مرادآباد کےعیدگاہ علاقے کےرہائشی ہر رات اپنے مسائل پر گفت و شنیدکے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔اس دوران سیاسی اور اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
مرادآباد کےعیدگاہ میں تاریک اورتنگ گلی ہر رات 8 بجے کے بعد سیاسی بحث و مباحثے کا ایک پلیٹ فارم بن جاتی ہے۔پورےدن اپنا کام کرنے کے بعد مردوں کا ایک گروپ، جس میں نوجوان اور بزرگ دونوں شامل ہوتے ہیں، بڑی مسجد محلے میں اکٹھا ہوتا ہے۔ وہ چائےوالےکو 15-20 کپ چائے بنانے کے لیے کہتے ہیں۔وقتاً فوقتاً برقع پوش خواتین بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔
یہ2019 کی سردیوں میں شروع ہوا تھا، جب مسلمانوں کے بزرگ اور ذمہ دار لوگ سی اے اے کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنےسےمتعلق حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کے لیے ملنے لگے۔ حالانکہ سی اے اےمخالف تحریک بھلے ہی اب سرخیوں میں نہ ہو لیکن مقامی لوگوں کے اس گروپ کی بیٹھک آج بھی جاری ہے۔
اب بات چیت اس پر مرکوز ہو گئی ہے کہ ملک میں اقلیت کس حال میں رہ رہے ہیں۔ اتر پردیش میں 2022 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ان مباحثوں میں ایک سلگتا ہوا موضوع ہوتے ہیں۔بیٹھک میں موجود ایک بزرگ چائےوالے سے کہتے ہیں،‘جیسے جیسے لوگ آتے ہیں، تم چائے لاتے جانا۔’وہ جواب دیتا ہے، “ہاں ہاں، پتہ ہے۔’
اس چرچہ میں شامل ہونے کے لیے تنگ گلیوں سے باہر نکل نکل کر لوگ آتے ہیں، جن میں طلبا،بچے، ادھیڑ عمر کے مرد اور بزرگ شامل ہیں۔ بیٹھک کےپیچھےواقع عمارت میں ایک بلب لگا ہوا ہے، اسی کے اجالے سے بیٹھک روشن ہوتی ہے۔ گلی کے بیچوں بیچ ایک بجلی کا کھمبا ہے۔
جیسے ہی چائےوالا نوجوان چائے بنانا شروع کرتا ہے، لوگ اپنی بات چیت شروع کر دیتے ہیں۔ بیٹھک میں حالیہ کسانوں کی تحریک کو لےکر بات ہوتی ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم نے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لے لیا تھا۔
علاقے کی ایک نوجوان مسلم خاتون رونق خان کہتی ہیں کہ کسانوں کی تحریک کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ مسلم خواتین نے سی اے اے -این آرسی مخالف تحریک میں عدم تشدد کی مثال پیش کی تھی اور اس راہ پر چلنے کے لیے دوسروں کو بھی راغب کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں،‘مسلم خواتین نے مستقبل کی تمام تحریکوں کو راستہ دکھانے کا کام کیا تھا اور عدم تشدداوراستقامت کا بے مثال نمونہ پیش کیا تھا۔ اگر سی اے اے -این آرسی مخالف مظاہرہ اور کسانوں کی تحریک نہیں ہوئے ہوتے تو اب تک بی جے پی آدھا ملک بیچ چکی ہوتی۔’
وہ مزید کہتی ہیں،‘پھر بھی سرکار نے سی اے اے واپس نہیں لیا ہے اور مسلمانوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ ان کی مانگیں نہیں مانی جائیں گی۔’
خان سیاست میں نو وارد ہیں اور چھ مہینےقبل ہی مرادآباد ضلع صدرکے طور پرراشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی)میں شامل ہوئی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے سی اے اے مخالف مظاہروں میں سرگرم ہونے کے بعد سیاست میں قدم رکھا ہے۔
پیشہ سے وکیل وقیع رشیدبھی ایسے ہی ایک شخص ہیں۔ وہ بھی مرادآباد میں سی اے اے مخالف اور عدم تشددپر مبنی مظاہرو ں کی قیادت کرنے کے بعدفعال سیاست میں آئے ہیں۔ وہ اب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین(اے آئی ایم آئی ایم)کے شہری صدر ہیں۔
رشید کہتے ہیں، ‘یوپی کی سیاست میں اے آئی ایم آئی ایم کا داخلہ ان دنوں بیٹھکوں میں اکثر چرچہ کاموضوع ہوتا ہے۔’
مرادآباد میں تقریباً47 فیصدی مسلم آبادی ہے اور اسے سماجوادی پارٹی (ایس پی )کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ضلع کے چھ میں سے چار ایم ایل اے ایس پی سے ہیں۔ باقی دو بی جے پی سے ہیں۔آئندہ انتخابات میں صوبے کی 100سے زیادہ سیٹوں پر انتخاب لڑنے کی اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی کے اعلان نے بھی مباحثوں کو تقویت دی ہے۔
مسلمانوں کی نمائندگی اور قیادت
مرادآباد میں منعقدہ حالیہ ریلیوں کی روشنی میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اویسی وہی کہہ رہے ہیں جو موجودہ دور میں سب سے ضروری ہے۔ وہ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی زیادہ نمائندگی اور قیادت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، مرادآباد میں منعقدہ دو ریلیوں نے واضح کر دیا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کو ضلع میں اچھے ووٹ ملنے کی امید ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کی مخالفت نہیں کی جا رہی ہے لیکن اسے مقامی سطح کے لیڈروں کی ضرورت ہے کیونکہ اویسی خود یوپی کی سیاست میں باہر ی ہیں۔
رشید نے بعد کی بات چیت میں دی وائر کو بتایا کہ پارٹی کافی پہلے سے ہی باصلاحیت چہروں کی تلاش میں لگ گئی ہے۔
رشید بتاتے ہیں کہ مرادآباد ضلع میں ایس پی کی کشش کم ہو رہی ہے، کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات مضبوطی سے بیٹھ گئی ہے کہ پارٹی قیادت ایس پی کے سینئر لیڈر اعظم خان کی حمایت نہیں کر رہی ہے جو اس وقت کئی الزامات میں یوپی کی ایک جیل میں بند ہیں۔
ان کا کہنا ہے،‘ایس پی میں لوگوں کا بھروسہ کم ہو رہا ہے کیونکہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ پارٹی میں کوئی بھی اعظم خان کے لیے آواز نہیں اٹھا رہا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی انہیں لڑنے کے لیےاکیلا چھوڑ دیا گیاہے۔ایس پی کو اب مسلم ووٹوں کو اپنی بپوتی نہیں سمجھنا چاہیے، جیسا کہ وہ ماضی میں سمجھتے آئے ہیں۔’
اعظم خان رام پور ضلع سے آتے ہیں۔ مرادآباد اس کا پڑوسی جلا ہے۔ یہاں بھی اعظم خان کا خاصا اثر ہے۔علاقے میں کئی لوگوں کے لیےاعظم خان ہی مسلم قیادت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ایس پی ممبر کی حیثیت سے مقامی سطح کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے محمد سہیل نے رام پور کی محمد علی جوہر یونیورسٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعظم خان کو اس لیے سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے بچوں کو یونیورسٹی دی اور لکھنے کے لیے ان کے ہاتھوں میں قلم تھمائی۔ وہ غیر واضح طور پر رشید کی بات کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ پارٹی میں اعظم خان کی وفاداری اور ایمانداری کااحترام نہیں کیا گیا ہے۔
رشید مزیدکہتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہمیشہ جھنڈمیں ووٹ کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں،‘ہمیں اب صرف ایک ووٹ بینک تک محدود کر دیا گیا ہے اور سیاسی پارٹی اپنےمفاد کے لیے چالاکی سے لگاتار ہمیں اپنے اشارے پر نچاتے ہیں۔’
جمعرات کو مرادآباد میں ہوئی کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کی ریلی کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ 2024 لوک سبھا انتخابات کے لیے تیاری ہے۔ بیٹھک میں شامل ایک شخص کہتے ہیں کہ مرادآباد کے لوگوں کے لیے یہ بات بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ امیدوار کون ہے۔
مرادآباد سٹی کےسابق ایم ایل اے سندیپ اگروال کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ‘آر ایس ایس سے وابستہ ہونے کے باوجود مسلمانوں نے ان کو جتانے کے لیے تن من لگا دیا تھا، صرف اس لیے کیونکہ وہ ہمارے مسائل کو سمجھتے تھے۔’
اگروال مرادآباد سے چار بار کے ایم ایل اے تھے۔ تین بار وہ بی جے پی سے چنے گئے اور ایک بار ایس پی سے۔ایسا لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ ایم ایل اےبی جے پی کے رتیش گپتا خاص فعال نہیں ہیں۔ ان کے خلاف اقتدار مخالف لہر محسوس کی جا رہی ہے۔ اس سے نئے چہروں کے لیے جگہ بنتی ہے کیونکہ ضلع میں مسلم قیادت کی زبردست مانگ اور قبولیت دیکھی جا رہی ہے۔
مرادآباد کے نواب پورہ کے رہنے والے بزرگ غنیم میاں بھی اس بیٹھک میں شامل تھے۔ میاں ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کئی مواقع پر لوگوں اور صوبے کے حکام کے بیچ ثالث کا رول نبھایا ہے۔ وہ مرادآباد میں فیئر ٹریڈ پرائمری پروڈیوسرس ایسوسی ایشن کے نام سے مزدور وں کی ایک تنظیم بھی چلاتے ہیں ۔
وہ مانتے ہیں کہ صرف مسلم ووٹ پر توجہ مرکوز کرنا اے آئی ایم آئی ایم کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ ان کو جواب دیتے ہوئے رشید کہتے ہیں، ‘بھلے ہی اے آئی ایم آئی ایم سرکار بنانے میں کامیاب نہ ہو، لیکن وہ مسلمانوں کونمائندگی دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد اسمبلی میں مسلمانوں کی مناسب نمائندگی ہے، تاکہ مسلم کمیونٹی کے مسائل کو اٹھایا جاسکے۔’
گھر کارخانوں میں بدل گئے ہیں اور کاریگر مزدوروں میں
چالیس سالہ محمد نعمان منصوری ایک کاروباری ہیں جو پوجا کے سامان اور گفٹ آئٹمس جیسے دستکاری کے سامانوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ گھریلوفروخت کے علاوہ، وہ دوسرے ممالک میں بھی سامان فروخت کرتے ہیں۔ مرادآباد، جسے پیتل نگری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پیتل کی دستکاری کے لیےمشہور ہے۔
منصوری کے ماتحت سینکڑوں کاریگر کام کرتے ہیں اور منصوری کے مطابق دن بہ دن ان کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ کووڈ 19 لاک ڈاؤن اور برآمدات پر اس کے اثرات کی وجہ سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا،‘یہاں تین لاکھ سےزیادہ لوگ براہ راست پیتل کے کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ شہر کے محکمہ آلودگی کی طرف سےصوتی آلودگی کی لگاتار شکایتوں اور صنعتی علاقوں کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے پیتل کی صنعت مسلسل خسارے میں چل رہی ہے۔’
دی وائر نے شہر کےکرولا علاقے میں اسلام نگر کا دورہ کیا۔ کرولا کبھی اپنی بہترین دستکاری کے لیے مشہور تھا، جہاں چھوٹے چھوٹے ایک کمروں والے گھر اب دوہرا رول نبھاتے ہوئے صنعتی اکائیوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
دھات کو پگھلانے کے لیے مزدروں کوشدید گرمی میں رہنا پڑتا ہے، جو رہائشی علاقے میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اس وقت کی ٹیکسٹائل وزیر اسمرتی ایرانی نے 2016 میں مرادآباد کے اپنے ایک روزہ دورے پردستکاروں اور کاریگروں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن پیتل کی صنعت میں کام کرنے والے اب بھی انتہائی نامساعد حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی نے تو کورونا کے بعد پیسوں کی کمی کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول تک بھیجنا بند کر دیا ہے۔
بیٹھک میں شامل ایک کاریگر محمد شفیق انصاری کہتے ہیں،‘صنعتی کام کے لیے ہمارے پاس الگ جگہ نہیں ہے۔ وعدوں کے باوجود بھی کوئی بھی سرکار ہمارے لیے کاریگر پارک کا نہیں بنوا پائی ہے۔ فی الحال صنعت الگ الگ محلوں میں بکھرا ہوا ہے۔ زیادہ تر کام گھروں کے اندر ہی کیا جاتا ہے۔’
انہوں نے بتایا کہ بجلی کے نجی اور کمرشیل میٹر الگ الگ ہونا ضروری ہے، لیکن غریبی کی وجہ سے کاریگر دو الگ الگ میٹر لگانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سرکار سے درخواست کر رہے ہیں کہ کاریگروں کو ایک میٹر سے پانچ کیلو واٹ تک بجلی استعمال کرنے کی اجازت ملے۔
وقیع رشید نے مزید کہا کہ صنعت سے وابستہ ہنرمند کارکن اور کاریگر خود کو کاریگر کے بجائے مزدور سمجھنے لگے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کوان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کرنا چاہیے۔
حقیقی مسائل: ترقی، گڑھے سے پاک سڑکیں، تعلیم اور صحت کی سہولیات
مقامی ایس پی لیڈر محمد سہیل کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے جڑے اہم مسائل اکثریتی برادری کی طرح ہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں،‘سرکار گڑھے سے پاک سڑکوں کی بات کرتی ہے، لیکن میں آپ کو مقامی اخبار کی ایک ایسی خبر دکھا سکتا ہوں جس میں کچھ دن پہلے ہی ایک آدمی گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مر گیا۔’
وہ پوچھتے ہیں،‘اگر مسلمانوں کا بچہ ڈاکٹر بننا چاہے تو کیسے بنے؟’ وقیع رشید اس میں آگے جوڑتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مرادآباد یا اس کے آس پاس کے اضلاع بجنور، رام پور، امروہہ اور سنبھل میں کوئی سینٹرل یونیورسٹی نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی مرکزی سرکاری اسپتال ہے۔
وہ کہتے ہیں،‘جب لوگوں کو سرجری یا اچھے علاج کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں دہلی میں ایمس کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ پیتل کی صنعت کےمزدوربالعموم ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں، لیکن مناسب علاج تک ان کی رسائی نہیں ہے۔’
پیشہ سے وکیل اور ایس پی کارکن ونود کمار بھی اس بیٹھک میں باقاعدگی شامل ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،‘آر ایس ایس، بجرنگ دل اور بی جے پی نے ہندو اور مسلمانوں کو بانٹ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو نفرت کا سبق پڑھا کر غلط راستے پر لے جایا جا رہا ہے۔’
وہ مزیدکہتے ہیں، ‘یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعےاستعمال کی جانے والی زبان جمہوری نہیں ہے، وہ غنڈوں کی زبان ہے۔’بیٹھک میں شامل ایک اور شخص نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا کہ یوپی حکومت کے ذریعے نیشنل سیکورٹی ایکٹ(این ایس اے)کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
وہ پوچھتے ہیں،‘حال ہی میں یوپی ٹیٹ کا پیپر لیک ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پیپر لیک کرنے والوں پر این ایس اے لگایا جائےگا۔ کیا یہ اس قانون کا صحیح استعمال ہے؟ اجئے مشرا کے بارے میں کیا کہیں گے، لکھیم پورکھیری معاملےکے لیے ان کے یا ان کے بیٹے کے خلاف این ایس اے کیوں نہیں لگایا جانا چاہیے؟ یا پھر وہ ایسے قوانین سے اس لیے بچے ہوئے ہیں کیونکہ وہ بی جے پی کا حصہ ہیں؟’
تئیس سالہ حذیفہ رحمان سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران تخلیقی فنون کے انچارج تھے۔ وہ بیٹھک میں موجود سینئرز سے مداخلت کرتے ہوئے بولنے کی اجازت لیتے ہیں۔
پھر وہ کہتے ہیں،‘2000 کے بعد کی نسل نفرت میں یقین نہیں رکھنا چاہتی ہے۔ زیادہ تر نوجوان صرف معیاری تعلیم اور روزگار کے مواقع چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ نوجوان غلط راستے پر چلیں، ان پر توجہ دی جانی چاہیے۔’
مسلم خواتین کے تحفظات
اب بولنے کی باری رونق خان کی تھی۔ آدھار کارڈ تنازعہ کا ذکر کرتے ہوئے اور شہریوں کا وہ ڈیٹا جو سرکار کے پاس ہو سکتا ہے، اس بارے میں چرچہ کرتے ہوئے وہ مسلم خواتین میں بڑھتے ڈر اور عدم تحفظ کے بارے میں بھی بات کرتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں،‘صوبے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے بےقابو حالات کی وجہ سے کئی عورتیں اپنی بیٹیوں کو لےکر فکرمند ہیں۔ وہ اپنے بچوں کےتحفظ کو لےکر بھی پریشان ہیں۔’
لیکن حالیہ برسوں میں ایک اور ڈر ان کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں،‘انہیں فکر رہتی ہے کہ ان کے شوہروں اور بیٹوں کو رائٹ ونگ کے غنڈے نشانہ بنا سکتے ہیں، یا پولیس کے ذریعے بھی تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ انہیں فکر ہوتی ہے کہ ایک دن ان لوگوں کو اچانک گھر سے اٹھاکر کسی جھوٹے معاملے میں پھنسایا جا سکتا ہے۔’
اس ڈر کی جڑیں سی اے اے مخالف مظاہروں میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں،‘ہم سبھی نے دیکھا ہے کہ مظاہروں کے بعد پورے یوپی میں کس طرح پولیس کے ذریعے مسلم مردوں کو اٹھایا گیا، پیٹا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا تھا۔مظاہرہ کے دوران بھی دہشت تھی۔ مرادآباد میں لوگ احتجاج کے لیے آگے آنے میں ڈرتے تھے۔’
‘ہاتھ جوڑ دیےتھے پولیس کے آگے’
جب سی اے اے پارلیامنٹ سے پاس ہوا تھا، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے غنیم میاں بتاتے ہیں، ‘سی اے اے کی قرار داد منظور ہوئی اور قانون بنا تھا تو کئی لوگ رو دیے، تھے۔ جب ہم نے اس کے خلاف احتجاج کرنا شروع کیا تھا، تبھی ہم نے ایسی بیٹھکیں شروع کی تھیں۔حکام کو اس کی جانکاری لیک نہ ہو، اس لیے فون پر ہم ایک دوسرے کو ‘ولیمہ میں آ جاؤ’ کہہ کر بلاتے تھے۔’
مظاہروں کے دوران کئی لوگوں کو نوٹس تھمائے گئے اور پولیس کے ذریعےدس ہزار سے زیادہ لوگوں کے خلاف معاملے درج کیے گئے تھے۔ سی اے اے مخالف مظاہروں کے سلسلے میں میاں ان کی اور سماج کےدوسرےسینئر ممبروں کی مقامی پولیس کے ساتھ ہوئی ایک بات چیت یاد کرنے لگتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ‘پولیس کے سامنے ہم نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے تھے اور ان سے گزارش کی تھی کہ وہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جس سے لوگ بھڑک اٹھیں کیونکہ اس وقت لوگ غصے میں تھے اور کچھ بھی ہو سکتا تھا۔’
نتیجتاً، 20 دسمبر کو مرادآباد میں لاکھوں مظاہرین کی موجودگی میں سی اے اے مخالف مظاہرہ ہوا، جو سی اے اے کےخلاف ہوا اپنے آپ میں ایک سب سے بڑا پرامن مظاہرہ ثابت ہوا۔ کیونکہ صوبے میں دیگر مظاہروں پر یا تو پابندی لگائی گئی تھی یا وہ تشدد کا شکار ہو گئے تھے، حتیٰ کہ ان میں ہلاکتوں کی بھی جانکاری سامنے آئی تھی۔
مرادآباد میں مظاہرےکی قیادت کرنے والے لوگوں میں سے ایک رشید کا کہنا ہے کہ وہ کوئی بھی غلطی کرنے سے بچنے کے لیے شاہین باغ میں موجود سی اے اے مخالف مظاہروں کے منتظمین کے ساتھ مسلسل رابطےمیں تھے۔
آگے میاں کہتے ہیں،‘سی اے اے مخالف مظاہروں کو زندہ رکھنے کا واحد طریقہ عدم تشددکی اہمیت پر زور دینا تھا۔ اور ہم اسے پوری طرح سے تشدد سے پاک رکھنے میں کامیاب رہے۔’
وہ پھر ایک شعر سناتے ہوئے اس بیٹھک کو ختم کرنے کا اشارہ کرتے ہیں،
نہ میں گرا نہ میری امیدوں کے مینار گرے
پر کچھ لوگ مجھے گرانے میں کئی بار گرے
اسی شعر کا استعمال 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سیاسی حریفوں کے لیے اپنے ایک خطاب میں کیا تھا۔ وہیں، یوپی انتخابات کے کچھ مہینوں پہلےغیم میاں اسے پوری طرح سے الگ تناظرمیں استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
اچانک سے چائےوالا بیچ میں ٹوکتے ہوئے تقریباً25مرداور تین خواتین کے اس گروپ سے پوچھتا ہے، ‘ہاں، مگر جیتےگا کون؟’
اس پر بیٹھک میں شامل ایک شخص نے کہا، ‘ہم نہیں جانتے، لیکن بی جے پی ہارےگی۔’ 22 سالہ اسٹوڈنٹ ابو بکر انصاری کہتے ہیں، ‘جو ہمیں حصہ داری دےگا، ہم اس کو ووٹ دیں گے۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: الیکشن نامہ, خبریں, فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ