ہندوستان میں تو ویسے موجودہ کانگریس کے اندر1885کی کانگریس کی شبیہ ابھی بھی کسی حد تک نظر تو آتی ہے، مگر پاکستان میں مسلم لیگ کسی بھی حالت میں 1906کی پارٹی کی جان نشیں نہیں لگتی ہے۔
دسمبر کے مہینہ کو جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ میں ایک کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اسی ماہ میں ہی اس خطے کی دواہم سیاسی جماعتیں انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ معرض وجود میں آئیں۔ 136سال قبل 28دسمبر، 1885کو ایک برطانوی سول سروس آفیسر اور ریفارمر آلائن اوکٹاوئین ہیوم نے وائسرائے لارڈ ڈیفرین کی ایماء پر ممبئی میں کانگریس کی داغ بیل ڈالی اور امیش چندر بنرجی کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔
مسلم لیگ کا قیام 30دسمبر 1906کو موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عمل میں آیا اور سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کو اس کا پہلا اعزازی صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دونوں جماعتیں ابتدا میں اشرافیہ کی نمائندگی اور ان کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہچانے کے لیے بنائی گئی تھیں، مگر جلد ہی انہوں نے عوامی تائید حاصل کرکے، جنوبی ایشیا میں ایک تاریخ رقم کی۔
نئی دہلی میں کانگریس کے صدر دفتر 24اکبر روڈ میں ہر سال 28دسمبر کو پارٹی کا یوم تاسیس تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
دونوں جماعتوں نے یورپ کے سیاسی اور جمہوری نظام کی نقل کرکے عوام کو بااختیار بنانے اور اقتدار تک پہنچے کا راستہ اختیار کیا۔ مگر ایک صدی بعد دونوں پارٹیوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ عیاں ہوتا ہے کہ تنظیم کے ا ندر جمہوری اقدار کے فقدان کے سبب انہوں نے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا ہے۔
دونوں پارٹیوں کا وجود اس وقت مخصوص خاندانوں کا مرہون منت ہے۔ ان کے بغیر ان کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے۔ ہندوستان میں تو ویسے موجودہ کانگریس کے اندر1885کی کانگریس کی شبیہ ابھی بھی کسی حد تک نظر تو آتی ہے، مگر پاکستان میں مسلم لیگ کسی بھی حالت میں 1906کی پارٹی کی جان نشیں نہیں لگتی ہے۔
یورپ کی سیاسی جماعتوں کے برعکس کسی لائق و فائق فرد کو پارٹی کی کمانڈ نہ دینے سے اور ایک ہی خاندان پر تکیہ کرنے اور اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکالنے سے، دونوں نے اپنے اقدار سے سودا کیا ہوا ہے۔
ہندوستان میں تو کانگریس پارٹی کی حالت قابل رحم ہے۔ 1988کے بعد اس پارٹی کو اپنے بل بوتے پر ابھی تک حکومت کرنا نصیب نہیں ہوا ہے۔ 1990میں نرسمہاراؤ اور بعد میں 2004میں منموہن سنگھ، اتحادیوں کی بیساکھیوں کے سہارے ہی اقتدار میں پہنچے۔
موجودہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کا اصل نشانہ بھی کانگریس ہے اور اس نے تہیہ کیا ہواہے کہ ہندوستان سے کانگریس کو صاف کرنا ہے۔ اس میں اس نے خاصی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
اگر ہندوستان کے انتخابی نقشہ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لوک سبھا کی 543سیٹوں میں سے 190پر کانگریس کا براہ راست مقابلہ بے جے پی سے ہوتا ہے۔ ان میں سے کانگریس کو صرف 15 نشستوں پر پچھلے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یعنی کانگریس کے خلاف بی جے پی کا اسٹرائیک ریٹ90فیصد ہے، جبکہ دیگر علاقائی پارٹیوں کے خلاف اس کا اسٹرائیک ریٹ 70 فیصد ہے۔
بی جے پی کے 38فیصد ووٹ بینک کے مقابلے کانگریس کا ووٹ بینک 20فی صد ہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے بعد کانگریس ہی اس وقت ملک کی واحد پارٹی ہے جس کا دائرہ ملک گیر سطح پر پھیلا ہوا ہے اور ملک کے ہر صوبے میں اس کی اکائی موجود ہے، مگر ملک کی بعض اہم ریاستوں میں اس کا تنظیمی ڈھانچہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور وہ حاشیہ پر پہنچ گئی ہے۔
چند ماہ قبل ملک کے مقتدر سیاستدان اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار نے کہا تھا کہ کانگریس پارٹی ایک ایسے جاگیردار کی طرح ہے، جس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ زمینیں فروخت ہو چکی ہیں، حویلی خستہ ہو چکی ہے، مگر اس کی اناباقی ہے اور یہ انااس کو خواب سے حقیقت کی دنیا میں آنے نہیں دیتی ہے۔
پچھلے 30سالوں میں شمالی صوبوں بشمول اتر پردیش میں یہ سیاسی قوت کھو چکی ہے۔ان صوبوں میں مقامی سیکولر پارٹیو ں نے سیاسی خلا پر کر لی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنی سیاسی زمین دوبارہ کانگریس کو دےکر اپنی بقا پر سوالیہ نشان نہیں لگا سکتے ہیں۔
سال 1998میں سونیا گاندھی، جب پارٹی کی سربراہ مقرر ہوئی، کانگریس کے تین اہم برین اسٹارمنگ اجلاس منعقد ہوئے، جن میں پارٹی کی اسٹرٹیجی طے ہوئی۔ 1998میں مدھیہ پردیش کے مقام پنچ مڑی میں پاس کی گئی قرارداد، 2003کا شملہ سنکلپ اور پھر 2013میں جئے پور اجلاس، اس پارٹی کی اہم سیاسی پڑاؤ رہے ہیں۔ گو کہ نرسمہاراؤ کے وزارت اعظمیٰ کے وقت بھی پارٹی کی قیادت عملاً گاندھی فیملی کے پاس ہی تھی، مگر سونیا گاندھی نے براہ راست کمان 1998میں ہی سنبھالی۔
چونکہ پنچ مڑی کا اجلاس اس کے فوراً بعد ہی ہوا، اس لیے قرار داد میں طے پایا کہ پارٹی کسی اتحاد کے بغیر اپنے بل بوتے پر سیاسی زمین ہموار کرکے 1988کی پہلی والی پوزیشن میں آنے کی کوشش کرے گی۔ مگر متواتر انتخابات ہارنے اور خاص طور پر 2002میں گجرات کے مسلم کش فسادات سے دل برداشتہ کمیونسٹ پارٹی آ ف انڈیا (مارکسسٹ)کے لیڈر آنجہانی ہر کشن سنگھ سرجیت نے سونیا گاندھی کو قائل کروایا کہ اکیلے چلنے کی حکمت عملی اور سیاسی زمین کی واپسی کی جدو جہد کے بجائے سیکولر اور لبرل فورسز کو اکٹھا کر کے ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کی داغ بیل ڈا ل کر ہی اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی اتحاد حکومت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے نتیجے میں کانگریس نے 2003کے شملہ اجلاس میں عہد کیا کہ ہم خیال سیکولر اور لبرل طاقتوں کے ایک اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کروایا جائے۔ اس کے نتیجے میں یونائیٹڈ پروگراسیو الائنس یعنی یو پی اے وجود میں آیا اور 2004کے انتخابا ت میں بی جے پی کو شکست دےکردس سال تک حکومت کی۔
شملہ سنکلپ یا عہد میں بتایا گیا تھا کہ آرایس ایس کے نظریہ کے توڑ کے لیے پارٹی زمینی سطح پر سیکولراور لبرل نظریات کے فروغ کے لیے اسی طرح کا ایک نیٹ ورک قائم کرےگی، مگر یہ وعدہ و ہ دس سال تک حکومت کرنے کے باوجود بھی پوری نہیں کرسکی۔ سال 2013کے جئے پور اجلاس میں جہاں راہل گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے بطور پیش کیا گیا، میں آئیڈیالوجی کو گول کرکے روزگار، تکنالوجی وغیرہ پر توجہ مرکوزگئی اور بتایا گیا کہ نوجوان نسل کو آئیڈیالوجی کے بجائے وسائل سے متوجہ کیا جاسکتا ہے۔
پارٹی اسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے بجائے کانگریس ابھی بھی گاندھی فیملی کو ہی انتخابات میں بھنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیڈران ابھی تک اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ موجودہ دور کا عام ووٹر پریوں اور راجے مہاراجوں کی کہانیاں سن کر پروان نہیں چڑھا ہے۔ بلکہ وہ اب اسی لیڈر کو ترجیح دیتا ہے جو قابل رسائی ہو یا ماضی میں اس کی ہی جیسی زندگی گزار چکا ہو۔ کانگریس اب ایسا بوجھ بن گئی جسے کوئی اتحادی اب شاید ہی اپنے ساتھ رکھنا چاہے۔
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اس کا عندیہ دے چکی ہے۔
اترپردیش میں تو سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی نے ضمنی انتخابات میں کمان سنبھالی تھی، مگر پھر بھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ پارٹی کا بڑا طبقہ ابھی بھی راہل گاندھی کو ہی صدر کے عہدے پر دیکھنا چاہتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ نہرو گاندھی خاندان سے باہر پارٹی کی قیادت جانے کے بعد کانگریس متحد نہیں رہ پائے گی اور اس میں کئی گروپ بن جائیں گے۔
گزشتہ چناؤ میں راہل گاندھی خود اپنی امیٹھی سیٹ بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ کانگریس امیٹھی کی سیٹ ہار گئی۔
تجزیہ کار معصوم مراد آبادی کے مطابق گاندھی خاندان جہاں ایک طرف پارٹی کی کمزوری ہے تو وہیں اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے۔پارٹی میں کئی اہل لیڈران موجود ہیں، جو قیادت کے دعویدار ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس خاندان کے باہر کسی دوسرے لیڈر کو قیادت ملتے ہی گروپ بندی کا ایسا بازار گرم ہوجائے گا کہ پارٹی کو انتشار سے بچانا مشکل ہوگا۔
یہی حال کچھ پاکستان میں مسلم لیگ کا بھی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے بجائے ہندوستان کے انتہائی جنوبی صوبہ میں انڈین یونین مسلم لیگ(آئی یو ایم ایل)نے 1906کی مسلم لیگ کی جان نشینی کا حق ادا کیا ہے۔ تقسیم کے بعد مدراس مسلم لیگ کے صدر محمد اسماعیل نے 1948میں کارکنان کو از سر نومجتمع کرکے اس کی داغ بیل ڈالی۔
اس پارٹی میں خاندانی راج کے بجائے لیاقت کے بل پر ہی لیڈرشپ منتخب ہوتی ہے۔ فی الحال 140رکنی اسمبلی میں آئی یو ایم ایل کے 15اراکین اور ہندوستانی پارلیامان میں چار اراکین ہیں، جن میں دو لوک سبھا اور دو راجیہ سبھا میں ہیں۔ 1980سے یہ کانگریس کی قیادت والے یونائیٹڈ ڈیموکرٹیک فرنٹ کا حصہ ہے اور 2017سے اس کے صدر ایم قادر محی الدین ہیں، جن کا تعلق تامل ناڈو سے ہے۔
ویسے بھی کیرالا جنوبی ایشیا ء میں واحد جگہ ہے، جہاں برطانوی پارلیامانی جمہوریت کی روح اصل میں رواں و دواں ہے، کیونکہ اس صوبے میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران مرکزی لیڈروں کی خوشنودی کے بجائے انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدوں تک پہنچتے ہیں اور پارٹی ہائی کمانڈ سے زیادہ اپنے کارکنوں کے سامنے جوابدہ رہتے ہیں۔
Categories: فکر و نظر