بڑا سوال اب ہندوستان میں یہ ہے کہ بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ نئی دہلی میں مغربی ممالک کےسفارت خانےآج کل سیاسی تجزیہ کاروں، لیڈروں اور ہند و قوم پرستوں کی مربی آر ایس ایس کے لیڈران و کارکنان کی تواضع و خاطر مدارت میں لگے رہتے ہیں، تاکہ سن گن لی جاسکے کہ کیا آرایس ایس نریندر مودی کو تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے دے سکتی ہے؟
ہندوستان میں عام انتخابات میں ابھی ڈھائی سال کا وقفہ باقی ہے۔ مگر اپوزیشن خاص طور پر کانگریس کی حالت زار دیکھ کر لگتا ہے کہ حکمراں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)ہی یہ معرکہ تیسری بار سر کر لے گی۔ کسانوں کی ملک گیر ایجی ٹیشن، حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج تو ہے، مگر اپوزیشن ابھی تک اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ہے۔ کانگریس میں سر پھٹول جاری ہے۔ 2004کے برعکس سیکولر اور لبرل فورسز کو یکجا کرنے کے بجائے پچھلے کئی انتخابات میں وہ راہل گاندھی کی قیادت میں سافٹ ہندوتوا کے ذریعے عوام کو لبھانا چاہ رہی ہے۔
اگر عوام کو ہندوتوا پر ہی اکٹھا کر نا ہے، تو وہ دو نمبر ہندوتوا کی کیوں حمایت کریں گے؟ یہ پارٹی اس معمولی سے نکتہ کو پچھلے آٹھ سالوں سے سمجھنے سے قاصر ہے۔ حال ہی میں کانگریس کی کارگزارصدر سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی واڈرا نے اتر پردیش صوبہ کےلکھم پوری کھیری ضلع میں بی جے پی کے مقامی لیڈر اور مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجئے کمار مشرا کے بیٹے آشیش کمار مشرا کے خلاف محاذ کھولا اور گرفتاردی، اگر اسی طرح کانگریس نے اپوزیشن کا کردا ر پچھلے آٹھ سالوں میں ادا کیا ہوتا تو حالت مختلف ہوتی۔
مشرا نے احتجاج کرنے والے سکھ کسانوں کے اوپر مبینہ طور پر گاڑی چڑھا کر چھ افراد کو ہلاک کیا۔ مگر ماہرین کے مطابق اس سعی کا کانگریس کو اب کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا اور ان کا ووٹ اتر پردیش میں6 سے 7فیصد کے درمیان ہی رہےگا۔ بس کانگریس کو اپنے آپ کو دوبارہ دریافت کرنا پڑے گا اور ایک نئی اور صاف و شفاف ذہن کی لیڈرشپ ہی اس کو اب زندہ کرسکتی ہے۔
بڑا سوال اب ہندوستان میں یہ گردش کر رہا ہے کہ بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ نئی دہلی میں مغربی ممالک کےسفارت خانےآج کل سیاسی تجزیہ کاروں، لیڈروں اور ہند و قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(آر ایس ایس)کے لیڈران و کارکنان کی تواضع و خاطر مدارت میں لگے رہتے ہیں، تاکہ سن گن لی جاسکے کہ کیا آرایس ایس نریندر مودی کو تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے دے سکتی ہے؟
ابھی حال ہی میں نئی دہلی میں امریکہ کے قائم مقام سفیر اتل کشیپ ایسی ہی سن گن لینے کے لیےآرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملنے پہنچے تھے۔ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ چونکہ آرایس ایس مودی کے سیاسی قد اور اس کی پارٹی سے بالاتر شخصیت سے خائف ہے، اس لیے وہ ان کوتیسری بار وزیر اعظم نہیں بننے دےگی۔ ویسے تو مودی نے خود ہی سیاسی عہدہ کے لیےعمر کی حد 70سال مقرر کرکے کئی لیڈروں کو گھر پر بٹھادیا، اب 2024 کے عام انتخاب میں یہی رول ان پر بھی فٹ آئےگا۔ اگلے سال کے وسط میں ہندوستان میں صدارتی انتخاب بھی منعقد ہونے والاہے۔
فی الحال مودی کے جو دو جانشین منظر عام پر ہیں، وہ وزیر داخلہ امت شاہ اور اتر پردیش صوبہ کے وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ اندرون خانہ بی جے پی میں پچھلے کئی سالوں سے گجرات لابی کی برتری کی وجہ سے رن پڑا ہوا ہے۔ دونوں مودی اور امت شاہ گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ا ن کی وجہ سے مرکزی حکومت میں گجرات بیوروکریسی کا پورے طور پر قبضہ جما ہوا ہے۔ مودی نے ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کو رام کرنے کےلیےوارانسی سے انتخاب جیت کر اپنے آپ کو اسی صوبہ کے نمائندہ کے طور پر منوا تو لیا، مگر یہ شاید امت شاہ کے لیےیہ ممکن نہیں ہوگا۔
پچھلے کئی برسوں سے آدتیہ ناتھ نے سیاسی قد کے معاملے میں شاہ کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اگلے سال فروری میں اتر پردیش کے صوبائی انتخابات ان کے لیےایک امتحان ہوں گے۔ اگر وہ بی جے پی کو واپس حکومت میں لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو2024میں ان کا وزیر اعظم بننا تقریباً طے ہے۔ مودی کے برعکس یوگی کبھی آرایس ایس کے ممبر نہیں رہے ہیں۔2017 میں و زیر اعلیٰ بننے تک وہ بی جے پی کے بھی رکن نہیں تھے، گو کہ گورکھپور سے وہ 1998سے لگاتا ر بی جے پی کےٹکٹ پر پارلیامانی انتخاب جیتے آئے ہیں۔
ا ن کے مرشد گورکھپور کے گورکھ ناتھ مٹھ یا مندر کے مہنت یوگی آوید ناتھ نے اتر پردیش میں اپنا نیٹ ورک ہندو یوا واہنی کے نام سے کھڑا کیا ہوا تھا۔ اس سیٹ پرآوید ناتھ ہی الیکشن لڑتے تھے، جو بابری مسجد کے خلا ف مہم کے ایک روح رواں تھے۔ مگر 1998میں انہوں نے بی جے پی کو مجبور کیا کہ ان کے بدلے اب ٹکٹ ان کے شاگرد یوگی آدتیہ ناتھ کو دیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ پہلی بار پارلیامنٹ میں آئے، زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنے وہ خاصے شرمیلے دکھائی دیتے تھے اور اکثر لالو پرساد یادہ کے طنزیہ جملوں کا نشانہ بنتے تھے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا اصل نام اجے سنگھ بشٹ ہے، اور وہ اتراکھنڈ صوبہ کے ایک راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد فاریسٹ رینجر تھے۔ حساب میں گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے دنیا تیاگ کر گورکھ ناتھ مٹھ میں مہنت آوید ناتھ کی شاگردگی اختیار کی۔ جس نے ان کو چند سال بعد ہی پجاریوں کا سربراہ بنا دیا۔ یہ عہدہ کسی برہمن کو ہی دیا جاتا ہے، مگر آخر آوید ناتھ نے اس نوجوان سنیاسی میں کیا دیکھ کر اس کی پذیرائی کی، ہنو ز ایک راز ہے۔
مودی نے وزیرا عظم بننے کے بعد جس طرح اپنی پارٹی کے لیڈران کو کنارے لگادیا یا ان کی وقعت کم کردی، آدتیہ ناتھ واحد شخصیت ہیں، جو اس دوران اپناسیاسی قد بڑھانے اور حلقہ اثر وسیع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے کئی وزرائےاعلیٰ اور مرکزی وزیروں کو چھٹی کردی، مگر انتظامی ناکامی کے باوجود وہ یوگی کو ہاتھ نہیں لگا سکے۔
بی جے پی کے ایک لیڈر کے مطابق مودی اورشاہ جوڑی اور پارٹی کے اند ر گجرات لابی یوگی کو پسند نہیں کرتی ہے، مگر ان کے مطابق وہ اس وقت پارٹی کے اندر مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کے پشت پر آرایس ایس کا بھی ہاتھ ہے۔اس لیڈر کے مطابق یوگی کی پوزیشن اس وقت وہی ہے، جو 2013میں مودی کی تھی۔ اس وقت پارٹی کی مجلس عاملہ نے معمر لیڈر ایل کے اڈوانی کو دروازہ کی راہ دکھا کر ان کی مخالفت کے باوجود مودی کو وزارت اعظمیٰ کے امیدوار کے لیےمنتخب کیا، باقی کام گراؤنڈ پر آرایس ایس اور ہندوستان کے کارپوریٹ سیکٹر نے کیا۔ دلچسپ بات ہے کہ جہاں مودی کے علاوہ وزیروں و وزرائے اعلیٰ پر تشہیری مواد پر اپنی تصویر لگانے پر پابندی عائد ہے، یوگی اس سے مستثنیٰ ہیں۔
ایک سیاسی تجزیہ کار کے مطابق آرایس ایس میں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ مودی سے جتنا کام لیا جاسکتا تھا وہ لیا جا چکا ہے۔ اب وہ عالمی پذیرائی کے حصول کے لیے ہندوتوا کے ایجنڈہ کو نرم کرنے کے فراق میں ہیں۔ آر ایس ایس کا خیال ہے کہ اس کے پاس یوگی کے علاوہ کوئی اور عوامی لیڈر موجود نہیں ہے۔ مزید کہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں یوگی کا اپنا ہندو واہنی کا کیڈر قریہ قریہ میں پھیلا ہوا ہے۔ 2017کے اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے بعد تو مودی، جموں و کشمیر کے موجودہ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ وہ حلف برداری سے قبل ایک ہیلی کاپٹر چارٹر کرکے اترا کھنڈ کے پہاڑوں میں اپنے آبائی مندر میں آشیر واد لینےبھی چلے گئے تھے۔
مگر واپسی پر ان کو معلوم ہوا کہ آرایس ایس نے قرعہ یوگی کے نام نکالا ہے۔ لگتا ہے کہ وزارت اعظمیٰ کی کرسی سنبھالنے سے قبل ان کو انتظامی امور کی تربیت کے لیےاتر پردیش کے وزارت اعلیٰ کا منصب سونپا گیا۔ یوگی بھی اپنی سخت گیر ہندو انتہا پسند شبیہ کو کم کرنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ وہ بالکل مودی کے نقش قدم پر چل کر کارپوریٹ سیکٹر کو مراعات دےکر ان کی خوشنودی حاصل کرکے اور اپنی تقریروں میں اقلیتی طبقوں کو نشانہ بناکر قوم پرستی کا جنون پیدا کرکے ووٹ بٹورنے کا کام کر رہے ہیں۔
مگر اگر کسانوں کی ایجی ٹیشن سکھ علاقے لکھم پور کھیری ضلع سے باہر پھیل جاتی ہے، اور اپوزیشن اس کا فائدہ اٹھا پاتی ہے، تو بس وہی ان کے اس مارچ کو روک سکتی ہے۔ فی الحال وہ اور ان کے حواری اس ایجی ٹیشن کو سکھ بنام ہندو پیش کرکے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دےکر ہندو ووٹوں کو لام بند کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے 2024 کے عام انتخابات کی تیاری ہے۔اور یہ بھی اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہےکہ بی جے پی مسلمانوں کی حمایت کے بغیر بھی اقتدر میں آسکتی ہے اور وہ اب یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ سکھوں اور جاٹ کسانوں کے بغیر بھی میدان مار سکتی ہے اور ہندو فرقہ پرستی کو بھنانے میں اب ان کو کوئی عار نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر