خصوصی مضمون : ملک کی’سیکولر‘سیاست کی شان میں خوب قصیدے پڑھے جاتے ہیں لیکن ایک سال سے قید شرجیل امام اس سیاست کی معتبریت کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ بنے ہوئے ہیں۔
(یہ مضمون بنیادی طور پرآؤٹ لُک میں شائع ہوا ہے۔انگریزی سے ترجمہ آصف اقبال نے کیا ہے۔)
وسط مارچ کے آخری سرمائی دنوں کی ایک شام، جب سورج اپنی گرماہٹ سمیٹے غروب ہو رہا تھا اور شام کی چادر ہلکی خنکی لیےاپنادامن پھیلا رہی تھی، اس وقت ہم میں سے کئی اس بے چینی میں گھرے تھے کہ اگلی باری کس کی ہوگی۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ہم دوبارہ ایک دوسرے کو الوداع کہنے کے لیے مل بھی پائیں گے یا نہیں۔
ریاستی دہشت کا شکار ہو جانے کا خوف فضا میں گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی وباءدستک دینے ہی والی تھی اور کچھ ہی دنوں میں شمال مشرقی دہلی میں آگ کے شعلے ؛احتجاجی مقامات، وہاں لگے پوسٹراورمسلمانوں کےمکانات کو اپنی لپیٹ میں لینے والے تھے۔
اس بیچ طلبہ کا ایک چھوٹا سا گروہ بدحواسی کے عالم میں یونیورسٹیوں اور دفتروں کے چکر کاٹ رہا تھا تاکہ ایک نوجوان مسلم طالب علم کے حق میں کچھ حمایت حاصل کی جا سکے جس کے خلاف بی جے پی مقتدرہ چار ریاستوں اور مرکزی حکومت کی طرف سے متعدد ایف آئی آر درج ہو چکی تھیں۔
وقت کے ساتھ یہ کوششیں کسی حد تک کامیاب ہوئیں اور انہوں نے مزاحمت، حمایت اور یکجہتی کی ایک چھوٹی سی لہر برپا کی، جس نے آگے چل کر دہلی قتل عام کے متاثرین کے لیے بھی ایک حمایتی مہم کا کردار ادا کیا۔ مختلف یونیورسٹیوں اور سماجی حلقوں کے طلبہ نے اس مہم میں شرکت کی اور ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے تعاون پیش کیا جو شاید معمولی نوعیت کے تھے لیکن ہر ایک کی اپنی معنویت تھی۔
اس تاریک گھڑی میں بھی ایک شدید خوشی کی لہر تھی۔ بعض لوگوں کے لیے یہ لمحہ انقلاب کے آغاز نو کی حکایت بیان کر رہا تھا، چنانچہ وہ اس تحریک میں بطور عوام مسلمانوں کی شرکت پر اظہار مسرت کر رہے تھے۔ حالانکہ ظاہر ہے سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
اس بے نام عوام کا کوئی بھی فرد، گمنامی کا پردہ چاک کرکے، اپنی ایجنسی کی دعویداری کرتے ہوئے جیسے ہی بولنے پر آمادہ ہوتا تھا اور برسر اقتدار طاقت کے ساتھ ساتھ سماج کے ترقی پسند حلقوں کے کھلے اور چُھپےاسلاموفوبیا کو چیلنج کرتا تھا، ایلیٹ لبرل دانشوروں کے لیے مزاحمت اور اختلاف رائے کا جشن تھم سا جاتا تھا اور ان کی خوشیاں کافور ہو جاتی تھیں۔
دہلی کی اسی ٹھٹھرتی سردی میں اس بات کے ثبوت کھل کر سامنے آ چکے تھے، جب ایک طوفان دبے پاؤں اس کی سڑکوں پر نمودار ہوا اور پھر اس کی دھمک پورے ملک میں محسوس کی گئی۔ یہ ہندوستان کی مایہ ناز یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کے ایک نوجوان اسکالر کے ذریعہ دی گئی اقدام کی دعوت تھی جس کے خلاف اٹھتی آوازوں نے جلد ہی ایک بد آہنگ شورمچا دیااور جس کی ہر آواز خون کی پیاسی بنی ہوئی تھی۔
کئی حلقوں میں یہ تاثر رہا کہ سی اے اے مخالف احتجاج کی صفوں سے بولتے ہوئے، شرجیل امام نے ایک حد سے تجاوز کیا ہے۔ لیکن یہ کون سی حد تھی؟ اس کے جو جوابات سامنے آئے وہ محض یو اے پی اے اور سیڈیشن قوانین کی شکل میں آئے۔
یہ واقعہ ملک کے لیے دو وجہوں سے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ ایک تو یہ کہ ریاست کی طرف سے کیے جانے والے سخت ترین اقدامات کے سلسلے کی یہ پہلی کڑی تھی جہاں سے سی اے اے مخالف مظاہرین کی اذیتیں شروع ہوئیں، لیکن یہی وہ واقعہ بھی تھا جو مظاہرین کے حلقے سے باہر اس قدر پریشان کن ثابت ہوا کہ شرجیل کی حمایت سے انکار کر دیا گیا، جبکہ اس نے محض ایک تقریر کی تھی،یہ تقریر ایک ایسا قدم ثابت ہوئی جس کے لیے حمایت حاصل کرنانہایت مشکل ہو گیا۔
الگ الگ نظریاتی اسپیکٹرم سے تعلق رکھنے والے اور متعدد فکری دھاروں سے وابستہ افراد نے پھُرتی کے ساتھ شرجیل کی مذمت کر ڈالی اور اس سے اپنی بے تعلقی کا اعلان کر دیا۔ یہاں تک کہ شرجیل امام کی اپنی یونیورسٹی، جے این یو کی لیفٹ قیادت والی اسٹوڈنٹ یونین نے اپنے ابتدائی بیان میں اس کے الفاظ کی مذمت ہی کی تھی۔
اس کے بعد سے یہ ایک معمول کی بات ہو گئی۔ سماجی اور سیاسی سرمایہ رکھنے والے کارکنوں نے ان لوگوں سے ایک محتاط فاصلہ برقرار رکھنا شروع کر دیا جنہیں ‘ریڈیکل عناصر’کے طور پر نشان زد کر دیا گیا تھا، اور عموماً اس سے مراد وہ مسلمان تھے جو سول سوسائٹی کی متفقہ حدوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی بات رکھا کرتے تھے۔
برسر اقتدار نظریات کے پیروکاروں کے ساتھ اس اتفاق رائے میں اپنی مشترکہ رکنیت پر زور دے کر، کارکنوں کی دنیا یہ چاہ رہی تھی کہ ریاست کی غضبناکی کو بھڑکنے سے روک دے۔ تاہم، بہت جلد ہمیں یہ سیکھ مل گئی کہ ایسی کوئی نظریاتی انشورنس پالیسی ریاست کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہندوستان کے مسلمان شہریوں کے لیے مساوات اور عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی کسی جماعت کا محض حصہ ہونا ہی آپ کی مجرمانہ حیثیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
لیکن یہ سب بعد میں ہوا۔ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تھا، تو کئی لوگوں نے شرجیل کو وحشیانہ طریقے سے ہدف بنائے جانے کے خلاف بولنے سے مکمل طور پرپرہیز کیا، کئی نے اس کے الفاظ کی مذمت کرتے ہوئے اور اس سے بے تعلقی ظاہر کرتے ہوئے محض ہلکے پھلکے انداز میں حمایت کا اظہار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سردیوں میں جس طرح ہم نے شرجیل کو مایوس کیاتھا،اسی طرح اگلی سردی آتے آتے ہم اس کی قیمت بھی ادا کر چکے ہیں۔
چنانچہ وہ سبھی لوگ جنہوں نے شرجیل کی تقریر کو مسخ کرکے اسے مجرم ٹھہرائے جانے کے عمل میں اور اس کے پبلک ٹرائل میں اپنا کردار ادا کیا تھا، وہ اب خود مجرم ٹھہرائےجانے کے خوف میں جی رہے ہیں۔ وہ سبھی لوگ جو کل تک خاموش تھے ان کے پاس اب آواز اٹھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔
وہ سبھی جنہوں نے اس سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا تھا آج اپنائے جانے کی ضرورت میں ہیں، وہ اس ضرورت میں ہیں کہ جب ان کی باری آئے تو انہیں حمایت دی جائے، ان کی مدافعت کی جائے اور انہیں بچانے کی کوششیں ہوں۔ یوں تو مسلمانوں کے تئیں اظہار یکجہتی سے کئی معنوں میں انکار کیا گیا—لیکن شرجیل اس انکار کی ایک نمایاں علامت بن گیا۔
غیر ارادی نتائج
شرجیل امام نے 28 جنوری 2020 کو دہلی پولیس کے سامنے سرینڈر کر دیا۔ اسے ٹکڑے کر دیے جانے کے مطالبوں اور اس پر ری پبلک ٹی وی کے خصوصی پروگراموں کے درمیان، تاریخ کے ایک اسکالر کے طور پر شرجیل کی دھار دار تحریریں،پبلک ٹرائل کے ذریعہ تیار کردہ اس خوف کے ماحول میں سامنے آئیں اور ملک بھر کے مسلم نوجوانوں تک پہنچیں۔
یہ اپنی نوعیت کا نہایت ہی اہم نتیجہ تھا جو شاید ہی انٹلی جنس ایجنسیوں کی نظروں سے اوجھل رہا ہو۔ اس کی تقریروں کی ویڈیوز پورے انٹرنیٹ پر چھا گئیں، جنہوں نے دائیں بازو کے پروپیگنڈہ کو فائدہ پہنچایا، لیکن اس کا یہی ایک پہلو نہیں تھا۔
یہ کثرت سے مسلم نوجوانوں کے درمیان بھی شیئر ہو رہی تھیں، جنہوں نے ہزاروں افرادکو ہندوستانی مسلمانوں کے مارجینلائزیشن سے متعلق شرجیل کے مضامین پڑھنے کی طرف راغب کیا، اور ان کے خلاف ہونے والے تشدد کو نارملائز کرنے کی کوششوں پر اس کے سوالات سے آشنا کرایا۔یہاں تک کہ جب دہلی پولیس نے کیس تیار کرنے کی کوشش کی، تو یہاں بھی شرجیل کا وسعت مطالعہ، اس کی بہادری اور ایمانداری اس کے الفاظ میں نمایاں تھے۔
چنانچہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد فسادات کے موضوع پر پال براس کی کتاب فارمس آف کلیکٹو وائلنس: رائٹس، پوگرومز اینڈ جنیو سائیڈ ان ماڈرن انڈیا پڑھنے اور اس کی روشنی میں اپنی اپنی زندگی کا مطالعہ کرنے کی طرف متوجہ ہوئی، گرچہ اس کتاب کو شرجیل کے ‘ریڈیکلائزیشن’ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
شرجیل کی تقریروں، اس کے سرینڈر کرنے اور چارج شیٹ تیار کیے جانے کے درمیانی وقفے میں کئی مسلم نوجوانوں نے نہ صرف ‘مائنارٹی اپیزمنٹ’کے مشہور شوشہ کو سرے سے مسترد کیا بلکہ سیکولر، لبرل دانشوروں کے ان مطالبوں کو ماننے سے بھی انکار کر دیا جن کے تحت مرکزی دھارے میں ‘جذب’ ہونے اور زیادہ ‘سیکولر’ دکھنے کے لیے ان سے اپنی مسلمانیت کی نشانیوں کو مٹانے کی توقع کی جاتی ہے۔
چنانچہ ہمارے لیے آج یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ان سوالات کا مطالعہ کریں جو شرجیل نے ملک کے سامنے رکھے ہیں اور یہ بھی دیکھیں کہ ملک ان کے جوابات کس طور پر دیتا ہے۔ شرجیل امام نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ اس کے انفرادی سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ وہ سوالات ہیں جو سماجی اور سیاسی طور پر حاشیہ پر لا کھڑی کی گئی ایک پوری کمیونٹی پوچھنا چاہتی ہے۔
اپنی تقریروں کے ذریعہ وہ ہندوستانی تاریخ کے اس مرحلے کی نمائندگی کرتے ہیں جب مسلمانوں نےاجتماعی طور پر خاموشی کو مسترد کرنے کا اسی طرح فیصلہ کر لیا ہےجس طرح ہندوستان میں بہوجن امبیڈکر وادیوں نے اور امریکہ میں سیاہ فام افراد نے کیا تھا۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جب ہمیں اظہار لا تعلقی کی وجہ سے صرف جان کی ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اپنی اخلاقیات کی بھی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ امبیڈکرنے ایک خطاب’ذات پات کے نظام کا خاتمہ’کے موضوع پر تیار کیا تھا جسے وہ بطور خطاب تو پیش نہیں کر پائے تھے لیکن بعد میں کتاب کی صورت میں اس کی اشاعت ہوئی، اس میں انہوں نےجان ڈیوی کے تصور جمہوریت سے متاثر ہو کر لکھا تھا کہ;
جمہوریت محض حکومت کا ایک روپ نہیں ہے، بلکہ اپنے حقیقی معنوں میں یہ باہمی تعلق پر مبنی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ، اور ابلاغ وترسیل پر مبنی مشترکہ تجربات کا ایک گہوارہ ہے۔ اپنے جوہر کے اعتبار سے یہ دیگر افراد کے تئیں عزت واحترام کا ایک رویہ ہے۔
چنانچہ یہ لمحہ ہماری جمہوریت کے لیے ایک آزمائش قرار دیا جا سکتا ہے۔ شرجیل ایک آزمائش کے طور پر ہمارے سامنے کھڑا ہے، اور پوچھ رہا ہے کہ کیا ہم سچ میں اس جمہوریت کےمستحق ہیں؟ کیا ہماری جد وجہدباہمی تعلق کی زندگی یا اخوت و بھائی چارگی کی حصولیابی میں کامیاب ہو سکتی ہے جو ایک حقیقی جمہوریت میں مطلوب ہوتی ہے؟
یہ لمحہ خصوصی طور پر ایک آزمائش اس لیے بھی ہے کیونکہ شرجیل کے معاملے میں جس طرح اس پر جوابی حملے ہوئے، مذمتوں اور اظہار لا تعلقی کا سلسلہ چلا، اس کی نظیر کسی بھی سیاسی قیدی کے معاملے میں نہیں ملتی، خواہ ان کا تعلق آئیڈیالوجی یا سیاسی حکمت عملی کی کسی بھی صورت سے رہا ہو، اور اس کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ ایک خود مختار مسلم سیاست کی بات کرتا ہے اور اس کی عملی کوششوں میں سرگرم رہا ہے۔
شرجیل کی سیاست کی جڑیں وابستگی اور تعلق (ایسوسی ایشن) کی ہماری آفاقی خواہش سے جڑی ہیں۔ ایک طرف جہاں وہ اس بات کی پُرزور وکالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کو عزت نفس کی نجات دہندہ سیاست کرنی چاہیے وہیں حاشیہ پر موجود (مارجنلائزڈ) ذاتوں کے درمیان یکجہتی برقرار رکھنے میں بھی اُس کی کوششیں برابر صرف ہوتی ہیں۔
چنانچہ وہ اُس دوہرے امتیازی سلوک کو تسلیم کرتا اور اس کے خاتمے کی بات کرتا ہے جس کا سامنا حاشیہ پر رہنے والی ذاتوں کے مسلمان، کمیونٹی کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف برہمن وادی ریاست کے خلاف مظلوم گروہوں کو متحد کرنے کی اُس کی خواہش کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ اصولی اور عملی اخلاقیات کا شعور رکھنے والے افراد کے درمیان اخوت و بھائی چارگی کا ایک تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے۔
شرجیل کی ایک تقریر میں ہم اسے اسٹوڈنٹ کمیونٹی سے یہ اپیل کرتے ہوئے سنتے ہیں کہ وہ اپنے غیر مسلم دوستوں کو ساتھ لائیں، خاص طور پر ہندو دوستوں کو تاکہ وہ بھی حق شہریت بچانے اور باوقار زندگی گزارنے کی مسلمانوں کی جد وجہد میں شرکت کر سکیں۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شرجیل عام سیاسی اخلاقیات کی ایک نئی تعبیر تشکیل دینے کی کوشش کر رہا تھا، کیونکہ ملک کی موجودہ اخلاقیات ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔
اجئےگوداورتی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کسانوں کے احتجاج کا سی اے اے مخالف تحریک سے موازنہ کرتے ہوئےیہ تنقید کی ہے کہ سی اے اے تحریک ہندوستانی عوام کی اکثریت کو اپیل کرنے کی کوشش میں ناکام رہی کیونکہ یہ تحریک منفرد طور پر مسلمانوں کے گرد مرکوز رہ گئی۔
گوداورتی (سی اے اے مخالف تحریک کے مبینہ طور پر وسیع تر ‘اخلاقی قبولیت’ حاصل نہ کر پانے کی) پوری ذمہ داری اور الزام اس تحریک کے کلیدی محرکوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمان خود اکثریتی طبقے کے اسلاموفوبیا کے متاثرین اور پسماندگان ہیں۔
یہ ہمیشہ آسان رہا ہے کہ اکثریتی طبقے کی اخلاقیات کو اپیل نہ کر پانے کا الزام مظلوم طبقے پر ڈال دیا جائے، اور سیکولر اکثریت میں اخلاقیات کے فقدان اور ان کی سخت دلی سے نظر پھیر لی جائے۔ یہاں یہ بات کہی جانی چاہیے کہ عدل وانصاف کے لیے اُٹھی کسی تحریک کے ‘اخلاقی طور پر قابل قبول’ ہونے کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ اس کا تعلق انصاف کی لڑائی سے ہے، چنانچہ ‘قبولیت’ کے لیے کوئی دوسری وجہ پیدا کرنے کا آئیڈیا نہایت فضول ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں پر شرجیل امام کی شخصیت ایک لازمی عنصر بن جاتی ہے: چنانچہ وہ بی جے پی کی عوامیت پسند بیانیےسےکنٹرول ہونے والی موجودہ اخلاقیات کا پابند رہنا نہیں چاہتا بلکہ وہ ایک نئی اخلاقیات کی تشکیل و تعبیر کا خواہاں دکھائی دیتا ہے۔
اس نے مطالبہ کیا کہ مختلف کمیونٹی کے افراد ، مسلم گھیٹوز سے دور اپنے اپنے علاقوں میں احتجاج کا نظم کریں۔ اس نے اس پہلو پر بھی بات کی کہ کس طرح سیکولر/لیفٹ پارٹیوں اور سول سوسائٹی نے مسلمانوں اور حقوق سے محروم دیگر گروہوں کو گزشتہ 70 سالوں سے حاشیہ پر بنائے رکھا ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ اس معاملے میں کمیونسٹ دور سے پہلے کے بنگال میں، جب مراعات یافتہ ہندو ذاتوں کی کھلی حکمرانی تھی، اور بعد کی سی پی آئی (ایم) حکومت کے دوران بھی کس طرح صورت حال جوں کی توں بنی رہی۔ کیرالہ میں اسی سی پی آئی (ایم) کی قیادت والی سرکار میں یو اے پی اے جیسے کالے قانون کے تحت سینکڑوں مسلمانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اپنے لگ بھگ 45 سالہ دور حکومت میں عین جمود کی علامت بنی رہی، اس نے کبھی ہندوستان میں حکمراں ذاتوں کے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کی، اور تو اور اس نے ذات پات کے تعصب پر مبنی اور مسلم مخالف متعدد قوانین پاس کیے، بیف کی پابندی کا قانون ان کی ایک واضح مثال ہے۔
اب سوچیں تو شاید کوئی تعجب نہ ہو کہ کیوں ہر کوئی شرجیل سے دستبردار ہوگیا؟ اور کیوں شرجیل اتنا اہم ہے؟
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ دو سال قبل، (ای ڈبلیوایس)کوٹا بل کی لوک سبھا میں صرف تین مسلم ممبران پارلیامنٹ نے مخالفت کی تھی، جبکہ یہ ایک ایسا بل تھا جس نے ریزرویشن کو بالکل مسخ کرکے رکھ دیا۔ ان تمام پہلوؤں سے اس ملک میں سیاسی اخلاقیات کی انتہائی پستی کا پتہ چلتا ہے۔
ساتھ ہی اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح حاشیہ پر کھڑےطبقوں کے خلاف تشدد اپنی حقیقی نوعیت کے اعتبار سے پورے طور پر سسٹم میں رچا بسا ہے،اسے محض بی جے پی کے نظریاتی تعصبات کا پرتو مان لینا ادھوری بات ہوگی۔
اس چیز کو سمجھنے کے بعد، مظلوموں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی انسانیت تسلیم کروانے کے لیے سیکولر عوام کی اخلاقیات سے اپیل کرنے کی بجائے، اخلاقیات کی تعبیرخود اپنی سماجی تحریکوں کی مدد سے تشکیل دینے کی کوشش کریں۔
یہ بھی پڑھیں:شرجیل امام کی رہائی، فوراً رہائی … ہندوستان میں مسلمانوں کے یقین کے لیے ضروری ہے
ایک اخلاقیاتی اور سیاسی مشق (پراکسیس)
شرجیل ایک ایسی تحریک شروع کرنا چاہتا تھا جس میں سیکولر عوام ایک بنیادی تبدیلی سے گزریں؛اور وہ تبدیلی یہ تھی کہ تحریک کا آرٹیکولیشن اور آغاز جن لوگوں کے لیے، جن لوگوں کے بارے میں اور جن لوگوں کے ذریعہ کیا گیا ہے، ان کی شرطوں پر سیکولر عوام اپنی حمایت پیش کرے۔
شرجیل کا نشانہ یہ تھا کہ سیکولر عوام کی پُرانی اور غیر معینہ شرطوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بجائے عوامی اخلاقیات کی ایک نئی تعبیر سامنے آئے، کیونکہ یہ پُرانی شرطیں ایک فوری مقصد کے حصول کی خاطر انسانی وقار سے سمجھوتے کا مطالبہ کرتی تھیں اور بعد میں محض سابقہ حالت جمود کو بحال رکھنے کا ایک وسیلہ بن کر رہ جاتی تھیں۔
اس لیے اس نے ایک ایسی تحریک کا خواب دیکھا جو ملک کی، اس کے شہریوں اور ان کے اخلاقیاتی حدود کی، نیز مساوات، آزادی، اخوت و بھائی چارگی اور عدل وانصاف کے لیے ان کی غیرت وجستجو کی ایک نئی تعبیر بن کر اُبھرے۔
اس تحریک کے ذریعہ وہ ایک طویل مدتی لڑائی کے لیے میدان تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں، مظلوموں کی سیاست میں، اعلیٰ ذات کا کوئی ایکسپرٹ، لیڈر یا نجات دہندہ قابل قبول نہ ہو؛ جہاں مظلوم محض رعیت یا اعداد وشماربن کر رہنے سے انکار کر دیں، اوروہ اپنی جد وجہد کے خود ایکسپرٹ اور لیڈر بن کر اُبھریں، اور انہیں پوری فراخ دلی سے سیکولر عوام قبول کرے—تبھی جا کر اس سیکولر طبقہ کی گم کردہ اخلاقیات دوبارہ بحال ہو سکے گی۔
یہ بعینہ وہی وژن ہے جو ایک جمہوریت کو مطلوب ہوتی ہے، یہ ٹھیک وہی بصیرت ہے جس نے میلکم ایکس یا پیریار جیسی عظیم انقلابی شخصیتوں کو انتخابی جاذبیت کے سامنے لڑکھڑانے سے بچائے رکھا اور عدل وانصاف کی لڑائی پر گامزن رہنے کا حوصلہ دیا۔
جب گوداورتی یا ان جیسے دیگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ سی اے اے مخالف تحریک ایک وسیع تر مفاد کو ‘اپیل کرنے میں’ اس لیے ناکام ہو گئی کیونکہ یہ مسلمانوں کے مسائل پر مرکوز رہ گئی، تو یہ استدلال ہمیں تعلق یا ایسو سی ایشن کے سوال پر واپس لا کھڑا کرتا ہے۔ کیا ہمارا دوسروں سے تعلق نہیں ہے، ہمارے اور ان کے خدشات مشترک نہیں ہیں، عدل وانصاف کے تقاضوں کی رو سے؟
فطری انسانی ہمدردی، عدل وانصاف کی محبت اور اخوت وبھائی چارگی کے احساس کی رو سے؟ یا پھر ملک کا اخلاقی شعور مسلمانوں جیسےحاشیہ پر کھڑے طبقوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص مسائل کو نظر انداز کر دیں اور انہیں اپنے شعور سے نکال دیں؟
غیر متناسب قید کی شرح، تعلیمی انفرااسٹرکچر کا فقدان اور سسٹم کے ذریعہ امتیازی سلوک جیسے ٹھوس مادی مسائل کو ہم بھول جائیں؟ اور وہ بھی محض خیالی مسائل کی خاطر؟
شرجیل پورے ہندوستان کو جس چیز کی یاد دہانی کراتا ہے وہ ٹھیک یہی ہے کہ ایک زیر محاصرہ اقلیت کو اس بات کا پورا حق ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے تشدد کو نارملائز کرنے کی ہر کوشش کو مستردکر دے، اس کی آواز غصب کرنے والوں کو، نیز خاموشی اور ساز باز کے رویوں کو مسترد کر دے۔
اخلاقیات: ایک دستاویز سے کہیں زیادہ
ہم ایک ایسے لمحے سے گزر رہے ہیں جب امبیڈکر کی وہ وارننگ حقیقت بن رہی ہے جو انہوں نے 25 نومبر 1949 کو مجلس دستور ساز میں اپنے خطاب میں دی تھی، اور جس کا تعلق سیاسی مساوات اور سماجی واقتصادی عدم مساوات کے درمیان ایک بنیادی ‘تضاد’ سے تھا۔
اس انتباہ کے حقیقت میں بدلتے اس لمحہ میں، شرجیل ان چند افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے یہ نکتہ پا لیا ہے کہ اب دستور سے متعلق بحث ومباحثہ، اس کے نفاذ کا عمل اور اس میں رد وبدل محض پارلیامنٹ کی سطح پر نہیں ہو سکتے، کیونکہ پارلیامانی جمہوریت نے اپنے شہریوں کو مایوس کر دیا ہے۔ پارلیامنٹ کی وہ عمارت، اوپری سطح سے تبدیلیوں کا محرک بننے کی بجائے، بذات خود ہندوستانی سماج کی تمام تر خامیوں کی نمائندگی کرنے والی ایک چھوٹی اکائی بن چکی ہے۔
شرجیل جو کہہ رہا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ محض آئین کی تمہید پڑھ لینے اور اس پر حلف لے لینے یا ترنگا لہرانے سے شہریوں کی حفاظت نہیں ہو جائے گی بلکہ یہ تبھی ہوگا جب عام لوگ دستور ہند کی تاریخ، اس کی تکنیکی باریکیوں اور اس کی پیچیدگیوں کو جانیں اور سمجھیں گے۔
شرجیل دستور ہند کو عام لوگوں کے درمیان لانا چاہتا تھا، تاکہ وہ اس پر غوروفکر کریں، اس پر بحث ومباحثہ کریں، اس کی بنیادوں کے بارے میں سوچیں، تاکہ دستور ایک ایسا رسمی وسیلہ بن جائے جس کی بنیاد پر عدل وانصاف کی فکرِ نو کا راستہ ہموار ہو؛ اس کا ماننا تھا کہ دستور کو ایک شاہی دستاویز کے بجائے عام لوگوں کا دستاویز ہونا چاہیے؛ سماج کے نچلے سے نچلے طبقے سے لے کر نام نہاد ‘دوسرے درجے کے شہریوں’ تک، سبھی کے دستور سے متعلق فیصلوں پر تمام حقوق ہونے چاہیے اور وہ لازمی طور پر اپنے ان حقوق کو پا سکیں، اس کی ضمانت ہونی چاہیے۔
کسی کا یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ شرجیل نے دستور کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں اس کا مذاق بننے، اس کی توہین ہونے اور اسے مسترد کیے جانے کا خطرہ ہے، لیکن ہمارا ماننا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ یہ جوکھم اُٹھانے کا جواز ہے۔
‘دستور کو سڑک پر لانا’ کوئی توہین آمیز عمل نہیں ہے بلکہ یہ اس پر دعویداری کا از سر نو اعلان کرنے اور اسے اپنانے کا عمل ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک سنجیدہ اور پُرعزم مباحثہ ہوتا، جس میں گہری معرفت اور علمی تنقید مطلوب ہوتی؛ چنانچہ یہ عمل ان حقوق کے حصول کا ایک وسیلہ بن جاتا جو عام لوگوں کو دستور دیتا ہے—اور اس طرح دستور ہند،قدیم اشرافیہ کے ذریعہ یرغمال بنی ایک جمہوریت میں خود اپنی ضد بن جانے کی بجائے اپنے حقیقی مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچا پاتا۔
شرجیل نے یہ بات سمجھی کہ ایک ایسے مقام پر جہاں ریاست اور سماج دونوں آپس میں مل جاتے ہیں، عدل وانصاف کی لڑائی محض ایک قانونی جستجو بن کر نہیں رہ سکتی بلکہ اس کا ایک اخلاقیاتی جستجو بننا نہایت ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دستوری اخلاقیات کی تعبیر نو کا خواہاں تھا، وہ سڑکوں سے ہی مساوات، آزادی، اخوت و بھائی چارگی اور عدل وانصاف کے بارے میں سوچنے میں لوگوں کی مدد کر رہا تھا۔
چنانچہ اس نے ایک قومی سطح کے چکہ جام کی تجویز رکھی، جس میں سڑکیں فلسفے اور سیاست کی آماجگاہ بن جاتیں، اور عام لوگوں کی حقیقی شرکت کے ذریعہ ملک کی پارلیامنٹ، نظام عدل اور جمہوریت کی تعمیر نو میں مدد ملتی۔
اقدام کی روح
اگر ہم دستوری عدل وانصاف اور اخلاقیات پر یقین رکھتے ہیں تو کسی بھی دوسرے شخص کی طرح شرجیل کو بھی اپنی تقریر، اپنے احتجاج اور اپنی سیاست کا پورا حق ہے؛ اسے زندگی اور وقار کا حق ہے۔ ہمیں ہمارے بنیادی دستوری حقوق دیے جانے کے لیے کسی نظریے یا پُراسرار اخلاقیات کی ضرورت نہیں ہے۔
اس بات پر متفق ہونے کے لیے کہ شرجیل کو آزادی ملنی چاہیے ہمیں ہرگز بحث ومباحثہ اور گفت و شنید کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شرجیل کے ساتھ عدم اتفاق رکھتا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی الگ الگ نقطۂ نظر کی روشنی میں کہے کہ اس نے غلطیاں کی ہیں، لیکن ان سب کی بنیاد میں جا کر، پوچھنا چاہیے کہ کون سی غلطیاں؟
یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ شرجیل نے ایسا کیا کہہ دیا جو جمود کے رکھوالوں کواس درجہ مضطرب کر گیا۔ ایک مسلمان کی زبان سے چکہ جام کی بات نکل جانے کی کیا معنویت ہے؟
ایک جمہوریت میں، ہمیں صرف ریاست کے خلاف اختلاف رائے کا حق نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں ایک دوسرے کے تئیں بھی عدم اتفاق رکھنے کا حق ہونا چاہیے؛ خواہ حکمت عملی کے معاملے میں ہو یا آئیڈیالوجی کے معاملے میں ہو یا پھر سیاست اور فلسفے کے معاملے میں۔
لیکن یہ عدم اتفاق ایک جمہوری طرز عمل کا پابند ہونا چاہیے، اسے اظہار لا تعلقی کا سبب نہیں بننا چاہیے، بلکہ اس سے اظہار تعلق کی ہماری صلاحیت میں اضافہ ہونا چاہیے، اس سے مذکورہ جمہوریت میں ہماری شرکت کو بڑھاوا ملنا چاہیے۔
حالت جمود کے رکھوالوں کے خلاف شرجیل کے نہایت پریشان کن سوالات ہوں، یا پھر اس ملک کو ایک حقیقی جمہوریت بنانے کی اس کی حکمت عملی ہو، یہ اس اظہار بے تعلقی اور مذمتوں کے ہرگز مستحق نہیں ہونے چاہیے جو شرجیل کے حصے میں آئیں۔ اس کے بجائے، باہمی افہام وتفہیم اور بحث ومباحثہ کا ایک جمہوری طرز عمل اپنایا جانا چاہیے جو شرجیل کی سیاست کا کلیدی موقف ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کا مسلمان اگر ایک بے باک مسلمان کی حیثیت سے ملکی امور میں شرکت کرتا ہے تو اسے بُری طرح بدنام کیا جاتا ہے، کبھی یہ دہشت گردی کے مضحکہ خیز الزامات لگا کر ریاست کی طرف سے ہوتا ہے، اور کبھی سماجی طور پر عائد کردہ بائیکاٹ کے ذریعہ لبرل دانشور طبقہ یہ کام کرتا ہے۔
مسلمان اگر ایک کمیونٹی کی حیثیت سے سیاسی طور پر منظم ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسی کسی بھی کوشش کو عام طور ‘کمیونل'(یعنی فرقہ وارانہ کوشش)کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے—یعنی اس رویے کو عام مفہوم کے مطابق سیکولر کی ضد بتا دیا جاتا ہے۔
اس لیے شرجیل امام کا یہ بنیادی اعلان کہ مسلمانوں کو منظم ہونا چاہیے ایک معنیٰ خیز اور اہمیتوں کا حامل اشارہ ہے۔ اور یہ ایک مثبت، تشفی بخش اور تخلیقی معنوں میں انقلابی اعلان ہے کیونکہ ایک طرف یہ مظلوموں کے آپسی تعلق کو ذلت اور عار کے احساس سے نکالتا ہے اور دوسری طرف سماجی درجہ بندیوں کے خاتمے کی وکالت کرتا ہے۔
اسی لیے ملک میں بہت سے لوگ موجودہ حکومت سے متوقع خطرات کے بارے میں بات کرتے ہیں، اور ایک یقین کی حد تک بیٹھا ہوا یہ ڈر اکثر کسی بھی اقدام کے لیے ایک رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ڈر کے عالم میں ہم رد عمل کی تدابیر اختیار کر لیتے ہیں، یا فوری طور پر اس سے نکلنے کی لڑائی میں شامل ہو جاتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ صرف بقاء کو ہی یقینی بنانا ضروری نہیں ہے بلکہ ملک میں عدل وانصاف کے قیام اور باوقار زندگی کو بھی یقینی بنانا اسی قدر اہم ہے۔
چنانچہ ہمیں ایک طویل مدتی تحریک برپا کرنی ہے تاکہ اس سنگدل جمہوریت کو مہذب بنا سکیں، اس کے ان شہریوں کو اخلاقی اور جمہوری تقاضوں کا پابند بنا سکیں جنہوں نے برہمن وادی مراعات وتسلط کے نشے میں اپنی انسانیت کھو دی ہے۔
شرجیل کے ذریعہ چکہ جام کا مطالبہ جہاں فوری اثرات کا طلبگار تھا وہیں بنیادی طور پر اس کے ذریعہ مظلوموں کی قیادت والی ایک ایسی عوامی تحریک کی بنا ڈالنا بھی مقصود تھا جو اخلاقی اور جمہوری قدروں کی امین ہو۔ سیاسی اقدام کا یہ طریقہ چننے کا مقصد صرف شہریت کا بحران حل کرنا نہیں تھا بلکہ دلت مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ اور ہندوستان میں تنظیمی ڈھانچے کے ذریعہ بے اختیار بنانے والے دیگر عوامل کے حل ڈھونڈنا بھی اس میں شامل تھا۔
یہ لبرل دانشور طبقہ کے لیے ایک تنبیہ تھی کہ وہ حاشیہ پر کھڑے طبقوں کے اسپیس اور ان کی آوازوں پر قبضہ جمانا چھوڑ دیں، نیز مسلمانوں کے لیے، خاص طور پر ذات، طبقات اور صنف کے متعدد بوجھوں تلے دبے کچلے پسماندہ ترین مسلمانوں کے لیے ایک پُکار تھی کہ وہ اپنی زندگیوں کا فیصلہ خود کرنا شروع کریں،اور یہ ایک ایسا اقدام ثابت ہوا جس کی قیمت شرجیل امام 365 دنوں سے زائد عرصے سے قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر چکا رہا ہے۔
(صباح مہاراج اور سنیہاشیش داس جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار دی اسٹڈی آف سوشل سسٹمز میں پی ایچ ڈی اسکالرز ہیں۔مترجم آصف اقبال،، سینٹر فار عربک اینڈ افریقن اسٹڈیز، جے این یو، نئی دہلی میں ، ریسرچ فیلوہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر