ہندوستان اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے کئی بار اشتراک کرکے پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان کے لیے تویہ خطرہ تھا ہی، اسرائیل اس کو اسلامی بم سے تشبیہ دیتا تھا۔
اٹھائیس مئی،1998کو ہندوستانی پارلیامنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی پریس گیلری سے میں11اور 13مئی کو راجستھان کے پوکھرن میں کیے گئے جوہری دھماکوں پر جاری بحث کورکر رہا تھا۔ بحث کی شروعات میں اس دن صبح وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ ایٹمی تجربوں نے خطے میں طاقت کا توازن ہندوستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور ایک نئے موافق تژویراتی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔
اس سے قبل پارلیامانی امور کے وزیر نے پاکستان کا نا م لےکر کہا کہ ہندوستان دوہاتھ کرنے کے لیے اب تیار ہے اور پاکستانی حکمرانو ں کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ مقام اور وقت کا انتخاب کریں۔ اس گرما گرم بحث کے دوران مجھے یا د ہے کہ دوپہر چار بجے کے آس پاس اپوزیشن لیڈر نٹور سنگھ ایوان میں داخل ہوئے اور اگلی صف میں اپنی پارٹی کانگریس کے لیڈران کے ساتھ کانا پھوسی کرنے لگے۔
ایوان میں کانگریس کے لیڈر شرد پواراپنی نشست سے اٹھ کر اسپیکر کے پاس گئے اور ان کے کان میں کچھ بتایا، جس کے بعد اسپیکر نے تقریر کررہے ایک ممبر کو چند لمحے بیٹھنے کے لیے کہا اور نٹور سنگھ کو فلور دے دیا۔ نٹور سنگھ جو ہندوستان کے سابق خارجہ سکریٹری اور پاکستان میں ہائی کمشنر بھی رہ چکے تھے، نے کہا ان کو ایسی اطلاع ملی ہے کہ پاکستان نے چند لمحے قبل بلوچستان کے چاغی پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کر دیا ہے۔ پورے ایوا ن پر سکتہ سا چھا گیا۔
صبح سے جو گرما گرم بحث جاری تھی،اس پر جیسے ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔ مگر چند منٹوں کے بعد ہی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کے اراکین نے کھڑے ہوکر نٹور سنگھ کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی۔اس ہنگامہ آرائی کے دوران اسپیکر نے شاید آدھے گھنٹے تک ایوان کی کاروائی روکنے کا اعلان کردیا۔ جب ایوان کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی تو وزیر دفاع جارج فرنانڈیز نے اعتراف کیا کہ ہندوستانی وقت کے مطابق تین بج کر 46منٹ پر ہندوستان کے زلزلہ پیما آلات اور اداروں نے بھونچال کے جھٹکے ریکارڈ کیے، جن کے ماخذ پاکستان کی چاغی کی پہاڑیا ں تھیں۔
اگلے روز انہوں نے تفصیلی بیان میں بتایا کہ مختلف جگہوں پر موجود آبزرویشن سینٹروں نے تصدیق کی ہے کہ زلزلہ کے یہ جھٹکے زیر زمین جوہری بم کے دھماکوں کی وجہ سے آئے تھے اور ان کی انرجی10کلو ٹن ٹی این ٹی دھماکہ خیز مواد کے برابر تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربات ایک سے زیادہ تھے اور دیگر تجربات کم نوعیت کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہماری حکومت نے اس کا پہلے سے ہی اندازہ لگایا تھا اور ہماری دفاعی پلاننگ اور اسٹریٹجی میں اس کو فیکٹر میں لایا گیا تھا۔مگر یہ افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان نے ان تجربات کو ہندوستان کے ساتھ نتھی کردیا ہے۔’چونکہ 10اکتوبر کو پاکستان کے نیوکلیر پروگرام کے خالق عبدالقدیر خان کا انتقال ہو گیا، لوک سبھا میں اس وقت کی کارروائی کو ریکارڈ میں لانا ضروری ہو گیا تھا۔
اگست 2015کو مرحوم شجاعت بخاری کی قیادت میں جب 10کشمیری صحافیوں کا ایک وفد اسلام آباد اور مظفر آباد کے دورے پر تھاتو میں بھی دہلی سے ان کے ہمراہ تھا۔ لاہور کے گھریلو ہوائی ٹرمینل پر پہنچ کر معلوم ہو اکہ اسلام آباد کی فلائٹ چار گھنٹے لیٹ تھی۔ ٹرمینل کے وسیع و عریض ویٹنگ روم انتظا ر کی کوفت بھگت ہی رہے تھے کہ ہال میں عبدالقدیر خان، چند افراد کے ہمراہ نمودار ہوئے اور دور ایک کونے میں صوفے پر براجمان ہوگئے۔
اس دوران کئی افراد ان کے پاس جاکر ان سے علیک سلیک کررہے تھے اور چند افراد ان سے تصویر بنانے کی گزارش کرتے تھے اور وہ ان کی درخواست کی تعمیل کر کے پوز بھی دے رہے تھے۔ ہم دور سے ہی ا ن کےمعمولات دیکھ رہے تھے۔ ہمارے وفد میں اکثریت نوجوان صحافیوں کی تھی، عبدالقدیر خان جیسی اہم شخصیت کو اتنا قریب دیکھ کر ان کی رگ پھڑک رہی تھی۔ وہ بار بار شجاعت کی طرف دیکھ کر جیسے اجازت طلب کر رہے تھے۔
میں ان کو اپنا واقعہ سنا رہا تھا۔ جب فروری2001کو لاہور کے نوائے وقت کے دفتر میں مجید نظامی سے ملاقات کے بعد میں ان کے دست راست منیر احمد کے ہمراہ سیڑھیوں سے اتر رہا تھا کہ دیکھا کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان اوپر آرہے تھے۔ انہوں نے رک کر منیر سے علیک سلیک کی، جس نے میرا تعارف کرایا۔ چند سیکنڈ رک کر انہوں نے خبر و خیریت دریافت کی اور چلے گئے۔
اسی سال جب مجھے گرفتار کرکے تہاڑ جیل بھیجا گیا تو ایک روز ایک ہندی اخبار نے نمک مرچ لگا کر عمران خان کے ساتھ میری ملاقات کی ایسی تفصیل چھاپ دی جو مجھے خود پتہ نہیں تھی۔ بس جیل کنٹرول روم سے بلاوا آگیا اور الٹا لٹکا کر اس ملاقات کے حوالے سے ڈنڈوں سے پٹائی کی گئی۔ میری اس کہانی کے باوجود جب چند صحافیوں کی بے قراری میں کمی نہیں ہوئی تو شجاعت نے اجازت دی کہ بس علیک سلیک کے بعد واپس آجائیں۔ مگر جب وہ عبدالقدیر خان صاحب کے پاس پہنچے تو ان کی سیکورٹی پر مامور افراد نے ان کو پاس نہیں آنے دیا، جبکہ اس دوران و ہ دیگر افراد کو آرام سے ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے دے رہے تھے۔
اس بحث و مباحثہ نے ڈاکٹر صاحب کی توجہ مبذول کی اور کھڑے ہوکر وہ خود ہی ان کے پاس آئے۔ جب انہوں نے سنا کہ وہ سری نگر سے آئے ہیں تو انہوں نے ان کو صوفے پر بٹھایا۔ ان کے ساتھ تصویریں بنا ئیں اور باتیں کیں۔ اسی دوران انہوں نے ہماری طرف اشارہ کرکے ان کو شاید ہمارے بارے میں کچھ پوچھا۔چند لمحوں کے بعد وہ خود چل کر ہمارے پاس آگئے۔ خبر و خیریت اور تعارف کے بعد سیکورٹی والے ان کو واپس اپنے کونہ کی طرف لے گئے۔
جب فلائٹ کا اعلان ہو رہا تھا تو وہ دوبارہ ہمارے پاس آئے اور تاکید کی کہ جو تصویریں ہمارے وفد نے ان کے ساتھ لیں ہیں ان کو ڈیلیٹ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان واپس جاکر ان تصویروں کی وجہ سے پریشانی ہوسکتی ہے۔ چونکہ ہماری فلائٹ ایک ہی تھی اسلام آباد ایئر پورٹ پر انہوں نے دوبارہ تصویریں ڈیلیٹ کرنے کی ہدایت دےکر ڈھیر ساری دعاوؤں کے ساتھ ہم سے وداع ہوگئے۔ ایک ایسے مصروف شخص کا ہماری حفاظت کا اتنا خیال، واقعی ان کی ہی شخصیت کا خاصہ ہو سکتا تھا۔
ہندوستان کے سابق صدر اور سائنسدان ابولفاخرزین العابدین عبدالکلام کا چند روز قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔ لاہورایئر پورٹ پر چند منٹوں کے معانقہ کے دوران،میں نے ان سے کہا کہ میں نے بطور صحافی اے پی جے عبدالکلام کو بطور سائنسی مشیر اور بعد میں بطور صدر کور کیا ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی عبدالکلام کا ہندوستان کے نیوکلیر پروگرام میں کوئی رول تھا؟ مجھے لگا کہ شاید پروفیشنل رقابت کی وجہ سے وہ اے پی جے عبدالکلام سے خائف تھے۔
اس کے تین سال بعد 2018میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز کے ایک پروگرام میں مئی1998کو جوہری دھماکے کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ کے سنتھانم نے اس کی تصدیق کی کہ عبدالکلام کا جوہری تجربوں سے نہ بم بنانے کے پروجیکٹ کے ساتھ کوئی لینا دینا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس تقریب میں ہندوستان کے چنندہ اسٹریٹجک دماغ موجود تھے۔ سنتھانم نے اس دن اپنے دل کے سبھی پھپھولے کھول دیے۔ ان کا کہنا تھا کئی افراد اور اداروں کو کریڈیٹ لینے کا خبط سوار ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر کلام کا اور ممبئی کے بابا اٹامک ریسرچ سینٹر یعنی بارک کا نام لےکر انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تکنیکی حصولیابی کو ا نہوں نے اپنی تشہیر کا ذریعہ بنایا اور اس میں عبدالکلام نے مہارت حاصل کی۔ انہوں نے صحافیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لےکر کہا کہ کس طرح وہ عبدالکلام کو ہندوستان کے جوہری پروگرام کا خالق قرار دیتے ہیں؟’تاسف ہے کہ چند افراد نے تکنیکی کامیابی کو اپنی تشہیر کے لیےاستعمال کیا اور اسی میں عبدالکلام نے مہارت حاصل کی۔ اس نے زندگی میں کبھی بھی ایک بھی تحقیقی پیپر شائع نہیں کیا۔ وہ دھماکہ خیز گریڈ مواد کے بارے میں کیا جانتے تھے؟ یہ ان کا فیلڈ ہی نہیں تھا۔’
ان کا کہنا تھا کہ بارک نے بھی بم کو اپنے کھاتے میں ڈال دیا، جبکہ چنڈی گڑھ کی ٹیکنیکل بیلسٹک ریسرچ لیب نے ٹریگر فراہم کیا تھا اور پونا کی دفاعی تحقیقی لیب نے انرجی کے اخراج کو ماپنے کے آلات فراہم کیے تھے۔
سنتھانم نے مزید کہا کہ مئی 1998کے تجربوں کی خاطر خواہ اور توقع کے مطابق نتائج برآمد نہیں ہوئے اور ہندوستان ابھی بھی معتبر ڈیٹرنس سے دور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک معتبر ڈیٹرنس کے لیےمزید تجربات درکار ہیں۔ مزیدیہ کہ ہندوستان کا ہائیڈروجن بم ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔ چین نے 50اور امریکہ نے 2000تجربات کرکے ڈیٹرنس مکمل کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ڈیٹرنس ہندوستان کے مقابلے معتبر ہے، کیونکہ چین نے اس کو ٹیسٹنگ فیلڈ تک رسائی دی ہوئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مئی 1998میں تجربات سے قبل انہوں نے پوکھرن رینج کی ایک طرح سے ناکہ بندی کی تھی تاکہ تجربہ کی خبر لیک نہ ہونے پائے۔ امریکی اسٹلائٹوں کو دھوکہ دینے کے لیےسبھی سائنسدانوں کو آرمی کی وردی پہنائی گئی تھی۔ فوج کی 58ویں انجینئرنگ ریجمنٹ نے 1995سے کئی بار اسٹلائیٹوں کو دھوکہ دینے کی مشقیں کی تھیں۔ مگر سنتھانم کا کہنا تھا کہ صرف پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو بھنک مل گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آس پاس کے گاؤں والوں کو کچھ شک ہو گیا تھا۔ تجربے سے ایک روز قبل صبح سویرے ایک گھڑ سوار نے سیکورٹی کی دوسری لائن کو عبور کیا تھا، مگر تیسری لائن پر اس کا سراغ لگایا گیا۔’وہ شاید پاکستانی ایجنسی کا ہرکارہ تھا، جو سن گن لینے آیا تھا۔’
گو کہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی جوہری پروگرام کی داغ بیل 1974میں ڈالی گئی تھی، مگر اس کی شروعات 1961میں ہوئی تھی، جب مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے مقام روپ پور میں نیوکلیر ری ایکٹر لگانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ 1963میں اس مقام پر 254ایکڑ زمین بھی ایکوائر کی گئی تھی۔ کنیڈا، ناروے اور پھر سویڈن کے ساتھ ری ایکٹر خریدنے کی بات چیت ہوئی، مگر پھر 1970میں اس پر کام بند ہوگیا۔ 2016میں بنگلہ دیش نے روس کی مد د سے اس پروجیکٹ کا احیاء کیا اور اب یہ2023تک تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
ہندوستان اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے کئی بار اشتراک کرکے پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان کے لیے تویہ خطرہ تھا ہی، اسرائیل اس کو اسلامی بم سے تشبیہ دیتا تھا۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان میں پلوٹونیم ری پررسیسنگ کی جانکاری تو سبھی کو تھی،مگر چھن چھن کر یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ پاکستانی سائنسدان یورونیم پر بھی کام کر رہے ہیں۔ مگر کہاں او ر اس کا پلانٹ کدھر ہے؟ یہ پتہ نہیں چل رہا تھا۔
منصوبہ تھاکہ پلانٹ کا پتہ چلتے ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ہندوستان سرزمین سے فضائی کارروائی کرکے اس کو تباہ کردےگا۔ جیسا کہ بعد میں 1981 میں اس نے اسی طرح کا آپریشن کرکے عراقی نیوکلیر ریکٹر کو تباہ کردیا گیا۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی راء کے ذمہ اس پلانٹ کا پتہ لگانا تھا۔
جب کئی آپریشنز ناکام ہوئے تو بتایا جاتا ہےکہ ہندوستانی خفیہ اہلکاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے بالوں کے نمونے اکٹھے کرنے شروع کر دیے۔ ان کو ٹسٹ ٹیوبوں میں محفوظ کرکے لیبل لگا کر ہندوستان بھیجا جاتا تھا، جہاں انتہائی باریک بینی سے ان میں جوہری مادہ یا تابکاری کی موجودگی کی جانچ ہوتی تھی۔ سالہا سال چلے اس آپریشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یورینیم-235 کی تابکاری کے ذرات پائے گئے۔ اور یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ پاکستان 90فیصد افزودگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے، جو بم بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ نیوکلیر پاور پلانٹ کے لیے4یا5فیصد افزودگی ہی کافی ہوتی ہے۔
اور یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے حاصل کیا گیا تھا۔مگر تب تک ہندوستان میں اندرا گاندھی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔1978میں نئے وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس جب راء کے افسران یہ منصوبہ لےکر پہنچے تو انہوں نے نہ صرف اس کی منظوری دینے سے انکار کیا بلکہ صدر ضیاء الحق کو فون کرکے بتایا کہ ہندوستان کہوٹہ پلانٹ کی سرگرمیوں سے واقف ہے۔
راء نے ڈیسائی کو اس کے لیے کبھی معاف نہیں کیا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نے پاکستانی صدر کو یہ بتا کر راء کے ایجنٹوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا۔ اور اس کے بعد کئی برسوں تک راء اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا۔ڈیسائی واحد شخص ہیں، جنہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز ‘شان پاکستان’اور ہندوستان کے اعلیٰ ترین ایواڑ’بھارت رتن’سے نوازا گیا ہے۔
ڈیسائی کے اس قدم سے پاکستان نے نہ صرف کہوٹہ کو فضائی حملوں سے محفوظ کیابلکہ پس پردہ سفارتی کوششوں سے اسرائیل کو باور کرایاکہ پاکستانی نیوکلر بم اس کے لیے خطرہ نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر