس عرضی پر کیا فیصلہ دےگی؟
عدلیہ اس معاملے میں جو بھی کہے، ایک بڑا سوال باقی شہری سماج، جس میں ہم آپ وہ سب شامل ہیں، کی طویل خاموشی کا ہی ہے، جسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والے اور اپنے منھ میاں مٹھو بننے والے لوگ، ایسے تمام واقعات پر کچھ بھی ردعمل نہیں دیتے؛ خاموش رہتے ہیں۔
کیا وہ جاننے کا جوکھم اٹھانا نہیں چاہتے کہ جمہوریت جو لوگوں سے ہی بنتی ہے، اس کانظام عدل اتنا بےرحم کیوں ہے کہ وہ کسی کو جیل کی کال کوٹھری میں ٹھونسے جانے کے بعد اس کے بارے میں پوری طرح بھول جانا ہی فائدہ مند ہے۔
(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی