اکالی دل پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
شادی تو ویسے دو بالغ افرا کی نجی پسند کا معاملہ ہوتا ہے۔ مگر اگر ان دوافراد کا تعلق دو الگ الگ مذاہب سے ہے، تو اس پر ایک طوفان کھڑا ہو جاتاہے۔ کئی بار فساد بھی برپا ہوجاتا ہے۔ سماج اور مذاہب کے ٹھیکہ داروں کادہرا معیار تو دیکھیے، اگر لڑکی نے دوسرے مذہب کے لڑکے سے شادی کی ہےتوہنگامہ ہونا لازمی ہے۔
اور اگر اس کا الٹ ہو یعنی لڑکے نے دوسرے مذہب کی لڑکی کو پٹا کر شادی کی ہے، تو یہی ٹھیکہ دار اس کی واہ واہی کرتے تھکتےنہیں ہیں۔ جیسے اس لڑکے نے کوئی قلعہ فتح کیا ہو۔ مگر یہی کام لڑکی کرے،تو سماج اور خاندان کی ناک کا سوال آجاتا ہے۔
پچھلے دنوں ایسا ہی کچھ جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں پیش آیا۔ایک بالغ سکھ لڑکی نے مسلمان لڑکے سے شادی کیا کرلی کہ ایک طوفان کھڑاہوگیا۔ سیاسی دکان چمکانے کے لیے دہلی سے لیڈران سرینگر پہنچ گئے۔ان لیڈروں کے لیےلگتا تھا کہ کشمیر کی انتظامیہ جیسے استقبال کرنے کے لیےتیار کھڑی تھی۔
یاد رہے یہ وہی انتظامیہ ہے، جس نے پچھلے سال اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد اور دیگر لیڈران کو ایئرپورٹ سے ہی باہر نہیں آنے دیاتھا۔ دلیل یہ دی تھی، ان کی وجہ سے مقامی نظم و نسق کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
ویسے تو ہندوستان میں بین المذاہب شادیا ں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مغل بادشاہ اکبر سے لےکر تقریباً سبھی مغل فرمانرواں کی رانیاں راجپوت شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ حتیٰ کہ اورنگ زیب جیسے کٹر مذہبی بادشاہ کی دورانیاں ادھے پوری اور نواب بائی نسلاً ہندو راجپوت تھیں۔سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چہیتی بیوی مسلمان تھی۔
دکن میں عادل شاہی سلطنت کےبانی یوسف شاہ عادل کی رانی ایک برہمن خاندان سے تھی۔ بالی ووڈ کے کئی اداکاروں، سیاستدانوں، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والےافراد نے دیگر مذاہب میں شادیا ں کی ہیں۔ ہندوستان جیسے کثیر نسلی و کثیرمذاہب کے ملک میں ایک ہی گاؤں یا شہر یا ہاؤسنگ سوسائٹی یا ایک ہی دفترمیں کام کرتے ہوئے جوان دلوں کا ایک دوسرے میں دلچسپی لینا تو فطری بات ہے۔ جب پیار پروان چڑھتا ہے، تو وہ سماج کی دیواروں کو نہیں دیکھتا ہے۔
چونکہ اس سرینگر والے معاملے میں لڑکا مسلمان تھا، مذاہب کے ٹھیکہ داروں نے اس کو لو جہاد یعنی زبردستی کی شادی قراد دےکر فرقہ وارانہ ماحول کومکدر کر دیا۔
ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سائے میں پلی تنظیمیں تو تاک میں لگی ہوتی ہیں۔ وہ جلد ہی ہندو خطرے میں ہے کا نعرہ بلند کرکے ہندو فرقہ کو لام بند کرتی ہیں۔ چونکہ ان کے نزدیک سکھ، جین اوربدھ بھی ہندو دھرم کا ہی حصہ ہیں، اس لیے وہ ان پر بھی نظر رکھتے ہیں۔
اب ان سے کوئی پوچھے کہ ایک ہزار سال کے مسلم دور حکومت اور پھر کم و بیش دوسو سال کے برطانوی دور حکومت کے دوران جب ہندوؤں کی آبادی کم نہیں ہوئی،یا ان کے مذہب کو کوئی خطرہ درپیش نہیں آیا، تو اب آزاد ہندوستان میں اور وہ بھی اب وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں ہندو کو کیوں کر خطرہ ہوسکتا ہے؟ 80فیصد ہندو آبادی کو آخر 15فیصد سے بھی کم مسلمانوں سے کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟
اندازہ کریں کہ کس حد تک مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی کئی صوبائی حکومتوں نے باضابطہ قانون سازی کرکے بین المذاہب شادیوں پر یا تو پابندی لگادی ہے، یا ان کو اس قدرپیچیدہ بنایا ہے کہ کوئی اس طرح کی شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتاہے۔
حالانکہ اسی سال بمبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں صاف بتایاتھا کہ دو بالغ افراد چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، شادی کےمعاملے میں اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ عدالت نے بین المذاہب شادیوں کے رجحان کو سراہا بھی تھا اورلکھا تھا کہ اس سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور کلچرکی آبیاری ہوتی ہے۔
کشمیر میں چونکہ یہ سکھ لڑکی اور مسلمان لڑکے کے پیار و محبت اور شادی کامعاملہ تھا، اسی لیے فرقہ پرستوں نے ا ن دونوں طبقات کو لڑوانے کی بھرپور سازش رچانے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔ 1947کے خونریز فسادات کے بعدجو پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے زیادہ تر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان ہوئےتھے، اس کے بعد ان دونوں فرقوں کے درمیاں خاصی حد تک خلیج پٹ چکی ہے۔2019 میں کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر خود کش حملوں کے بعد جب پورے ملک میں کشمیری طالبعلموں اور تاجروں کے خلاف شر انگیزی کا ایک طوفان برپا ہوگیاتھا، تو مختلف جگہوں پر سکھ فرقہ نے ان کو اپنی امان میں لے لیا۔ پنجاب میں سکھ فرقہ نے اپنے گوردواروں نیز گھروں کے دروازے کھول کر ان کو فرقہ پرستوں کے قہر سے نجات دلوائی۔
وادی کشمیر میں سکھوں کی آبادی 2 فیصد سے بھی کم ہے۔پنجاب اور ملک کےدیگر علاقوں میں سکھوں کی اس خیر سگالی کا رد عمل کشمیر میں کچھ اس طرح ہوا کہ سرینگر اور کشمیر کے دیگر علاقوں میں ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ و ہاؤس بوٹ والوں نے سکھوں کے لیے مفت کھانے اور رہائش کی آفر دے ی۔
ایک ٹریول ایجنٹ جو حج و عمرہ کا کام کرتا ہے، نے تو سکھوں کے لیے مفت حج اور عمرہ کی آفر دے دی۔ بعد میں اس کو احساس ہوا کہ حج اور عمرہ توصرف مسلمانوں کے لیے ہوتا ہے، پھر اس نے سکھوں کی چوائس کے کسی بھی مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے کرایہ میں چھوٹ دینے کی پیشکش کی۔
سن1686میں مغل حکمران اکبر کے ذریعے کشمیر پر قبضے کے بعد سے ہی وہاں کےباسیوں کے لیے تاریک رات کا سلسلہ شروع ہوا، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ مغل دور کے بعد افغان، سکھ اور پھر ڈوگرہ دور ا س خطے کے سیاہ ترین باب ہیں۔ کسانوں اور دست کاروں پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا تاکہ وہ نسل در نسل قرضوں کے گردآب میں پھنسے رہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور حکومت جہاں پنجاب کے لیے ایک سنہری دور رہا ہے، اس کے برعکس کشمیر میں اس کے گورنروں نے وہاں کے باسیوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ ہاں سکھ سلطنت کے آخری دور میں کشمیریوں نے تھوڑی راحت کی سانس لی۔ معمر سیاستدان پروفیسر سیف الدین سوز کے مطابق حکمرانوں کو احساس ہو گیا تھاکہ سکھوں کی طرح، مسلمان بھی توحید پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے مہاراجہ کھڑک سنگھ نے کشمیر میں جامع مسجد کو 25 سال بعد عوام کے لیے دوبارہ کھول دیا اوروہاں ایک مسلمان شیخ امام الدین کو گورنر بنا کر بھیجا۔
اسی کی دہائی میں جب پنجاب میں عسکریت کی وجہ سے سکھ زیر عتاب تھےتوکشمیر میں ان کو خاصی پذیرائی اور پناہ ملتی تھی۔ پچھلے تیس سالوں کےدوران کشمیر میں دگرگوں حالات کے باوجود مقامی مسلمانوں نے سکھ فرقہ کابھر پور خیال رکھا۔
اسی اتحاد اور بھائی چارہ کو پار ہ پارہ کرنے کے لیے دہلی میں اکالی دل کےایک خود ساختہ لیڈر، جو حال تک بھارتیہ جنتا پارٹی میں تھے، نے اس سکھ لڑکی کی شادی کے بہانے وادی کشمیر کے خرمن میں آگ لگانے کی کوشش کی۔ لیکن مقامی سکھ اور مسلمان کمیونٹی نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹایا۔
جب میں نے آل پارٹی سکھ کواڑنیشن کمیٹی کے سربراہ جگموہن سنگھ رینہ سے اس معاملے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کشمیری سکھوں کو استعمال کرکے فرقہ وارانہ کھیل کھیلنا چاہتے تھے۔ اکالی دل تو پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی، تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی، مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر