گزشتہ ہفتے نریندر مودی حکومت کےدو ذمہ دارافرادقومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کو جائز ٹھہرانے کے لیے نئی تھیوری کی تشکیل کی کوشش کی ہے۔
جب حکومت کےاقدامات آئینی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتے ہیں، تب آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ اپنے حساب سے ایک نیااصول بنالیتے ہیں۔
پچھلے ہفتے ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے نریندر مودی حکومت کے دو بڑے ستون قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کو جائز ٹھہرانے کے لیے نئے اصول بنانے کی کوشش کی۔
جس دن جموں وکشمیر پولیس نے ایک نوجوان کےقتل کے لیےسینٹرل ریزرو پولیس فورس سے سوال پوچھنے کے لیے ایک انسانی حقوق کے کارکن کو گرفتار کیا، اسی دن ڈوبھال نے ٹرینی پولیس افسروں سے کہا کہ سول سوسائٹی ‘جنگ کا چوتھا مورچہ’ہے۔
انہوں نے وارننگ دی کہ ایک دشمن کے لیےروایتی جنگ مہنگی اور کم کارگر ہو سکتی ہے۔ لیکن‘قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کے لیے سول سوسائٹی کو کرپٹ کیا جا سکتا ہے، محکوم بنایا جا سکتا ہے، بانٹا جا سکتا ہے، اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔’
اس کے ساتھ انہوں نے سامعین سےاپیل کی کہ،‘آپ کا کام یہ دیکھنا ہے کہ وہ پوری طرح سے محفوظ رہیں۔’دوسرے لفظوں میں،سول سوسائٹی میں چھپےدشمن ممالک کے خفیہ مددگاروں/غداروں کی پہچان اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کے لیے پولیس کی چوکسی ضروری ہے۔
ڈوبھال نے جمہوریت کی ایک نئی تعریف بھی پیش کی، جورائے دہندگان/شہریوں کو درکنار کرکے منتخب نمائندوں کو ترجیح دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا نچوڑ پولنگ بوتھوں میں مضمر نہیں ہوتا، بلکہ ان پولنگ بوتھوں کے ذریعےچنے گئے لوگوں کے بنائے گئے قوانین اور پولیس کے ذریعے انہیں لاگو کرانے کی قوت ارادی میں مضمرہوتا ہے۔
‘قانون اتنے اچھے نہیں ہوتے، جیسے کہ وہ بنائے جاتے ہیں، بلکہ اتنے ہی اچھے ہوتے ہیں جتنی اچھی طرح سے انہیں نافذ اور عمل درآمد کیا جاتا ہے۔’
ڈوبھال نے یہ باتیں قانون کی حکمرانی کی اہمیت کو نشان زد کرنے کے لیے کہیں، لیکن ان کا یہ اصول بذات خود مسئلہ ہے۔
پولیس پر جن قوانین کونافذ کروانے کی ذمہ داری ہے، ان میں سے زیادہ تر نوآبادیاتی دور کے ہیں، جو کسی جمہوری بحث کی پیداوارنہیں تھے۔ مثال کے طور پرسیڈیشن کے قانون کو ہی لے سکتے ہیں۔
دوسری بات، قانون سازوں کی جانب سے پاس کئی قانون خراب طریقے سے یامبہم طریقے سے لکھے گئے ہوتے ہیں اور ان پر انتہائی ناقص بحث ہوتی ہے اور ان کے غلط استعمال کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ تیسری بات، سارے قانون اور ایگزیکٹو کے تمام فیصلے عدالتی تجزیے کے ماتحت ہوتے ہیں۔
دوسرےلفظوں میں، قانون کا اچھا ہونا اس کی آئینی حیثیت پرمنحصر کرتا ہے اور اس کا فیصلہ کورٹ کرتا ہے اور نہ کہ وہ جو پولنگ بوتھوں کےکے ذریعےمنتخب ہوتے ہیں۔
سول سوسائٹی کے ناقدین کو براہ راست وارننگ کے ساتھ ساتھ ڈوبھال نے جمہوریت کی جو تعریف پیش کی ہے، وہ ایک پولیس والے کے ذریعے ایک پولیس اسٹیٹ کے چارٹر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے تحت چنے ہوئے نمائندوں یعنی سرکار کی خواہش کوچیلنج دینے والوں کو ‘جنگ کے چوتھے مورچے’ پر داخلی دشمن کے طور پر دیکھا جانا ہے۔
لیکن‘نئے بھارت’کی تحفظ کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ پولیس کو فعال، چوکس اور محب وطن شہریوں کی بھی ضرورت ہے، جو چیزوں کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے تیار ہیں۔
اس سے ایک دن پہلے جنرل راوت نے عوامی طور پر یہ بتایا کہ یہ کیسے ایک اچھی چیز ہے کہ جموں وکشمیر کی ایک بڑی آبادی‘دہشت گردوں کو لنچ کرنے’کے لیے تیار ہے۔وہ ٹائمس ناؤ نیوز چینل کے زیر اہتمام منعقد ایک پروگرام میں بول رہے تھے۔
راوت نے عوام کےاس طرح تیار ہونے کےدعوے کےحق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا سوائے کچھ نامعلوم سوشل میڈیا پوسٹوں کا حوالہ دینے کے۔ جب اینکر راہل شیوشنکر نے ان سے عوام کو خودساختہ چوکیدار بننے کے لیےراغب کرنے کے خطرے کے بارے میں پوچھا، تب انہوں نے اسے اپنی دفاع کا نام دیا اور کہا کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ ‘دہشت گردوں’ کےانسانی حقوق ہوتے ہیں، مگر ان کا شکار ہونے والوں کے نہیں۔
آندھرا پردیش سے لےکر آسام اور مہاراشٹر کے پال گھر تک پہچان میں کی گئی غلطیوں کونظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے آگے کہا کہ مویشی چوروں جیسے گھس پیٹھیوں کے خلاف گاؤں کی‘اپنی دفاع’کی کارروائی پورے ہندوستان میں زندگی کی حقیقت ہے اور یہاں ایسے معاملے،جن میں گاؤں والے آخرکارکسی کو ہلاک کر دیتے ہیں، عدلیہ بھی گھس پیٹھیوں کے ہونے سے پیدا ہوئے جوکھم کے وسیع تر حالات کو دھیان میں رکھتے ہیں۔
ڈوبھال اور راوت، دونوں نے دراصل صرف پچھلے مہینے ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے رکھے گئے موقف کو دہرانے کا کام کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘کچھ لوگ کچھ معاملوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو دیکھتے ہیں، لیکن کچھ میں نہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی تب ہوتی ہے، جب اسے سیاسی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح کا متعصبانہ رویہ جمہوریت کے لیےنقصان دہ ہے…کچھ لوگ انسانی حقوق کے نام پر ملک کی امیج کوخراب کرنا چاہتے ہیں۔…سیاسی نفع اور نقصان کو نظر میں رکھ کر انسانی حقوق کے سوال کو دیکھنا ان حقوق کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔’
مجموعی طور پر ہمارے سامنے اس خیال کی واضح نظریہ سازی کی گئی ہے کہ سرکار اور اس کی سلامتی ایجنسیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کاالزام لگانا قومی سلامتی پر خطرہ ہے اور اس لیے جرم، بلکہ ممکنہ طور پرسیڈیشن ہے۔
ٹھیک یہی ذہنیت ہے جو تریپورہ پولیس کو حال میں صوبے میں ہوئے مسلم مخالف تشدد پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کرنے والے وکیلوں پر دہشت گرد کے الزام لگانے کی جانب لے جاتی ہے یا ان وکیلوں پر حقیقت میں سیڈیشن جیسےسنگین مجرمانہ الزام لگائے جاتے ہیں، جنہوں نے یہ رپورٹنگ کی تھی کہ 26 جنوری کو دہلی میں ہوئے کسانوں کے مظاہروں کے دوران جان گنوانے والے کسانوں کو اصل میں گولی ماری گئی تھی۔
انسانی حقوق کے اس نئےاصول کو سپریم کورٹ تسلیم کرتا ہے یا نہیں، یہ الگ معاملہ ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر