خبریں

متاثرہ مسلمان کے اہل خانہ نے معاملے میں یوپی پولیس کے ’فرقہ وارانہ زاویہ‘ نہ ہونے کے دعوے کو چیلنج کیا

اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں عبدالصمد سیفی نام کے ایک بزرگ مسلمان پر حملہ کرنے اور انہیں ‘جئے شری رام’ کہنے پر مجبور کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ متاثرہ کے بیٹے کا کہنا ہے  کہ والد  نےتحریری  شکایت میں ان کے ساتھ ہوئی  بدسلوکی کو بیان  کیا ہے، لیکن پولیس نے جو ایف آئی آر لکھی ہے، اس میں اہم تفصیلات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

بلندشہر میں ببلو سیفی۔ (فوٹو: عصمت آرا/دی وائر)

بلندشہر میں ببلو سیفی۔ (فوٹو: عصمت آرا/دی وائر)

ایک بزرگ مسلمان کی جانب سے اپنے اوپرمذہبی وجوہات  سے حملے کا الزام  لگانے والا ایک ویڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہونے کے بعد اتر پردیش پولیس نے دی  وائر، ٹوئٹر، تین صحافیوں اور تین کانگریسی  رہنماؤں پر فرقہ وارانہ نفرت  پیدا کرنے کی سازش کے بارے میں ٹوئٹ کرنے کا الزام  لگاتے ہوئے ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔

گزشتہ 15 جون کی رات 11:20 بجے پر دائر ایف آئی آر میں پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ153(دنگے کے لیے اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں  کے بیچ عداوت کو بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 505(شرارت)، 120بی (مجرمانہ  سازش) اور 34 (یکساں ارادے)کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

بتادیں کہ 72سالہ عبدالصمد سیفی نے ایک ویڈیو میں الزام  لگایا تھا کہ پانچ جون کو ان پر حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی بھی کاٹ دی اور ‘جئےشری رام’ کہنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔گزشتہ 7 جون کو پولیس کی جانب سے غازی آباد میں نامعلوم  لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، جہاں آئی پی سی کی دفعہ 504 (جان بوجھ کر توہین کرنا) کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن عام  طور پر فرقہ وارانہ جرائم  کے لیے استعمال ہونے والی کسی بھی دفعہ  کو نہیں لگایا گیا۔

ایسا اہل خانہ کے یہ کہنے کے باوجود کیا گیا کہ 6 جون کی سیفی کی تحریری  شکایت میں تفصیل  تھی، جس سے یہ واضح  ہو گیا تھا کہ انہیں فرقہ وارانہ تبصروں  اور دھمکیوں کا شکار ہونا پڑا تھا۔

72سالہ عبدالصمد سیفی کی جانب سے 6 جون، 2021 کو تحریری  شکایت جس میں انہوں نے ایک دن پہلے ہوئے حملے کے بارے میں بتایا ہے۔

72سالہ عبدالصمد سیفی کی جانب سے 6 جون، 2021 کو تحریری  شکایت جس میں انہوں نے ایک دن پہلے ہوئے حملے کے بارے میں بتایا ہے۔

رپورٹر نے جب 6 جون کو لکھی گئی ایک شکایت کی کاپی  اہل خانہ کو دکھائی تو انہوں نے اسے حقیقی  بتایا۔دی وائر کی گزارش پر سیفی کو ایف آئی آر درج کرانے میں مدد کرنے والے مقامی  سماجوادی پارٹی رہنما امید پہلوان ادریسی نے فوٹو کا ایک اسکرین شاٹ ساجھا کیا جو کہ شکایت درج کیے جانے کے دن ہی لیا گیا تھا۔

حالانکہ پولیس کی جانب سے اس کی کوئی آفیشیل  تصدیق  نہیں کی گئی ہے، لیکن تاریخ کی مہرسے نشاندہی ہوتی ہے کہ سیفی کی طرف سےاپنے حملہ آوروں کے ذریعے‘جئے شری رام’کہنے کاالزام  ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے پولیس کے علم  میں لایا گیا تھا۔

اپنی جانب  سے آفیشیل  طور پر معاملے کی جانچ کرنے والی غازی آباد پولیس کا کہنا ہے کہ عبدالصمد سیفی پر حملہ ایک آپسی معاملے کا نتیجہ  تھا اور ملزم  نے انہیں پیٹا تھا، کیونکہ انہوں نے انہیں ایک تعویذ دیا تھا، جس کا ان پر منفی اثرپڑا تھا۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا، ‘عبدالصمد (متاثرہ)، عادل (ملزم)اور کلو (ملزم)وغیرہ دیگر واقعہ  سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے، کیونکہ عبدالصمد نے گاؤں میں کئی لوگوں کو تعویذدی تھی۔’حالانکہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے دی وائر کو بتایا کہ ان کےوالد حملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی  کاروبار بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کا تعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔

سچائی  یہ ہے کہ اس معاملےمیں  پولیس نے ایک مسلمان کو گرفتار کیا ہے اور اس کا استعمال سرکاری  طور پر فرقہ وارانہ جرائم  کے معاملہ سے انکار کرنے میں کر رہی ہے، جیسا کی متاثرہ سیفی نے الزام  لگایا ہے۔لیکن اس دعوے کی  بھی مخالفت کی گئی ہے۔ ملزم عادل کے بھائی فضل خان کا دعویٰ ہے کہ عادل صرف متاثرہ کو بچانے کے لیے موقع پر گیا تھا۔

فضل خان نے کہا، ‘اسے اس معاملے میں پھنسایا گیا ہے۔ اگر وہ قصوروار ہوتا تو گرفتاری سے پہلے وہ خود تھانے نہیں جاتا۔’

تحریری  شکایت میں شامل کئی اہم جانکاریاں ایف آئی آر سے غائب

غازی آباد (دیہی)کے ایس پی ایراج راجہ نے منگل کو کہا، ‘پہلی ایف آئی آر، جو 7 جون کو درج کی گئی تھی، میں متاثرہ نے کسی کا نام نہیں لیا اور نہ ہی ہمیں اغوا، پٹائی اور جئے شری رام کا نعرہ لگانے کے لیے مجبور کرنے کے بارے میں بتایا۔’

پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ نے پولیس کو جو بتایا اور وائرل ویڈیو میں اس کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے بیچ ایک خامی ہے، جبکہ ان کے بیٹے ببو نے دی وائر کو بتایا کہ ایسا اس لیے ہے، کیونکہ پولیس نے خود ایف آئی آر کا مسودہ تیار کیا اور سیفی کی تحریری شکایت میں شامل کئی باتوں  کو نظر انداز کر دیا۔

منگل کی رات سیفی کی جانب سے تحریری  شکایت کی کاپی حاصل کرنے کے بعد دی  وائر نے دستاویز کے بارے میں غازی آباد پولیس سے ردعمل حاصل کرنے کی کئی کوشش کی۔ حالانکہ اس خبر کو لکھے جانے تک پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اگر وہ کوئی جواب دیتے ہیں تو ہم اسے یہاں اسٹوری میں اپ ڈیٹ کریں گے۔

سیفی کی تحری  شکایت،‘جس کی تصدیق  ان کے اہل خانہ نے دی  وائر سے کی تھی،مصدقہ تھی اور پٹائی کے ایک دن بعد 6 جون کو کی گئی تھی، جس میں نہ صرف متاثرہ کو ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے کے لیے مجبور کیے جانے کی بات کہی گئی تھی، بلکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جب انہوں نے پانی مانگا تو انہیں حملہ آوروں کا پیشاب پینے کے لیے کہا گیا۔

72 سالہ عبدالصمد سیفی کے بیٹے ببو سیفی۔ (فوٹو: عصمت آرا/دی  وائر)

72 سالہ عبدالصمد سیفی کے بیٹے ببو سیفی۔ (فوٹو: عصمت آرا/دی  وائر)

سماجوادی رہنما امید پہلوان نے دی  وائر کو بتایا کہ پولیس نے ایک ایف آئی آر درج کی، لیکن سیفی کے ذریعے اپنی شکایت میں دی گئی مکمل تفصیلات کو دھیان میں نہیں رکھا۔

انہوں نے دی  وائر کو بتایا، ‘پولیس افسروں  نے اس شکایت کو دیکھا، پھر بھی انہوں نے ایف آئی آر لکھتے وقت اسے دھیان میں نہیں رکھا۔’

اپنی شکایت میں متاثرہ نے واقعہ  کو بیان کیا، جس میں تفصیلات بھی شامل ہے جو نشاہدہی کرتی ہے کہ حملے میں ان کا مذہب  ایک عنصر تھا۔ شکایت پر اردو میں عبدالصمد کے دستخط کیے گئے ہیں اور 6 جون، 2021 کی تاریخ ڈالی گئی ہے۔

اپنی شکایت میں متاثرہ نے لکھا:

‘ایک آٹو ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں جانا چاہتا ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں حاجی پور بھیٹا درگاہ مسجد جانا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ اسی طرف جا رہا ہے اور وہ مجھے چھوڑ دےگا، جس کے بعد میں آٹو میں بیٹھ گیا۔

کچھ دیر بعد دو اور نوجوان آئے اور آٹو میں بیٹھ گئے اور ایک منٹ کے اندر انہوں نے میرے سر پر دونوں طرف سے پستول تان دی اور میرے رومال کو میرے منھ پر لپیٹ دیا۔ پھر وہ  رک گئے اور مجھے ایک کمرے کے اندر لے گئے اور شام 7 بجے تک میرے ساتھ مارپیٹ کی۔ انہوں نے مجھے کیبل تاروں، ڈنڈوں، بیلٹوں سے پیٹا اور اپنے ہاتھوں اور پیروں سے میری پٹائی کی۔’

آگےانہوں نے الزام لگایا، ‘جب میں نے ان کے سامنے اللہ کی رحمت مانگی تو انہوں نے مجھے اور پیٹنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مجھے ‘جئے شری رام’کا نعرہ لگانے کے لیے کہا اور پھر میری لمبی داڑھی کو قینچی سے کاٹ دیا۔’

انہوں نے آگے کہا کہ جب انہوں نے پانی مانگا، تو ان لوگوں نے انہیں اپنا پیشاب پینے کے لیے کہا۔

شکایت میں کہا گیا،‘جب میں نے پانی مانگا تو ان لڑکوں نے میرے سامنے پیشاب کر دیا اور پینے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں نے عمل نہیں کیا تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔’

انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے میرے جیسے کئی مسلمانوں کو مار ڈالا ہے اور ابھی تک کسی نے انہیں پکڑا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے انہیں اپنے موبائل پر مثال کے طور پرایسے کئی ویڈیو اور تصویریں بھی دکھائیں۔

بڑھئی کا کام کرنے والے عبدالصمد کے بیٹے ببو نے الزام لگایا کہ پولیس نے اس شکایت نامہ  میں ان کے والد کے ذریعے دی  گئی  کئی باتوں  پر دھیان نہیں دیا۔انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘لوگ میرے والد کے لیے انصاف چاہتے ہیں۔ملزم کو جلد سے جلد گرفتار کیا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی کمیونٹی  کا کوئی فرد اس طرح کے جرم  کا شکار نہ ہو۔’

اس کے علاوہ  انہوں نے پولیس کے ان دعووں کی تردید کی کہ ان کےوالدملزم کو پہلے سے جانتے تھے اور کہا تھا کہ ان کا ان کے ساتھ کوئی پہلے کا تعلق  نہیں تھا۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘پولیس کا بیان کسی بھی سچائی  پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے بے بنیاد دعوے کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد لوگوں کو تعویذدیتے ہیں، جبکہ ہم نسلوں سے بڑھئی کا کام کرتے آ رہے ہیں۔’

شدید نفسیاتی اثر

متاثرہ  کے گھر پر ان کی بزرگ اہلیہ آمنہ دیگر رشتہ داروں کے پاس ایک بستر پر بیٹھی ہیں، چپ چاپ رو رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعہ  کا نہ صرف ان کے شوہر بلکہ اہل خانہ پر بھی گہرا نفسیاتی  اثر پڑا ہے۔انہوں نے سوال کیا،‘اس واقعہ  کے بعد سے میرے بلڈپریشر(بی پی)میں اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ میرے شوہر کی کیا غلطی تھی کہ وہ لونی میں اپنے رشتہ دار سے ملنے گئے تھے؟ میری کیا غلطی تھی؟’

متاثرہ اور ان کے رشتہ داروں  کے ان بیانات کے باوجود پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ فرقہ وارانہ  معاملہ نہیں ہے۔

غازی آباد کے ایس ایس پی امت پاٹھک نے کہا، ‘جانچ کے دوران کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں پایا گیا۔ ان کے (ملزم)مطابق یہ ایک تعویذ کو لےکر نجی تنازعہ کا معاملہ ہے۔ ہم نے پٹائی کرنے والے تین ملزمین کو گرفتار کر جیل بھیج دیا ہے۔ دیگر ملزمین کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ملزم  ایک کمیونٹی سے نہیں ہیں، وہ ایک سے زیادہ  کمیونٹی کے ہیں۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)