خبریں

دہلی: بےگھروں کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر کو کورونا ہونے کے بعد نہیں ملا بیڈ، موت

تقریباً ایک دہائی  سے اورکورونا مہاماری کے دوران بھی دہلی کے بےگھر لوگوں کے لیے کام کرنے والے 60 سالہ ڈاکٹر پردیپ بجلوان کی جمعہ کو موت ہو گئی ۔ وہ  کوروناسے متاثر تھے اور اسپتال میں جگہ نہ ملنے کے بعد اپنے گھر پر ہی علاج کروا رہے تھے۔

(فوٹو:  پی ٹی آئی)

(فوٹو:  پی ٹی آئی)

نئی دہلی: تقریباً ایک دہائی  سے (کووڈ 19 مہاماری کے دوران بھی)دہلی میں بےگھر لوگوں کے بیچ رہ کر کام کرنے والے ایک ڈاکٹر کی جمعہ  کو آکسیجن کی کمی سے موت ہو گئی۔ وہ کووڈ 19 پازیٹو پائے گئے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سابق آئی اے ایس افسر اورہیومن  رائٹس کارکن ہرش مندر نے کہا،‘تقریباً 60 سال کے ڈاکٹر پردیپ بجلوان نے اپنا علاج گھر پر ہی رہ کر کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں اسپتال میں بیڈ نہیں مل پایا تھا۔’

ڈاکٹر پردیپ نے مندر کے ساتھ ایک اسٹریٹ میڈیسن پروگرام  میں لگ بھگ 10سالوں تک تعاون  کیا، جس میں وہ ہیلتھ ورکرزکے ساتھ راجدھانی میں بےگھر لوگوں کو ہر رات دیکھنے جاتے تھے۔

مندر نے کہا،‘وہ خود کی زیادہ تشہیر سے بچتے تھے اور سب سےضرورت مند کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ وہ پرانے طریقے کے کامریڈ تھے۔ اسٹریٹ میڈیسن ایک مشکل کام ہے، آپ کو رات میں کام کرنا پڑتا ہے، فٹ پاتھ کے چکر لگانے پڑتے ہیں، بےگھر کلسٹرس ملتے ہیں، لیکن وہ سب سے غریب لوگوں کے ساتھ شامیں گزارنے کے خواہش مند تھے۔ افسوسناک ہے کہ ان کے جیسے لوگ بہت کم ہو گئے ہیں۔’

انہوں نے آگے کہا کہ ڈاکٹر پردیپ کووڈ کلینک میں کام کر رہے تھے، جو کہ ستمبر 2020 میں کشمیری گیٹ کے پاس یمنا کنارے گیتا گھاٹ اور جامع مسجد کے پاس مینا بازار میں اسٹریٹ میڈیسن پروگرام کے تحت کھولے گئے تھے۔

اس سے پہلے وہ ان کلینکوں میں ٹی بی پر طبی امداد اور صلاح بھی دے رہے تھے، جسے مندر بےگھر لوگوں کے لیے ایک سم قاتل  بتاتے ہیں۔

انہوں نے آگے کہا کہ ڈاکٹر پردیپ نے لگ بھگ 100 بےگھر لوگوں کی صحت  کی بھی دیکھ بھال کی، جنہیں پروگرام  کے تحت بزرگوں  کے لیے ایک مرکزقائم  کرنے کے لیے جگہ فراہم  کی گئی تھی۔مندر نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ڈاکٹر پردیپ سینٹرمیں کام کرتے وقت کووڈ 19 سے متاثرہو گئے ہوں۔

مندر نے کہا،‘ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے اسپتالوں میں داخلہ پانے کی کوشش کی لیکن بستر نہیں ملا۔ پھر انہوں نے گھر پر خود کا علاج کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن آکسیجن کی کمی سے ان کے پھیپھڑے خراب ہو گئے اور ان کی موت ہو گئی۔’

ڈاکٹر پردیپ نے 1970کی دہائی  میں سوویت یونین میں میڈیسن کی پڑھائی کی تھی۔ کووڈ پازیٹو ہونے کے بعد ان کی بیٹی اور بیوی نے بھی خود کو آئسولیٹ کر لیا۔مندر نے کہا کہ ڈاکٹر پردیپ کی موت سے اسٹریٹ میڈیسن پروگرام کو بڑا جھٹکا لگےگا، لیکن یہ کمیٹیڈ نرسوں اور ہیلتھ ورکرز کی مدد سے جاری رہےگا۔

انہوں نے آگے کہا، ان اموات کو پوری طرح سے روکا جا سکتا تھا۔ پورے ایک سال کا وقت تھا لیکن اسپتال ابھی بھی بنا بیڈ کے ہیں، یہ کتنا بڑا بحران  ہے۔ کتنی جانیں بچائی جا سکتی تھیں… ڈاکٹر پردیپ ایک الگ زمانہ کے فرد تھے، عوام کی بھلائی والاوقت، ہمیں اسی وقت کو واپس لانا ہوگا۔’