ٹائمز آف اسرائیل کے کالم نگار ڈیوڈ ہوروز کے مطابق اسرائیل لڑائی تو جیت گیا، مگر جنگ ہار گہا ہے۔ان کے مطابق اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی طرف سے جو سفارتی امداد ایسے اوقات میں مہیا ہوتی تھی، و ہ اس بار اس سے محروم تھا اور دنیا بھر میں اس کے خلاف ایک ماحول بن گیا تھا، جو اب کسی وقت یہودی مخالف رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
اسرائیل کے ایک معروف کالم نویس گڈیون لیوی نے ایک بار وزیر اعظم یہود براک کو،جو 1999سے 2001تک اس عہدے پر فائز تھے، سے پوچھا کہ اگر وہ فلسطینیوں کی جگہ پر ہوتے تو ان کے کیا احساسات ہوتے؟ براک نے برجستہ جواب دیا کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کے ممبر ہوتے۔ ان کے اس بیان نے اس وقت خاصا تنازعہ پیدا کر دیا تھا۔
یہودیوں کاکہنا تھا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی عسکری تحریک کو جواز فراہم کردیا ہے، جبکہ فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے ان کی سبھی تنظیموں کو دہشت گرد وں کے کھاتے میں ڈال دیاہے۔
غازہ سے بس ایک میل کے فاصلے پر اسرائیل کا شہر نگار یعنی فلم سٹی سدیروت ہے۔ بارڈر پر ہونے کی وجہ سے غازہ سے آئے راکٹوں کا نشانہ بھی زیادہ یہی بنتا ہے۔ 2004میں ان راکٹوں کی زد میں دو یہودی بچے چار سالہ آفک زھاوی اور دو سالہ ڈورت بنی سیان ہلاک ہوگئے تھے۔
ان کی یاد میں اسرائیلی حکومت نے شہر کے مرکز میں ایک یادگار کے طور پر ان کے مجسمے نصب کیے ہیں اور باہر سے آنے والے صحافیوں اور دیگر وفود کو یہ جگہ دکھا کر باور کرایا جاتا ہے کہ فلسطینی کس قدر ظالم ہیں کہ وہ معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔
خیر مجھے یاد ہے کہ اس جگہ کا دورہ کرنے کے بعد ایک معمر خاتون کے ساتھ ہماری ملاقات کروائی گئی اور بتایا گیا کہ آفک کی دادی ہے۔ غازہ شہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب وہ کئی سال قبل کے راکٹ حملوں اور اس کے پوتے کی موت کے بارے میں بتا رہی تھی، کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے کبھی سوچا ہے کہ اس جالی دار باڑ کے اس پار جب اسرائیلی فوج کی بمباری سے آفک کی ہی طرح کے شیر خوار بچے ہلاک ہوتے ہیں تو ایسی ہی کسی دادی کا کلیجہ بھی شق ہوتا ہوگا؟ بڑی بی کچھ دیر تک تو سن ہوگئی۔
مگر پھر صحافیوں اور اسرائیلی افسران کے سامنے ہی حکومت کو کوسنے لگی اور بتایا کہ چند روز قبل بھی ہیلی کاپٹروں نے مشین گنوں سے غازہ میں کسی کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد کئی گھنٹوں تک اس شہر کی آبادی کو راکٹوں سے بچاؤ کےلیے بنائے گئے بنکروں میں رات گزارنی پڑی۔
تل ابیب میں گڈیون لیوی مجھے بتا رہے تھے کہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی بڑی وجہ خود اسرائیلی سوسائٹی اور امریکہ کی بے جا پشت پناہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی دوستی بس ایسی ہی ہےجو اپنے نشہ کے عادی دوست کو اسپتال میں بھرتی کروانے یا اس کا علاج کروانے کے بجائے اس کو مزید نشیلی چیزیں فراہم کروارہا ہو۔
نشہ کا عادی فرد تو خوش ہے مگر یہ کہاں کی دوستی ہے۔ اسرائیل کی مثال اس شخص کی ہےجو طاقت کے نشہ میں چور ہے اور اس کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں وہی قومیں زندہ و جاوید رہتی ہے جو جیو اور جینے دو کے فلسفہ پر عمل کرتی ہیں، ورنہ ان کا انجام نہایت ہی برا ہوتا ہے اور یہودیوں نے اس کا مزہ بھی چکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ اور واشنگٹن میں موجود یہودی لابی اسرائیل کی بقا کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو ایک طرح سے ایک خول میں بند کر کے رکھا ہوا ہے، جہاں اس کو صرف اپنی آوا زسنائی دیتی ہے۔ مزید اسرائیلی سوسائٹی ایک طرف فلسطینیوں کے حقوق سے ہی انکاری ہے، دوسری طرف خود کو ہی مظلوم ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
اسرائیلی اسکولوں میں کچے اذہان کو عربوں اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے، اس سے شاید ہی مستقبل قریب میں کسی تصفیہ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ جس کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ یروشلم شہر کے نواح میں لاٹرن کے مقام پر 1948میں اردنی افواج کے ساتھ خونریز معرکہ میں 586اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔ اس جگہ پر پارک میں ایک یادگار نصب ہے۔
ان کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا کہ پرائمری اسکول کے بچے اپنے استاد کے ساتھ قطار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ استاد انگریزی میں عربوں اور مسلمانوں کے خلاف نہایت ہی بلند، جذباتی اور جوشیلے لہجے میں نفرت گھول رہا تھا۔ اس حد تک کہ ہمارے وفد میں ہی اس وقت دی ٹیلی گراف کے سفارتی مدیر کے پی نیر نے مداخلت کرکے اس استاد کو خوب ڈانٹا۔ اس کو بتایا کہ جنگ میں تو فریقین کا نقصان تو ہوتا ہی ہے، مگر اس نفرت کے ساتھ وہ کیسے جی سکیں گے۔
صحافی لیوی کا بھی کہنا تھا کہ اس نے ایک بار اپنے کالم میں تحریر کیا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کے مغربی کنارہ کے جنین شہر سے واپسی پر چیک پوسٹ پر ایک ایمبولینس اسرائیلی سیکورٹی دستوں کی کلیرنس کا انتظار کر رہی تھی۔ جب 45منٹ کے بعد بھی سکیورٹی اہلکار اس ایمبولنس کو چیک کرنے کے بجائے اندر کمرے میں تاش کھیلنے میں محو رہے تو اس نے اپنی گاڑی سے اتر کر پہلے ایمبولینس ڈرائیور سے باز پرس کی۔
اس نے کہا کہ یہ تو روز کا معمول ہے یہ اہلکار اپنی مرضی سے گھنٹوں انتظار کروانے کے بعد گاڑی چیک کرنے کے بعد روانہ ہونے دیتے ہیں۔ پھر اس نے سیکورٹی اہلکاروں کے کمرے میں گھس کر ان سے سوال کیا کہ اگر اس ایمبولنس میں ان کے والد یا کوئی قریبی رشتہ دار اسپتال میں بھرتی ہونے کےلیے جا رہا ہوتا تو ان کا رویہ کیسا ہوتا؟
یہ سن کر انہوں نے اس اسرائیلی صحافی پر بندوقیں تان دیں او رپوچھا کہ آیا اس نے کیسے یہودی اور فلسطینی کا موازنہ کیا؟جب اس نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے اس سلوک کو حیوانیت بتایا تو اگلے دن ان کے اخبار حارث کے دفتر پر حیوانوں کے حقوق کےلیے سرگرم کارکنوں نے حتجاج کیا۔ یعنی وہ فلسطینیوں کو حیوانوں کو دیے حقوق دینے کے بھی روادار نہیں تھے۔
خیر 11روز کی جنگ نے غازہ کو ایک ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرکے 66 بچوں سمیت 248 افراد کو ہلاک تو کردیا،مگر ڈاکٹرذاکر حسین کی مشہور کہانی ابو خان کی بکری کی طرح،متفقہ اعتراف ہے کہ حمص نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔ ذاکر حسین کی کہانی کے آخر میں بھیڑیے اور ابو خان کی بکری چاندنی کی رات بھر ہوئی جنگ میں بکری ہلاک ہوجاتی ہے۔
صبح ٹہنیوں پر بیٹھے پرندے بحث کر رہے ہوتے ہیں کہ اس جنگ میں کس کی فتح ہوئی۔ سبھی کہتے ہیں کہ بھیڑیے نے میدان مار لیا، مگر ایک جہاندیدہ اور معمر پرندے کا اصرار تھا کہ چاندنی جیت گئی۔ اس کی آزادی کی لگن اور اس پر قربان ہونے کی تڑپ کے علاوہ رات بھر اپنے ننھے سینگوں کے ساتھ بھیڑیے کے ساتھ معرکہ آرائی نے چاندنی کو فاتح بنالیا۔
ٹائمز آف اسرائیل کے کالم نگار ڈیوڈ ہوروز کے مطابق اسرائیل لڑائی تو جیت گیا، مگر جنگ ہار گہا ہے۔ان کے مطابق اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی طرف سے جو سفارتی امداد ایسے اوقات میں مہیا ہوتی تھی، و ہ اس بار اس سے محروم تھا اور دنیا بھر میں اس کے خلاف ایک ماحول بن گیا تھا، جو اب کسی وقت یہودی مخالف رویہ اختیار کر سکتا ہے۔دوسری طرف نیا موڑ یہ تھا کہ اسرائیل میں آباد عرب آبادی بھی اس بار اس ظلم کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ ماضی میں یہ 23فیصد عرب اسرائیلی آبادی فلسطینی تنازعہ سے خود کو لاتعلق رکھتی تھی۔
اس کے علاوہ ایک اور خاص بات یہ رہی کہ سوشل میڈیا کی بدولت یورپ اور امریکہ میں رائے عامہ خاصی حد تک اسرائیل کے خلاف منظم ہوگئی۔ امریکہ میں مقیم یہودی آبادی کے ایک طبقہ نے بھی اس قتل و غارت کے خلاف آواز بلند کی۔ دوسری طرف ترکی کی پر جوش سفارت کاری اور روس و ایران کی پس پردہ دھمکیوں نے بھی اپنا اثر دکھا کر اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کروادیا۔
روس نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ کو اسرائیل کے خلاف محاذ کھولنے سے باز رکھا ہوا تھا۔ مگر بتایا جاتا ہے آئیس لینڈ میں منعقد آرکٹک کونسل کی میٹنگ کے دوران روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کو بتایا کہ وہ اب مزید ایران کوحزب اللہ کو اسرائیل پر راکٹ حملوں سے باز نہیں رکھ سکے گا۔ اور اگر غازہ کی طرز پر اسرائیل نے ان حملوں کے جواب میں فضائی حملے کیے تو روس شام اور لبنان کو فضائی کور فراہم کردےگا۔
روس کی یہ دھمکی خاصی کار گر ثابت ہوئی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اس دوران کئی بار اپنے روسی ہم منصب ولادمیر پتن سے فون پر بات کرکے ا ن سے مداخلت کی اپیل کی تھی۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مڈل ایسٹ شعبہ کے انچارج شالوم لیپنی کے مطابق اسرائیل کو جلد ہی فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کردینا چاہیے، تاکہ حمص کی مقبولیت کو لگام لگائی جاسکے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کی طرف سے فلسطینی ایشو کو پس پشت ڈالنے کی جو کوششیش ہو رہی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے اور بتایا ہے کہ یہ قضیہ کو حل کیے بنا شاید ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکے گا۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر