پیگاسس جاسوسی کا معاملہ ایک طرح سے میڈیا، سول سوسائٹی،عدلیہ،حزب اختلاف اور الیکشن کمیشن جیسے جمہوری اداروں پر آخری حملے جیسا تھا۔ ایسے میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے کئی لوگوں کو راحت پہنچائی، جو حال کے سالوں میں ایک ان دیکھی بات ہو چکی ہے۔
پیگاسس معاملے میں سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے کی تشریح صرف قانونی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔اس کے مضمرات کثیرالجہت ہیں۔یہ فیصلہ گھٹن میں قیدجمہوریت کے لیے ہوا کے تازے جھونکے کی طرح ہے۔
پیگاسس تنازعہ ایک ایسےوقت میں سامنے آیا جب اظہار رائے کی آزادی کو لےکرتشویش گہری ہورہی تھیں؛چاہے سماجی کاکنوں اور میڈیااہلکاروں پر لگائے گئے متعددسیڈیشن اور مجرمانہ معاملے ہوں، جمہوری احتجاج کا گلا گھونٹنے کی کوششیں ہوں یا آن لائن نیوز میڈیا پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کے ارادے سے انفارمیشن ٹکنالوجی قانون میں پچھلے دروازے سے کی گئی جابرانہ ترمیم۔
پیگاسس جاسوسی کامعاملہ ایک طرح سے میڈیا،سول سوسائٹی،عدلیہ، حزب اختلاف اور الیکشن کمیشن جیسے جمہوری اداروں پر آخری حملے جیسا تھا۔ایسے میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے کئی لوگوں کو راحت پہنچائی، جو حال کے سالوں میں ایک ان دیکھی بات ہو چکی ہے۔
کچھ سینئر وکیلوں نے کورٹ کے فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے اسے‘تاریخی’اور ‘واٹرشیڈ’جیسے ناموں سے نوازا۔ اسے پہلی نظر میں مودی سرکار پر چارج شیٹ کی قبولیت کے طور پر دیکھا گیا۔عام شہریوں کے لیے بھی یہ کوئی کم راحت کی بات نہیں تھی۔
دی ہندو اخبار کے سابق چیئرمین اور پیگاسس معاملے کے ایک عرضی گزار این رام نے اسےاظہار رائے کی آزادی اور تفتیش کار صحافت کے اپوزیشن میں بڑی جیت بتایا۔
پیگاسس معاملے کی جانچ کرنے کے لیے تین رکنی کمیٹی کا قیام کرنے کے عبوری فیصلے نے اتنایقین دلایا کہ سول سوسائٹی، سپریم کورٹ سے اپنے نئے چیف جسٹس کی قیادت میں مودی سرکار کو ایک مناسب پیغام دیےجانے کا انتظار کر رہا تھا۔اس عبوری فیصلے کے ساتھ ایک طرح سے کورٹ نے اس نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے کا کام کیا، حالانکہ ایسا دھیرے دھیرے قسطوں میں ہی ہو سکتا ہے۔
عدالت کےفیصلے اور اس کےاحتیاط کے ساتھ تیار کیے گئے نیریٹو میں چھپا ہوا پیغام اس کی خالص قانونی شرح سے کم اہم نہیں ہے۔اس فیصلےنے یہ صاف کر دیا ہے کہ پرائیویسی اور اظہار رائے کی آزادی ایسے آئینی اقدار ہیں جن کی قربانی قومی سلامتی کے نام پر نہیں چڑھائی جا سکتی ہے۔
اس فیصلے کا یہ صاف پیغام ہے کہ ان اقدار کی بالادستی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ایک نامور جج کی سربراہی میں بنی تین رکنی کمیٹی کو دی گئی ذمہ داری اور اختیار اپنے آپ میں ایک اور مضبوط پیغام ہے۔ کچھ تذبذب میں متبلا افراد کا کہنا ہے کہ سرکار اس کمیٹی کے راستے میں اسی طرح سے رکاوٹیں ڈالنے کا کام کرےگی، جیسے اس نے چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ کے ساتھ پہلے کیا تھا۔
اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو بھی جسٹس رویندرن کو سچ سامنے لانے کے لیےہندوستان اور بیرون ملک سے ماہرین کو بلانے کا خاطرخواہ اختیار دیا گیا ہے۔ انہیں جانچ کرنے کا حق دیا گیا ہے اور پیگاسس جاسوسی کی جانچ کرنے میں مدد کے لیے وہ سرکار کے محتاج نہیں ہیں۔
مثال کے طورپرجسٹس رویندرن کمیٹی سابق انٹلی جنس حکام کو پیش ہونے کا سمن بھیج سکتے ہیں اور ان سے سپریم کورٹ کی جانب سےدیےگئے حق کے تحت انفارمیشن مانگ سکتے ہیں۔اگر پیگاسس کے استعمال سے واقف اعلیٰ ریٹائرڈ چپ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کےوجود کو مسترد کرتےہیں تو یہ حقائق بھی ایک متعین سمت میں اشارہ کرےگا۔دراصل جب پوری جانچ ہوتی ہے تب کئی طرح کےامکانات بنتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کمیٹی سے 2019 کے اس معاملے کی بھی جانچ کرنے کے لیے کہتا ہے، جب کئی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے وہاٹس ایپ کھاتے میں پیگاسس کا استعمال کرکے دراندازی کی گئی تھی۔سرکاری افسر نے اس کوتسلیم کیا تھا اور وہاٹس ایپ کو اس کے بارے میں مطلع کیا تھا، جس نے اس سمت میں اپنی طرف سے کارروائی کی تھی۔
لیکن سرکار نےپرائیویسی اور اظہار رائے کی آزادی پر ایسے حملے کو لےکر اپنی جانچ نہیں شروع کی۔ یہاں تک کہ اس نے اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کو بھی اس سلسلے میں زیادہ جانکاری دینے کے لیے طلب نہیں کیا۔ یہ سرکار کی جان بوجھ کر برتی گئی بے حسی کو دکھاتا ہے۔
یہاں تک کہ موجودہ معاملے میں بھی نریندر مودی سرکار دنیا کی واحد سرکار ہے، جو پیگاسس کے استعمال کو لےکر پوری طرح سے انکارکی حالت میں ہے، جبکہ کئی مغربی حکومتوں نے نہ صرف پیگاسس کے استعمال کو تسلیم کیا ہے، بلکہ اسرائیلی کمپنی سے سے وضاحت بھی طلب کی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس معاملے کی جانچ کےلیےمجبور کرنے والے عوامل کےطور پر دوسرے ممالک کی طرف سے ظاہر کیے گئےخدشات کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ذریعے اس معاملے کا ‘مبہم اور کئی زبانوں میں انکار’کا بھی حوالہ دیا ہے۔
جسٹس رویندرن کنیڈا کےسٹیزن لیب کو بھی مدعو کر سکتے ہیں،جس کی تکنیکی مدد نے وہاٹس ایپ کو 2019 کے پیگاسس جاسوسی معاملے میں کیلی فورنیا میں این ایس او گروپ کے خلاف کیس دائر کرنے میں مدد کی ہے۔امریکی عدالت نے این ایس او کے اس دعوے کو خارج کر دیا کہ ایک اسرائیلی کمپنی فارین ٹریبول کےدائرہ اختیارمیں نہیں آتا ہے۔امریکی دائرہ اختیار کا دعویٰ اس بنیاد پر کیا گیا کہ یہ جاسوسی مقامی پرائیویسی اور ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ کی کمیٹی پرائیویسی کی خلاف ورزی کو روکنے اور ڈیٹا تحفظ کے لیےموجودہ قانونی ڈھانچے پر بھی غور کرےگی۔پارلیامنٹ اس سلسلےمیں جامع قانون نہ بننے تک شہریوں کی پرائیویسی کےتحفظ کے لیے عبوری قانونی سفارشیں کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
یہ بھی پرائیویسی اور اظہار رائے کی آزادی کی تحفظ کی سمت میں ایک اہم قدم ہوگا۔ کل ملاکر یہ کمیٹی مختلف جہتوں کوسمیٹنے والی تفصیلی سفارش کر سکتی ہے، جس پر سپریم کورٹ اپنے حتمی فیصلہ کے دوران غور کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں پرامید ہونے کی کافی گنجائش ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر