کورونا مہاماری کی دوسری لہر کےقہر سے ملک کے گاؤں بھی نہیں بچ سکے ہیں۔ اس دوران میڈیا میں چھپی خبریں بتاتی ہیں کہ دیہی علاقوں میں کووڈ 19 کا اثر سرکاری اعدادوشمار سےالگ ہیں۔
کووڈ19کی دوسری لہر نے کئی دیہی علاقوں میں شدیدتباہی مچائی ہے۔گاؤں پر مہاماری کا اثر سرکاری اعدادوشمار میں زیادہ تر دکھائی نہیں دیتا ہے۔مگر مقامی خبریں کچھ اور ہی منظر دکھاتی ہیں؛گاؤں میں تیزی سے پھیلےانفیکشن، شرح اموات، بہت ہی کم کووڈ ٹیسٹنگ، اور صحت خدمات کا مسمار ہو جانا۔
ہم نے مئی2021 کے پہلے تین ہفتوں سے کل اکسٹھ (61)ایسی خبروں کو اکٹھا کیا، جن میں ایک یا زیادہ گاؤں میں کم از کم پانچ مشتبہ کورونااموات کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اسی طرح کی خبروں کے لیے ہندی میڈیا میں کھوج کی گئی، اور اس لیے یہ مضمون ہندی بیلٹ کے صوبوں پرمرکوز ہے۔
ان خبروں میں سے 26 اتر پردیش سے، 9 ہریانہ،8 بہار، 6 مدھیہ پردیش،6 جھارکھنڈ اور 6 راجستھان سے تھیں۔ میڈیا رپورٹس کی تفصیلات اور لنک اس دستاویز میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اموات کی تعدادمیں اچھال
رپورٹس میں کل1297اموات کے بارے میں بتایا گیا ہے اور ان گاؤں کی کل آبادی لگ بھگ 480000 ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سب گاؤں کی آبادی کو ملاکر لگ بھگ 0.27فیصدی آبادی بہت کم وقت میں موت کا شکار ہوگئی ۔
انفرادی رپورٹس میں یہ موت کی شرح 0.05فیصداور 1فیصد کے بیچ ہے، اور میڈین ویلیو0.31فیصد ہے۔ ان اعدادوشمار کو ایسے سمجھ سکتے ہیں؛اس نمونے کے ایک 5000آبادی والے گاؤں میں15 دنوں میں لگ بھگ 15 موتیں ہوئی ہوں گی۔ دراصل کئی رپورٹس میں ہر دن ایک موت ہونے کی بات کہی گئی ہے۔
کئی حقائق پختہ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پرکچھ رپورٹس میں تمام مرنے والوں کی فہرست ہے، جبکہ دیگر میں سرپنچ کی جانب سے بتائےگئے قیاسی اعدادوشمار ہیں۔ رپورٹس میں مذکوراموات ایک ہفتے سے چھ ہفتوں تک کی مدت کے دوران ہوئیں– لیکن یہ ہمیشہ واضح نہیں ہے کہ اس وقت میں گاؤں میں ہوئی تمام اموات کی تفصیل ہیں،یاصرف کورونا مشتبہ اموات کی تفصیل ہیں۔
مرنے والوں کی تعداد بھی ادھوری ہو سکتی ہے اکثر مہاماری کا قہرجاری تھا اور کبھی کبھی فالو اپ رپورٹ میں موت کی تعداداور بھی زیادہ تھی۔
ہر جگہ کو دیکھ کر یہ پوچھ سکتے ہیں کہ رپورٹ میں بتائی گئی مدت میں عام طور پر کتنی اموات نظر انداز کی گئی ہیں؟2018 کی موت کی شرح کا استعمال کریں تو رپورٹس میں شامل مدت کے دوران ان گاؤں میں کل 174 موتیں نظرانداز کی گئی ہیں۔
اس حساب سے موت کی شرح عام طور سے سات گنا زیادہ تھی اور ان گاؤں میں لگ بھگ 1123‘زیادہ موتیں’ہوئیں۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ گاؤوں کا دورہ کرنے والے صحافی دہشت اور بھرم کا ذکر کرتے ہیں۔
ان اعدادوشمار کو سمجھنا
کل آبادی پر زیادہ ا موات کے فیصد کو ‘اضافی موت کی شرح’کہہ سکتے ہیں۔ سب ملاکر رپورٹس میں 0.23فیصد کی اضافی موت کی شرح، یا فی ہزار آبادی پر 2.3 زیادہ موت کی بات کہی گئی ہے۔انفرادی رپورٹس میں اضافی موت کی شرح0فیصدسے0.95فیصدتک جاتی ہے۔اس کا میڈین ویلیو 0.29فیصد ہے۔ تیرہ رپورٹس میں اضافی موت کی شرح0.5فیصد سے زیادہ ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اس لہر کے دوران جب ایک گاؤں کورونا کے قہرکی چپیٹ میں آ گیا تھا تو ایک مہینے میں ہر200لوگوں میں سے ایک کی موت ہو جانا بہت غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ان گاؤں سے ممبئی کاموازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دیہی علاقوں میں موت کی شرح کتنی اونچی ہے۔ ممبئی مہاماری سے سب سےزیادہ متاثرہ شہروں میں سے ایک ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک ممبئی کی لگ بھگ 0.12فیصدآبادی کووڈ 19 سے جان گنوا چکی ہے،جبکہ 2020 کے دوران اضافی موت کی شرح لگ بھگ 0.17فیصدتھی۔ اس نمونے کے کئی گاؤں میں اضافی موت کی شرح اس سے دوگنا زیادہ تھی۔
ہمیں جلدبازی کرکے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ ان رپورٹس میں درج اونچی موت کی شرح تمام دیہی علاقوں کی صورتحال کو دکھاتی ہے۔ آخر رپورٹس ان گاؤں پرمرکوز ہے جہاں زیادہ موتیں ہوئیں اور کئی گاؤں میں بیماری کم ہی پھیلی ہوگی۔
لیکن رپورٹس سے اشارہ ملتا ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ بیماری تیزی سے پھیل سکتی ہے اور اس کے بہت سنگین نتائج ہوتے ہیں۔
کیا تمام اموات کووڈ 19 سے ہوئیں؟
رپورٹس میں بتائی گئیں زیادہ ترا موات کی تصدیق کی گئی کووڈ 19 سے نہیں ہوئی تھیں۔ پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر اصل میں اس بیماری کی وجہ سےہی ہوئیں۔ سب سے پہلے، رپورٹ کا وقت ان چھ صوبوں میں کورونا کے بڑھتے معاملوں کے ساتھ میل کھاتا ہے۔ مشتبہ کورونااموات میں اضافہ کی وجہ سے ہی صحافی ان گاؤں میں پہنچے تھے۔
اس کے علاوہ اکثر رپورٹس گاؤں کے لوگوں میں کورونا کے بارے میں بتاتی ہیں۔ اکثر سانس پھولنا، بخار اور ‘کووڈکی علامت’ کا ذکر ہوتا ہے حالانکہ یہ ہمیشہ واضح نہیں ہوتا ہے کہ تمام مرنے والوں میں یہ آثار تھے یا نہیں۔
کچھ گاؤں میں اکثر اموات کے بعد محکمہ صحت نے کیمپ لگاکر کچھ لوگوں کی کووڈ جانچ کی، جس سے معلوم پڑا کہ کئی اصل میں کورونا سے متاثر تھے۔
جانچ کم اور مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ
ظاہر ہے کہ مرنے والوں میں سے بہت کم کی جانچ کی گئی تھی۔ کچھ رپورٹس صاف کہتی ہیں کہ کسی بھی مرنے والے کی کووڈ جانچ نہیں ہوئی، جبکہ دیگر میں گاؤں کے لوگ اموات کو ‘پراسرار’ بتاتے ہیں،یا ٹائیفائیڈ یا ملیریا جیسی دیگر بیماریوں کو اموات کی وجہ بتاتے ہیں۔
کچھ گاؤں میں لوگ جانچ کے لیے تیار نہیں تھے اور کچھ لوگ کورونا کو ایک بیماری ماننے کو بھی تیار نہیں تھے۔
کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گاؤں میں کتنے لوگوں کی جانچ ہوئی اور کتنی اموات کو کورونا کی وجہ سے مانا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اموات میں سے 10فیصد سے کم کو سرکاری طور پر کووڈ 19اموات کی صورت میں درج کیا گیا تھا۔
اصل میں حالت اور بھی خراب ہو سکتی ہے؛اموات میں اچھال کی وجہ سے اور شاید میڈیا کے دھیان کے وجہ سے ہی کبھی کبھی طبی اہلکاروں نے گاؤں پہنچ کر جانچ کی۔ اس طرح جن گاؤں سے ایسی رپورٹس سامنے آتی ہیں، ان میں معمول سے زیادہ ٹیسٹ اور رپورٹنگ کاامکان ہے۔
اموات کی شرح کا اندزہ
کورونا وائرس سے متاثر لوگوں میں سے مرنے والوں کے فیصدکو‘انفیکشن سےموت کی شرح’یا آئی ایف آر کہتے ہیں۔دیہی علاقوں میں انفیکشن کاپھیلاؤ کس حد تک ہوا ہے اور کورونا سے کتنی موتیں ہوئی ہیں، ان معاملوں کے بارے میں جانکاری کی کمی کی وجہ سے دیہی ہندوستان سے قابل اعتماد آئی ایف آر کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ہم ان رپورٹس کی بنیاد پر ان علاقوں میں کورونا کی دوسری لہر میں آئی ایف آر کا اندازہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
اگر ہم یہ مانیں کہ ان گاؤں میں سبھی اضافی موتیں کووڈ 19 سے ہی ہوئی اور تمام گاؤں والےمتاثر ہوئے، تو اضافی موت کی شرح اصل میں آئی ایف آر کے برابر ہوگی۔ لیکن اس کاامکان کم ہے کہ سبھی گاؤں والے متاثر تھے اس لیےاضافی موت کی شرح کو آئی ایف آر کے کم از کم قیاس کے طور پردیکھنا چاہیے۔
اس حساب سے دوسری لہر کے دوران ان دیہی علاقوں میں آئی ایف آر کم ازکم 0.29فیصد(اضافی موت کی شرح کا میڈین ویلیو)رہی ہوگی۔ اصل آئی ایف آر 0.5فیصدکے قریب ہو سکتی ہے 61 میں سے 13 رپورٹس میں اضافی موت کی شرح 0.5فیصد سے زیادہ تھی، جو 2020 کے دوران ممبئی میں کووڈ 19 آئی ایف آر کے اوسط اندازے سے لگ بھگ دوگنا ہے۔
موت کی شرح اتنی اونچی کیوں تھی؟صحت خدمات اوربالخصوص آکسیجن کی کمی کی تفصیلات کئی خبروں میں لکھی ہے ایسا ہو سکتا ہے کہ ان وجوہات سے آئی ایف آر بڑھا ہو۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس لہر کے دوران وائرس کے زیادہ مہلک ویرینٹ پھیلے ہیں، جو موت کی شرح میں اضافے کا باعث ہو سکتے ہیں۔
کیا نتیجہ نکلا
کورونابحران کی دوسری لہر نے دیہی ہندوستان کے کچھ حصوں میں موت کی شرح میں کافی اچھال لایا ہے۔ نیوز رپورٹس سے اس بحران کی سطح کا ااندازہ لگانا مشکل ہے اس کے لیے ڈیتھ رجسٹریشن ڈیٹا یا سروے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ جب بیماری گاؤں میں داخل ہوتی ہےتو تیزی سے پھیل سکتی ہے اور موتیں تیزی سے بڑھ سکتی ہیں۔
ان گاؤں میں بیماری اس طرح کیسے پھیلی؟ ہو سکتا ہے کی ایکٹو انفیکشن زیادہ ہونے اور ساتھ ہی چہل پہل بڑھنے کی وجہ سے اتنی تباہی مچی۔
اتر پردیش کی کئی رپورٹس دیہی علاقوں میں کوروناقہرکو پنچایت انتخابات سے جوڑتی ہیں؛جب شہروں میں انفیکشن پھیل رہا تھا،تبھی انتخاب کی وجہ سے گاؤں میں آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ اس طرح گاؤں- گاؤں میں وائرس پہنچ گیا۔
کچھ رپورٹس بیداری کی کمی یااحتیاط کے ہٹنے کے بارے میں لکھتی ہیں۔ کچھ میں کسی خصوصی‘سپر اسپریڈنگ’واقعہ کی تفصیل ہے۔ وائرس کے زیادہ آسانی سے پھیلنے والے ویرینٹ نے بھی قہرکی تیزی بڑھا دی ہوگی۔
کچھ اموات کو شاید روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹس کے مطابق زیادہ تر مرنے والوں کی کورونا جانچ نہیں ہوئی اور کئی لوگوں کوعلاج نہیں ملا۔ رپورٹس میں دیہی علاقوں میں خراب صحت انتظامات پر اکثر چرچہ ہوتی ہے۔
عوامی صحت کی جانکاری کی کمی کی وجہ سے بھی ان دیہی علاقوں میں مہاماری کے بارے میں بیداری کم تھی۔ دیہی علاقوں میں ٹیکے کو لےکر ہچکچاہٹ بھی کئی رپورٹس میں دکھتی ہے۔
پہلی لہر کے دوران کیے گئے سیرو سروے کے مطابق کچھ دیہی علاقوں میں کورونا کا کافی پھیلاؤ ہوا تھا، لیکن سرکاری اعدادوشمار میں موتیں بہت کم تھیں(اس مضمون میں بہار سے مثال، اور جھارکھنڈ میں یکساں تصویر ابھرتی ہے)۔ اس ڈیٹا سے لگ سکتا ہے کہ دیہی ہندوستان میں کورونا کا آئی ایف آر کم ہے لیکن ان رپورٹس سے تو ایسا نہیں لگتا ہے۔
ان رپورٹس کو دیکھیں تو دیہی ہندوستان میں کم موت کی تعداد کم ٹیسٹ اور ریکارڈنگ کو دکھاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے کئی دیہی حصوں میں کورونا موتیں بڑی تعدادمیں سرکاری اعدادوشمار میں درج نہیں کی گئی ہیں۔
نوٹ:مضمون میں استعمال کیے گئے اعدادوشمار کے ڈیٹا اور خبروں کے لنک اس ڈاکیومینٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
(مراد باناجی مڈل سیکس یونیورسٹی لندن میں ریاضی دان ہیں۔آشیش گپتا پینسلوانیہ یونیورسٹی میں ڈیموگرافی اور سوشیالوجی میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں اور لینا کمرپن آزاد محقق ہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر