گزشتہ سال راجیہ سبھاکی رکنیت حاصل کرنے کے بعد سابق سی جےآئی رنجن گگوئی نے کہا تھا کہ پارلیامنٹ میں ان کی موجودگی مقننہ کے سامنےعدلیہ کے خیالات کو پیش کرنے کا موقع ہوگا، حالانکہ ریکارڈ دکھاتے ہیں کہ اس ایک سال میں وہ ایوان میں نہ کے برابر میں نظر آئے ہیں۔
پچھلے سال 19 مارچ 2020 کو سابق سی جےآئی رنجن گگوئی نے سرکار کی جانب سے نامزد کیے جانے کے بعد راجیہ سبھاممبر کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔ ان کی حلف برداری میں اپوزیشن کی نعرےبازی سے خلل پڑ گیا تھا،اپوزیشن کا الزا تھا کہ ان کی نامزدگی ایگزیکٹو اورعدلیہ کے مابین اختیارات کی علیحدگی کےآئینی نظام کی خلاف ورزی ہے۔
ماہرین قانون اور دانشوروں نے بھی اس سلسلے میں تشویش کا ا ظہار کیا تھا کہ کہیں یہ نامزدگی ریٹائرمنٹ کے بعد سی جےآئی کو دیا گیا کوئی انعام تو نہیں ہے ۔کیونکہ گگوئی کے ذریعے دیکھے گئے کئی معاملےانفرادی آزادی کو لےکر ان کی تنگ نظری کی وجہ سے تنقید کا مرکز بنے۔گگوئی کی سپریم کورٹ کی سربراہی کے دوران یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عدلیہ ہندوستان کی جمہوری تنزلی کو روکنے کی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ناکام ہوئی۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کی ساکھ کو مجروح کرنے والا پہلو اس کا جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹنے کے بعد سابق وزرائے اعلیٰ اور بڑے رہنماؤں سمیت غیرقانونی طریقے سے حراست میں لیے گیے لوگوں کی طرف سےدائر کی گئی حبس بے جا کی درخواستوں پر آنکھیں بند کرنا رہا۔
سپریم کورٹ کے سامنے آئی ایک ایسی ہی عرضی سی پی آئی ایم کے رہنما سیتارام یچوری کی طرف سے ان کی پارٹی کے ایک ایم ایل اے کو حراست میں لیے جانے کے بعد دائر کی گئی تھی۔ایم ایل اے کو حراست میں لیے جانے کی بنیادکو پرکھنے کے بجائے گگوئی نے کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہ بننے کی شرط پر یچوری کو جموں جانے کی اجازت دی اور واپس آکر کورٹ کو مطلع کرنے کو کہا۔ یہ حکم ایگزیکٹو کے فرمان کی طرح تھا۔
ماہر آئین گوتم بھاٹیہ این آرسی کے کے نفاذ کےعمل کا ذمہ سنبھالنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں سی جے آئی گگوئی کے ذریعے نبھائے گئے اہم رول کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے این آرسی سےغلط طریقےسے متاثرہونے والوں کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات کی وجہ سے اس عمل کو قانونی حیثیت مل گئی تھی۔
جیسا کہ بھاٹیہ نے واضح طور پر کہا، ‘ان کی مدت کار کے دوران عدلیہ ایک ایسے ادارے، جو اپنی تمام ترعجیب و غریب تاریخ کے ساتھ کم از کم اپنے بنیادی کام کے طور پر انفرادی حقوق کےتحفظ کے لیے پرعزم تھی، سے ایک ایسے ادارے میں تبدیل ہو گئی، جو ایگزیکٹو کی زبان بولتی ہے اور جسے ایگزیکٹو سے الگ کرکے دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔’
پھر بھی، سی جےآئی کے طور پر ہوئی تمام تنقید کو درکنار کرتے ہوئے گگوئی نے نریندر مودی سرکارکی جانب سے انہیں راجیہ سبھا کے لیے نامزد کرنے کی پیش کش کوقبول کیا۔ اس کوقبول کرنے کو لےکر صفائی دیتے ہوئے گگوئی نے کہا:
‘پارلیامنٹ میں میری موجودگی ایگزیکٹو کے سامنے عدلیہ کےخیالات کو پیش کرنے کا ایک موقع ہوگا۔’
ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا، ‘اس نامزدگی کے لیے میری رضامندی اس پختہ یقین سے پیدا ہوئی ہے کہ جب صدر آپ کی خدمات کے لیے گزارش کرتے ہیں، تو انہیں نہ نہیں کہا جا سکتا۔’
ہندوستانی آئین آرٹیکل 80 (1)اےشق3 کے ساتھ صدر کو راجیہ سبھا کے 12 ایسےممبروں کو نامزد کرنے کااختیار دیتی ہے، جو ادب، سماجیات، آرٹ اورسائنس جیسے شعبوں کی مہارت یاعملی تجربہ رکھتے ہوں۔ 28 جولائی، 1947 کو آئین ساز اسمبلی کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے این گوپال سوامی آینگر نے راجیہ سبھا کےممبروں کےطور پر معروف شخصیات کی نامزدگی کو اس بنیاد پرصحیح ٹھہرایا کہ بھلے ہی وہ سیاست کا حصہ نہ ہوں، لیکن وہ اپنی مہارت کے ساتھ پارلیامانی بحث کو بامعنی بنائیں گے۔
اس لیے کسی بھی عام ممبر سے زیادہ نامزد ممبر سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں یابل جو ان کی مہارت کے دائرے میں آتے ہوں اس پر ہونے والےپارلیامانی مباحث میں اپنے خیالات پیش کرکے ان کی قدروقیمت میں اضافہ کریں ۔
ایک سابق سی جےآئی کے پاس بلوں پر ہونے والی بحث میں حصہ لینے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی بڑی تبدیلی سے قانون سے متعلق سوال جڑے ہی ہوتے ہیں۔ حالانکہ 20 مارچ 2021 تک راجیہ سبھا کی ویب سائٹ پر دی گئی جانکاری کے مطابق ، اپنی حلف برداری سے لےکر اس دن تک رنجن گگوئی نے ایک بھی بل پر ہوئی کسی بحث میں حصہ نہیں لیا تھا۔
گزشتہ ایک سال میں پارلیامنٹ میں کئی متنازعہ بلوں پر بحث ہوئی، جن میں تین زرعی قانون اہم تھے۔ ان قوانین سے متعلق بحث میں اٹھا ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا یہ بل مرکز کے آئینی دائرے سے باہر تھے، کیونکہ زراعت ریاست کے موضوع کے تحت آتا ہے۔
اس سوال پر ایوان کے لیے اس بارے میں ایک سابق سی جےآئی کے خیالات کوجاننامفید ہوتا، پھر بھی گگوئی نے ان میں حصہ نہیں لیا۔
رکن پارلیامان کے پاس پرائیویٹ بل لانے کے اختیارات ہوتےہیں۔ حالانکہ ایک اچھا بل تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔یہ یقینی بنانے کے لیے کہ کہیں یہ کسی اور قانون کی توہین تو نہیں ہے، قانون کی وسیع جانکاری ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی کہیں یہ بل اختیارات سے پرے تو نہیں ہے، اس کے لیے آئین کی بھی جامع فہم ہونی چاہیے۔
اس عمل میں مجوزہ اصول کو صحیح طریقے سے جامع اورنپی تلی آئینی زبان میں پیش کرنے کے لیے قانونی مسودے کی تیاری میں اعلیٰ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی اوسط رکن پارلیامان کے مقابلے ملک کے ایک سابق چیف جسٹس ان سب میں بہتر ہوتے ہیں، لیکن جسٹس گگوئی نے ایسا ایک بھی بل راجیہ سبھا میں پیش نہیں کیا۔
رکن پارلیامان سے یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ وزراسے انتظامیہ سے متعلق ضروری مسئلوں پر سوال وجواب کرتے ہوئے انہیں ان کی جوابدہی کا احساس دلائیں۔ یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جہاں متعلقہ وزیر کو اس کاتحریری جواب دینا ہی ہوگا یا پھر اس صورت میں جہاں وزیر کوایوان میں اس کازبانی جواب دینا ہوتا ہے۔
وزرا کو اپنے سوالوں کے لیے سرکار کی موجودہ پالیسیوں کا باریکی سےتجزیہ کرنا ہوتا ہے، جس کے لیے قانون، معاشیات، تکنیکی، خارجہ پالیسی جیسے کئی اور موضوعات سےمتعلق جانکاری جمع کرنے کی مہارت ہونی چاہیے۔ اپنے تعلیمی پس منظر کے باوجود رنجن گگوئی نے راجیہ سبھا میں ایک بھی سوال نہیں کیا۔
جب ایوان میں کوئی وزیر کسی سوال کا زبانی جواب دیتے ہیں، تب کوئی بھی ایم پی چیئر پرسن کی اجازت سے اضافی سوال پوچھ سکتے ہیں۔ اس زمرے میں بھی گگوئی نے کوئی سوال نہیں کیا ہے۔
کسی پالیسی کو لاگو کرنے میں درپیش کسی خصوصی مسئلے یا کسی انتظامی گڑبڑی یاعوامی اہمیت کے کسی موضوع پر سرکارکی توجہ مبذول کرانے کے لیے رکن پارلیامان کو ان کے ذکرکرنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔ راجیہ سبھا میں انہیں‘خصوصی حوالہ ’ کےطور پر لسٹ کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں بھی سابق سی جےآئی کے حصہ میں کچھ نہیں ہے۔
راجیہ سبھا کی ویب سائٹ کے مطابق31 جنوری 2020 سے 3 اپریل 2020 تک بجٹ سیشن میں 34 دن ایوان نے کام کیا اور گگوئی اس سیشن میں صرف دو دن 19 اور بیس مارچ جب انہوں نےحلف لیا اور اس کے اگلے دن ایوان میں موجود تھے۔ اس کے بعد مانسون سیشن میں 18 دن ایوان کی کارر وائی ی چلی لیکن اس میں گگوئی ایک بھی دن موجود نہیں تھے۔
موجودہ بجٹ سیشن میں 20 مارچ 2021 تک راجیہ سبھا میں 33 دن کام ہوا ہے، جہاں گگوئی صرف ایک دن 12 فروری کوموجود رہے ہیں۔
یہ المیہ ہی ہے کہ پارلیامنٹ میں گگوئی کی موجودگی سے متعلق سب سے بڑا مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب ایوان میں ترنمول کانگریس کی لوک سبھا ایم پی مہوا موئترا نےسابق سی جےآئی کے خلاف لگے جنسی ہراسانی کے الزامات کا ذکر کیا، جس کو بی جے پی کےرکن پارلیامان ریکارڈ سے ہٹوانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
سی جےآئی کے طور پر جسٹس گگوئی نے اکثر jurisprudenceکے‘سیل بند’طریقے کا سہارا لیا، جہاں سرکار کو عدالت میں متعلقہ فریق کو کاپی دیے بنا سیل بند کور میں جانکاری دینے کی اجازت ملتی ہے، جو عوامی عدالت کی کارر وائی سے متعلق شفافیت کے اصول کے خلاف ہے۔
سرکار کی جانب سے راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرتے ہوئے جسٹس گگوئی نے کہا تھا کہ ان کے لیے یہ پارلیامنٹ کواپنی خدمات دینے کا موقع ہوگا۔ تو رکن پارلیامان گگوئی کی یہ خدمات کیا ہیں؟ شاید یہ جواب بھی سیل بندلفافے میں ہی بند ہے!
(مضمون نگار وکیل ہیں اور آئین سے متعلق قوانین پر کام کرتے ہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر