ایک ملک میں اقلیتوں پر حملے کی مخالفت کے دوران جب اسی ملک کے اقلیتوں پر حملہ ہونے لگے تو شبہ ہوتا ہے کہ یہ حقیقت میں کسی ناانصافی کے خلاف یا برابری جیسے کسی اصول کی بحالی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک اکثریتی تعصب ہی ہے۔
بنگلہ دیش میں مندروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ریل گاڑی پر حملہ کیا گیا ہے۔ پریس کلب پر بھی۔ تھانے جلائے گئے ہے۔ بسوں میں آگ لگا دی گئی۔ پریس کلب کے صدر پر بھی حملہ ہوا ہے۔ اگر صحافیوں کی سنیں تو وہ بہت ڈرے ہوئے ہیں۔
خبروں کے مطابق 11 لوگ مارے گئے ہیں اور متعدد زخمی ہیں۔ اور یہ سب کچھ کون کر رہا ہے یا کس کی وجہ سے ہو رہا ہے؟ان کی وجہ سے جو ہندوستان کے مسلمانوں پر ظلم کی مخالفت کرنے سڑک پر اتر آئے ہیں۔ یہ حفاظت اسلام کے لوگ ہیں۔ ان کے اس مخالفت کی وجہ تھی ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا بنگلہ دیش دورہ ۔
نریندرمودی ہندوستان میں مسلمان مخالف یا اقلیتوں کے خلاف نفرت کی سیاست کے رہنماہیں، اس میں کیا شک! اس سیاست کے ملک پر مسلط ہونے کی قیمت مسلمانوں اور عیسائیوں کو چکانی پڑ رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کی صرف ہندوستان ہی نہیں، کہیں بھی مخالفت کی جا سکتی ہے۔
ایک ملک میں اقلیتوں پر حملے کی مخالفت کے دوران جب اسی ملک کے اقلیتوں پر حملہ ہونے لگے تو شبہ ہوتا ہے کہ یہ اصل میں کسی ناانصافی کے خلاف یا برابری جیسے کسی انسانی اصول کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک اکثریتی تعصب ہی ہے۔
ورنہ مندروں پر حملہ کیوں؟ بھلا بنگلہ دیش کے ہندوؤں کا ہندوستان کے مسلمانوں پر حملے میں کوئی رول ہے؟ کیا انہوں نے ہندوستان میں اکثریت پسندی کی سیاست کی حمایت کی ہے؟
ہم سب کو معلوم ہے کہ اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے۔ پھر مودی کی سیاست کے خلاف غصے کا نشانہ کیوں بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو بنایا جا رہا ہے؟ کیا اس ملک کے ہندو ہندوستان کے ہندوؤں کے عمل کے لیے ذمہ دار ہیں؟
اگر نریندر مودی کے دورےکی مخالفت کرنی تھی تو پرامن طریقے سے بھی کی جا سکتی تھی۔ مظاہرہ کرنے والوں کا الزام ہے کہ ان کے پر امن مظاہرے پر پولیس نے زیادتی کی،تشدد کیا۔ اسی وجہ سے غصہ بھڑک اٹھا۔
پھر بھی یہ سوال ہے کہ اس غصے کا نشانہ پولیس سے زیادہ ہندو ؤں کے مقامات کیوں؟ کچھ لوگ کہہ سکتے ہے کہ یہ غصہ اور اس کا اظہار فطری ہے۔آخر بنگلہ دیش کی آزادی کی سالگرہ پر اس شخص کی میزبانی کیسے کی جا سکتی ہے جس کی سیاسی لغت میں بنگلہ دیشی کامطلب ہے دیمک، گھس پیٹھیا؟ بنگلہ دیشی کا مطلب ہے ہندوستان کو چاٹ جانے والا۔
اس سیاست کے سرغنہ کو یہ اعزاز کیوں دیا جائے؟ سوال مناسب ہیں اور کیے جانے چاہیے۔ لیکن ان سوالوں کے پس پردہ اپنی اکثریت پسندی کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔حفاظت اسلام ان تنظیموں میں سے ایک ہے جو بنگلہ دیش میں اسلام کی حفاظت یا اس کے تسلط کو قائم کرنے کے نام پر ملک کی آزادی کے بعد سے ہی فعال ہیں۔
جماعت اسلامی سے ہم متعارف ہیں۔ لیکن اسلامی ایکیہ جوٹ یاحرکت الجہاد الاسلامی، بنگلہ دیش یا جماعت المجاہدین جیسی تنظیمیں مدرسوں کے میل سے ایک مہلک سیاست بنگلہ دیش کی نسلی زندگی کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
مانا گیا تھا کہ بنگلہ دیش کےقیام کے ساتھ جناح کے دوقومی نظریے کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ وہ نظریہ صرف جنا ح کا نہیں تھا۔ہندوستان میں اس کے پیروکار ساورکر اور بعد میں ہیڈگیوار اور گولولکر یا ان کےشاگرد دین دیال اپادھیائے جیسے لوگ بھی تھے۔
زبان اورجمہوریت کے سوال پر پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش نے اپناتصور ایک سیکولر ملک کےطورپر کیا۔ یہ تصور اس کے آئین میں ظاہر ہوا لیکن جلدی ہی ، 1975 میں تختہ پلٹ، شیخ مجیب الرحمن اور ان کےاہل خانہ کے قتل کے بعد نئےحکمرانوں نےآئین میں سیکولرزم کے‘سب سے اوپراللہ میں عقیدے’ کو بنگلہ دیش کا رہنمام اصول بنا دیا۔
اس کے بعد سے اسلام کے نام پر بنی تنظیم مسلسل مضبوط ہوتی گئی۔ ان کے ساتھ اہل حدیث یا وہابی مدرسوں کی طاقت کو بھی جوڑ لیجیے۔ انہیں قومی مدرسہ بھی کہا جاتا ہے۔ الگ الگ وقتوں میں ساری سیاسی پارٹیوں نے ان سے سمجھوتے کیے اور انہیں منظوری بھی دی۔
ان میں سے ایک بڑا حصہ اسلامی تسلط کے خواب دیکھتا ہے اور اسے مذہبی فریضہ مانتا ہے کہ وہ اسے قائم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کرے۔ ہتھیار یاتشدد کے سہارے بھی اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں اکثریت پسندی کی سیاست کے مضبوط ہونے سے بنگلہ دیش کے ان نام نہاد‘اسلام پرست’ تنظیموں کو بھی دلیل ملتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہندوستان اپنے سیکولرازم سے ہٹ سکتا ہے تو پھر ہم کیوں اس کا بوجھ ڈھوئیں۔
جیسےہندوستان میں ، ویسے ہی بنگلہ دیش میں یہ اکثریت پسندوں کی پیدل فوج میں سماج کے نچلے، غریب طبقوں سے بھرتی کی جاتی ہے۔ ایک تاریخی ناانصافی کی کہانی میں وہ یقین کرتے ہیں اور اس بات میں بھی کہ ابھی پوری دنیا میں جو ‘اسلام’پر حملہ ہو رہا ہے، وہ اس کا جواب دینے کا مذہبی کام کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اسے بھی دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ خود کو دیگر پارٹیوں کے مقابلے سیکولر دکھلانے والی عوامی لیگ نے بنگلہ دیش میں جمہوری مظاہرے کو لگ بھگ ناممکن بنا دیا ہے۔شیخ حسینہ ایک جمہوری تاناشاہ میں تبدیل ہو گئی ہیں اور بنگلہ دیش کے انتخابات کے بے خوف اورغیرجانبدار ہونے پر کافی شبہ ہے۔ مخالفین اور معترضین کے ساتھ سختی سے نمٹنا شیخ حسینہ کی فطرت بن گئی ہے۔
یہ جو جمہوری خلا پیدا ہوا ہے، وہ ‘اسلام پرست’ تنظیموں کے ذریعےپُرکیاجا رہا ہے۔ ان کے پاس اسلام کی لاٹھی ہے جو اس سرکار کے سیکولر مخالفین کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے یہ خبر چھپ گئی کہ مودی کے دورے پر صرف ‘اسلامی’تنظیموں نے مخالفت نہیں کی تھی۔
سیکولراور لیفٹ تنظیمیں بھی احتجاج کر رہے تھے۔ ظاہر ہے،یہ دومظاہرے الگ الگ نظریے سے کیے جا رہے تھے۔ ایک سیکولرازم کےنظریے سے کیا جا رہا تھا، اس اصول کو بحال کرنے کے لیے۔دوسرا اسلام کی عظمت کے لیے۔ دوسرے کی کوئی ہمدردی ہندوستانی مسلمانوں سے ہو، ایسا نہیں۔ وہ ایک غیر مجسم ‘مذہب’سےانسپائر ہیں۔ انسانیت ان میں قطعی نہیں ہے۔
وہ اپنے ملک میں سیکولرقلمکاروں ،صحافیوں ،فنکاروں کی جان لے سکتے ہیں۔ مندروں اور ہندومذہبی علامتوں کونقصان پہنچا سکتے ہیں یا ان کی توہین کر سکتے ہیں۔جب وہ اپنے یہاں اقلیتوں کے حقوق کااحترام نہیں کرتے تو پھر دوسرے ملک میں اقلیتوں کےحق کے لیے ان کی آواز میں کتنی ایمانداری ہے؟
خدا نہ کرے اسلام کو حفاظت کے لیے فناہوجانے والی زندگی جینے انسانوں کی ضرورت پڑ جائے! یہ حماقت بھی انسان ہی کر سکتا ہے کہ وہ مذہب کا محافظ بن بیٹھے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ اپنی زمین پر اقلیت کی حفاظت کر سکتے ہیں؟ یا اس سے بھی بڑھ کر کیا ایسے حالات بنا سکتے ہیں کہ یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو؟ ظاہر ہے، حفاظت اسلام کو ان سوالوں میں دلچسپی شاید ہی ہو!
(مضمون نگاردہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر