خبریں

یوپی: آکسیجن کی کمی بتانے والے اسپتال پر لکھنؤ انتظامیہ نے ایف آئی آر درج کروائی

گومتی نگر کے سن ہاسپٹل نے تین مئی کو ایک نوٹس میں مریضوں  کے اہل خانہ سے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ان کے مریض کو اسپتال سے شفٹ کرنے کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد لکھنؤ انتظامیہ نے اسپتال پر آکسیجن کی کمی کو لےکر‘جھوٹی خبر’پھیلانے کے الزام میں معاملہ درج کروایا ہے۔ اسپتال نے کہا ہے کہ وہ  اس کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کووڈ 19 کے قہر کے بیچ لکھنؤ انتظامیہ نے بدھ کی دیر رات شہر کے ایک نجی اسپتال کے خلاف آکسیجن کی کمی کے بارے میں ‘فیک نیوز’ پھیلانے کے الزام  میں ایف آئی آر درج کروائی ہے۔انڈین ایکسپریس کےمطابق، معاملہ گومتی نگر کے سن اسپتال کا ہے،جس کوتقریباً مہینے بھر پہلے کووڈ اسپتال بنایا گیا ہے۔ ایف آئی آر ہونے کے بعد اسپتال نے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ جائیں گے۔

اسپتال نے 3 مئی کو ایک نوٹس میں بتایا تھا کہ ان کے یہاں آکسیجن کی کمی ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کے اہل خانہ  سے ان کو وہاں سے شفٹ کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ہاسپٹل کے مطابق،تین مئی کو 45 بیڈ والے ان کے اسپتال میں 38 مریض تھے، تمام آکسیجن سپورٹ پر تھے۔ جمعرات  کو یہاں 28 مریض تھے، جن میں سے 20 آکسیجن سپورٹ پر تھے۔

یہ ایف آئی آر الہ آباد ہائی کورٹ کے اس تبصرہ  کے بعد کیا گیاہے، جہاں عدالت نے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہو رہی اموات کو ‘قتل عام’بتایا تھا۔وبھوتی کھنڈ تھانے کے تھانہ انچارج چندرشیکھر سنگھ کے مطابق اسپتال کے ڈائریکٹر اکھلیش پانڈے کے خلاف ڈیزاسٹر مینجمنٹ  اور مہاماری ایکٹ کے علاوہ آئی پی سی کی مختلف دفعات  میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے اور اس معاملے میں دیگر لوگوں کے شامل ہونے پر ان کے خلاف بھی معاملہ درج کیا جائےگا۔

سنگھ کے مطابق، اسپتال انتظامیہ نے تین مئی کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر یہ‘افواہ’ پھیلائی تھی کہ اسپتال میں آکسیجن کی کمی ہے اور مریضوں کے تیمارداروں سے کہا تھا کہ اسپتال میں جو مریض آکسیجن والے بستروں پر بھرتی ہیں انہیں کہیں اور لے جائیں۔ بعد میں ضلع انتظامیہ نے اس معاملے کی جانچ کی تو پایا کہ اسپتال میں آٹھ جمبو آکسیجن سلینڈر اور کئی دیگر چھوٹے سلینڈردستیاب ہیں اور اسپتال میں کافی  آکسیجن ہے۔

اکھلیش پانڈے نے سرے سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس سے کہا، ‘میں چاہتا ہوں کہ انتظامیہ آئے اور یہاں آکر مریضوں کے ساتھ والوں سے پوچھے کہ تین مئی کو کیا ہوا تھا۔ ہم اس بارے میں الہ آباد ہائی کورٹ  میں  رٹ کی عرضی داخل کریں گے۔’

پانڈے نے بتایا کہ وہ اسپتال کے منیجر ہیں، جبکہ پولیس کے مطابق وہ  ڈائریکٹروں  میں سے ایک ہیں۔پانڈے نے یہ بھی بتایا کہ ان پر ایس ڈی ایم(صدر)پرپھل ترپاٹھی کی جانب سے دباؤ بھی ڈالا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘میرے پاس ایس ڈی ایم صاحب کا کا ویڈیو ہے، جس میں وہ مجھ سے میری مدد کرنے کے بدلے میں کی جانے والی چیزیں لکھوا رہے ہیں۔ اب انہوں نے میرے خلاف نوٹس جاری کر دیا ہے۔’

پانڈے نے کہا کہ وہ  عدالت سے پیشگی ضمانت اورغیر جانبدارانہ جانچ کی مانگ کریں گے۔

اس اخبارکے ذریعے ایس ڈی ایم سےرابطہ نہیں کیا جا سکا ہے، لیکن انہوں نے پہلے ایک شروعاتی جانچ کیے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے مطابق، 20 مریضوں کے آکسیجن سپورٹ پر ہونے کے ساتھ اسپتال کے پاس آٹھ جمبو آکسیجن سلینڈر، دو بی ٹائپ سلینڈر اور کانسینٹریٹر تھے۔

انتظامیہ کی جانب سے درج شکایت میں کہا گیا ہے، لکھنؤ انتظامیہ اور سرکار کے آکسیجن کی کمی کو لےکر افواہ نہ پھیلانے کے حکم  کے باوجود اسپتال کے ذریعےسوشل میڈیا پر آکسیجن سپورٹ والے مریضوں کے تیمارداروں سے ان کے مریض کو لے جانے کا نوٹس دیا گیا…انتظامیہ کے ذریعے کی گئی جانچ میں وہاں آٹھ جمبو آکسیجن سلینڈر، دو بی ٹائپ سلینڈر اور کانسینٹریٹر پائے گئے۔’

انتظامیہ کے مطابق یہ ‘کافی ’ آکسیجن تھی۔

حالانکہ اکھلیش پانڈے نے کہا کہ اسپتال کو بیک اپ بھی رکھنا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا،‘کئی بار درخواست کے بعد بھی کسی کی طرف سے آکسیجن کی فراہمی  کو لےکر کوئی یقین دہانی  نہیں کرائی گئی ۔ آکسیجن کی بات پر انتظامیہ کی طرف سے نہ ہی سننے کو ملا۔ ڈرگ انسپکٹر نے مجھ سے کہا کہ جب پورے لکھنؤ میں کہیں آکسیجن سلینڈر دستیاب  نہیں ہے تو وہ مجھے کہاں سے دے سکتے ہیں۔ ہم نے نوٹس اسی لیے جاری کیا تھا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے اسپتال میں کسی کی موت نہ ہو، اور یہ بھی یقینی بناسکیں کہ اگر کوئی کہیں اور جانا چاہتا ہے، تو وہ ایسا کر سکے۔’

قابل ذکر ہے کہ چار مئی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے آکسیجن کی فراہمی  نہ ہونے سے موت کو مجرمانہ فعل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قتل عام  سے کم نہیں ہے۔

عدالت کے تبصرے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ان خبروں پر آئے تھے، جن کے مطابق آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لکھنؤ اور میرٹھ ضلع میں کووڈ 19 مریضوں کی جان گئی تھی۔ عدالت نے لکھنؤ اور میرٹھ کے ضلع حکام  کوہدایت  دی ہے کہ وہ  ان کی 48 گھنٹوں کے اندرحقائق پر مبنی جانچ کریں۔

شنوائی کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اتوار کو میرٹھ میڈیکل کالج کے نئے ٹراما سینٹر کے آئی سی یو میں آکسیجن نہیں ملنے سے پانچ مریضوں کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ کورٹ کو لکھنؤ کے گومتی نگر کے سن ہاسپٹل میں آکسیجن کی فراہمی نہ ہونے سے ڈاکٹروں کے کووڈ مریضوں سے اپناانتظام  خود کرنے کی بات سے بھی واقف کرایا گیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ خبرریاستی سرکار کے اس دعوے کے بالکل برعکس  تصویر دکھاتی ہیں کہ صوبے میں آکسیجن کی کافی سپلائی  ہے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ  دنوں صوبےکے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا تھا کہ صوبے کے کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری اسپتال میں آکسیجن یا بیڈ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کچھ لوگ کالابازاری کر رہے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔

اس سے پہلے کووڈ کی صورتحال پر ایک پی آئی ایل کو سنتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ اقتدارمیں بیٹھے لوگوں کو ‘مائی وے اور نو وے’(ہماری چلےگی ورنہ کسی کی نہیں)والا رویہ چھوڑکر تمام  جگہوں سے مل رہے مشوروں  کاخیرمقدم کرنا چاہیے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)