خبریں

انتخاب ٹالنے کو سوچا تھا لیکن اس کے خلاف فیصلہ لیا گیا: الیکشن کمشنر راجیو کمار

گزشتہ دنوں مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کووڈ 19 کی دوسری لہر کے لیے اس کے عہدیداروں پر قتل کا معاملہ درج کیا جا سکتا ہے۔ اس کو لےکر الیکشن  کمشنر راجیو کمار نے اپنا ایک الگ حلف نامہ  تیار کر استعفیٰ دینے کو کہا تھا۔کمیشن نے اسے خارج کر دیا۔

الیکشن کمشنر راجیو کمار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

الیکشن کمشنر راجیو کمار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: الیکشن کمیشن نے حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے کچھ مراحل  کو ٹالنے پر غور کیا تھا، لیکن کمیشن کی امیج  خراب  ہونے کے ڈر سے اس کو لاگو نہیں کیا گیا۔کمیشن کے ایک کمشنر کے ذریعے تیار کئے گئے ایک ڈرافٹ حلف نامہ میں سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق مدراس ہائی کورٹ کی جانب سےکمیشن کے طرزعمل کو لےکر کیے گئے‘سخت تبصروں ‘والے معاملے میں الیکشن کمشنر راجیو کمار نے اپنا ایک الگ حلف نامہ تیار کیا تھا، جس میں انہوں نے ان باتوں کو درج کیا تھا۔ حالانکہ کمیشن نے کمار کے اس حلف نامہ  کو خارج کر دیا تھا۔

کمار نے لکھا کہ اگر اس طرح کا فیصلہ لیا جاتا تو اس کو لےکر کافی تنازعہ ہوسکتا ہے اور کمیشن پرالزام  لگایا جاسکتا ہےکہ وہ  ایک پارٹی کے لیےجانبداری  کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کمشنر نے یہ بھی کہا کہ کورونا انفیکشن کو دیکھتے ہوئے مغربی  بنگال انتخاب کے باقی مراحل  کو ایک ساتھ ملانے پرغور کیا گیا تھا، لیکن یہ قانوناًممکن نہیں تھا کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ،1951 کی دفعہ30 میں کہا گیا ہے کہ انتخاب کے ہر مرحلے الگ ہوتے ہیں اور اس کے لیے الگ الگ نوٹس جاری کی جانی چاہیے۔

غورطلب ہے کہ مدراس ہائی کورٹ نے 26 اپریل کو الیکشن کمیشن کی سخت سرزنش کرتے ہوئے اسے ملک میں کووڈ 19 کی دوسری لہر کے لیے‘اکیلے’ ذمہ دار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ‘سب سے غیر ذمہ دارادارہ’ہے۔

عدالت نے زبانی طور پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کے خلاف قتل کے الزامات میں بھی معاملہ درج کیا جا سکتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نےسیاسی پارٹیوں کو ریلیاں اوراجلاس کرنے کی اجازت دےکر مہاماری کو پھیلنے کے موقع دیا۔

اس کے بعد کمیشن نے کہا تھا کہ کووڈ گائیڈ لائن پر عمل کروانے کی ذمہ داری اس کی نہیں، بلکہ سرکاروں کی ہے۔اس معاملے کو لےکرالیکشن کمشنر راجیو کمار نے اپنا ایک الگ حلف نامہ تیار کیا تھا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر مدراس ہائی کورٹ چاہتا ہے تو وہ  ‘سزا’کے طور پر اپنا استعفیٰ دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے  ان تبصروں سے الیکشن کمیشن کی امیج کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اپنے حلف نامے میں انہوں نے کورٹ سے گزارش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عدالت ادارہ  نہیں، بلکہ افراد کو اس کے لیےسزا دے۔ اس سمت میں انہوں نے کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ  اپنے تبصرے واپس لے لیں یا پھر ان کا استعفیٰ  قبول کریں۔

کمار نے اپنے ڈرافٹ حلف نامے میں لکھا تھا، ‘الیکشن کمیشن میں عوام  کااعتماد نہ ہونے کی وجہ سے جمہوریت خطرے میں ہے۔ ایک الیکشن کمشنر کےطور پر میں اپنی ذاتی  ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا ہوں اور میں یہ عدالت پر چھوڑتا ہوں کہ وہ  جس صورت میں چاہے، مجھے سزا دے سکتے ہیں۔ حالانکہ ادارہ  کو اس سے باہر رکھا جانا چاہیے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو کبھی بھی یہ بتایا نہیں گیا کہ کووڈ 19 کی سنامی آنے والی ہے۔حالانکہ اس حلف نامہ کو الیکشن کمیشن نے قبول ہی نہیں کیا اور یہ عدالت  کے سامنے دائر ہی نہیں کیا گیا۔

معلوم ہو کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں عرضی  دائر کر مدراس ہائی کورٹ کے ان زبانی تبصروں  کو واپس لینے اور اسے لےکر میڈیا رپورٹنگ پر روک لگانے کی مانگ کی تھی۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ  نے حالانکہ مانا کہ ہائی کورٹ کے تبصرے‘سخت’ تھے، لیکن انہیں ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتی فیصلےکا حصہ نہیں ہیں۔

بنچ  نے کہا کہ میڈیا کو عدالت کی کارر وائی کی رپورٹنگ کرنے کا حق  ہے۔ اس نے کہا، ‘بنا سوچے سمجھے کیے گئے تبصرے کی غلط تشریح  کیے جانے کاخدشہ  ہوتا ہے۔’