سرکارکی طرف سےکووڈ 19کی دوسری لہر کے اندازے میں چوک پر ماہر معاشیات جیاں دریج نے کہا کہ سرکار طویل عرصہ تک وائرس کے کمیونٹی کے بیچ پھیلنے کی بات سے انکار کرتی رہی ہے، جبکہ ریکارڈ میں معاملے لاکھوں میں تھے۔ عوام کو یقین دلانے کے لیے کہ سب ٹھیک ہے، گمراہ کن اعداد وشمار کا سہارا لیا گیا۔ ہم اب اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: جانےمانے ماہر معاشیات جیاں دریج نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے بیچ محنت کش طبقے کے لیے حالات اس بار بدتر لگ رہے ہیں اور اس سے ہندوستان میں‘روزگار کا بحران ’شدید ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وباکی روک تھام کے لیےصوبوں کی سطح پر نافذ‘لاک ڈاؤن’ سےملک گیر بند جیسی ہی حالت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکار کا 2024-25 تک ملک کو 5000ارب ڈالر کی معیشت بنانے کا ہدف کبھی بھی‘عملی ہدف’ نہیں تھا۔
ہندوستانی معیشت پر کووڈ مہاماری کی دوسری لہر کے اثرات کے بارے میں دریج نے کہا کہ جہاں تک محنت کش طبقے کا سوال ہے، حالات پچھلے سال سے بہت الگ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا،‘مقامی سطح پر‘لاک ڈاؤن’کااثراتنا تباہ کن ممکنہ طور پر نہیں ہوگا، جوقومی سطح پر لگائی گئی تالابندی(لاک ڈاؤن)کا تھا، لیکن کچھ معاملوں میں چیزیں اس بار محنت کش طبقے کے لیے زیادہ بدتر ہیں۔’
ماہر معاشیات نے کہا کہ اس بار انفیکشن پھیلنے کا امکان بہت زیادہ ہے اور اس سے معاشی سرگرمیوں کے پٹری پر آنے میں وقت لگےگا۔
انہوں نے کہا،‘بڑے پیمانے پر ٹیکہ کاری کے باوجود اس بات کا کافی امکان ہے کہ رک رک کر آنے والا بحران لمبے تک تک بنا رہےگا۔’
دریج نے کہا، ‘پچھلے سال سے موازنہ کیا جائے تو لوگوں کی بچت پر منفی اثر پڑا۔ وہ قرض میں آ گئے۔ جو لوگ پچھلی باربحران سے پار پانے کے لیے قرض لیے، وہ اس بار پھر سے قرض لینے کی حالت میں نہیں ہوں گے۔’
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال راحت پیکیج دیے گئے تھے، لیکن آج راحت پیکیج کی کوئی چرچہ تک نہیں ہے۔
ماہر معاشیات نے کہا،‘دوسری طرف مقامی لاک ڈاؤن جلدی ہی قومی لاک ڈاؤن میں بدل سکتا ہے۔ حقیقت میں جو حالت ہے، وہ ملک گیر تالابندی جیسی ہی ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘مختصراً اگر کہا جائے تو ہم روزگار کے سنگین بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ سرکار کیسے کووڈ 19کی دوسری لہر کے اندازے سے چوک گئی، دریج نے کہا کہ ہندوستانی سرکار ہمیشہ سے انکار کی حالت میں رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سرکار طویل عرصہ تک کووڈ کے کمیونٹی کے بیچ پھیلنے کی بات سے انکار کرتی رہی ہے، جبکہ ریکارڈ میں معاملے لاکھوں میں تھے۔’
انہوں نے کہا، ‘جب سرکاری اعدادوشمار کے ایک شروعاتی تجزیہ نےطبی خدمات میں کمی کا انکشاف کیا تو سرکار نے اعدادوشمار کو واپس لے لیا۔’
ماہر معاشیات نے کہا کہ عوام کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ سب ٹھیک ہیں،گمراہ کن اعدادوشمار کا سہارا لیا گیا۔ بحران سے انکار کرنا اسے بدتر بنانے کا سب سے قابل اعتماد طریقہ ہے۔ ہم اب اس خوداعتمادی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
وزارت صحت کے بدھ کو صبح جاری اعدادوشمار کے مطابق 24 گھنٹے میں ملک میں کووڈ 19 کے 3.48 لاکھ معاملے سامنے آئے جبکہ انفیکشن کی وجہ سے4205 لوگوں کی موت ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں بالخصوص صحت عامہ کی ان دیکھی کی طویل تاریخ رہی ہے اور ہم آج اسی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اچھی زندگی کے لیےصحت سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان میں صحت پر خرچ دہائیوں سے جی ڈی پی کا ایک فیصدبنا ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سابق یو پی اے حکومت میں قومی مشاورتی کونسل (این اے سی) سے وابستہ رہے دریج نے کہا کہ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم ،نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ اور سوشل سیکیورٹی اسکیموں جیسے موجودہ سماجی تحفظ منصوبوں اور قانون کے تحت کافی کچھ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام راشن کارڈہولڈر کو مجوزہ دو مہینے کے بجائے طویل عرصے تک ضمنی(سپلیمنٹری)اشیائے خوردنی آسانی سے دستیاب کرایا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی پبلک ڈسٹری بیوشن کا دائرہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
دریج کے مطابق، ‘موجودہ منصوبوں کے علاوہ مجھے لگتا ہے کہ بہتر طور پر تیار، جامع نقد منتقلی پروگرام مفید ثابت ہوگی۔’
ایک دیگرسوال کے جواب میں بیلجیم میں پیدا ہوئے ہندوستانی ماہر اقتصادیات نے کہا، ‘ہندوستان کو 2024-25 تک 5000 ارب ڈالر کی معیشت بنانے کا ہدف کبھی بھی عملی ہدف نہیں تھا۔ اس ہدف کا مقصد صرف ہندوستان کے اشرافیہ طبقےکی سپرپاورکے عزائم کو پورا کرنا ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2024-25 تک ہندوستان کو 5000 ارب ڈالر کی معیشت بنانے کاہدف رکھا تھا۔
دریج نے کہا کہ اگرہم جی ڈی پی کو ایک جائز ترقیاتی اشارے کے طور پر بھی قبول کر لیتے ہیں، لیکن اس کے لیے اسٹینڈرڈ اپروچ یہ ہونا چاہیے کہ ہم جی ڈی پی کو فی شخص کی بنیاد پر دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ہندوستا ن دنیا کے سب سے غریب ممالک میں سے ایک ہے اور اگر ہم ‘کل جی ڈی پی’ کو دیکھتے ہیں تو یہ ہندوستان کی بڑی آبادی کی وجہ سےکافی بڑی دکھائی دیتا ہے، نتیجتاًیہ خوشحالی اورطاقت کا بھرم پیدا کرتی ہے۔
جیاں دریج نے کہا کہ اگر سرکار کی دلچسپی لوگوں کی حقیقی حالت کے بجائے ہندوستان کو عالمی سطح پر بڑی طاقت کے طورپر دکھانا ہے تو ضرور ‘کل جی ڈی پی’اہم ہوگی۔
ماہر معاشیات نے کہا کہ یہ آپ کو ایک بڑی فوج بنانے میں مدد کر سکتا ہے، لیکن اس کا وکاس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں