گزشتہ 17-19دسمبر کے بیچ ہری دوار میں ہوئے متنازعہ’دھرم سنسد’کے اہم منتظمین میں سے ایک ہندوتوا رہنما نرسنہانندتھے۔یہاں دیے گئے ‘ہندو پربھاکرن’والے بیان پر انہوں نے کہا کہ جب تک ہر ہندو مندر میں ایک پربھاکرن ، ایک بھنڈراوالا اور ایک شابیگ سنگھ نہیں ہوگا، تب تک ہندو مذہب نہیں بچے گا۔
نئی دہلی: ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند گیری نے ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ہندو پربھاکرن’بننے والے شخص کو ایک کروڑ روپے دیں گے۔
یتی نرسنہانند 17-19 دسمبر کے درمیان ہری دوار میں ہوئےمتنازعہ ‘دھرم سنسد’کے اہم منتظمین میں سے ایک ہیں۔
گزشتہ 19 دسمبر کو اس پروگرام میں انہوں نے کہا، جب ہمیں مدد کی ضرورت تھی تو ہندو برادری نے ہماری مدد نہیں کی۔لیکن اگر کوئی نوجوان کارکن ہندو پربھاکرن بننے کے لیے تیار ہے تو کسی اور سے پہلے میں اسےایک کروڑ روپے دوں گا۔ اگر وہ ایک سال تک ایسے ہی کام کرتا رہا تو میں کم سے کم 100 کروڑ روپے اکٹھا کروں گا۔
نرسنہانند ہندوستان میں کالعدم تنظیم لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلم(ایل ٹی ٹی ای)کے بانی اور رہنما ویلوپلئی پربھاکرن کا حوالہ دے رہے تھے،جنہوں نے سری لنکا کےتملوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی موت کے لیے پربھاکرن اور ایل ٹی ٹی ای ذمہ دار تھے۔
ویسے تونرسنہانند اپنے فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف تبصروں کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نے ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے پر انعام دینے کی پیشکش کی ہے۔
اسی پروگرام میں سدرشن نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا، یہ ہمارا دوسرا دھرم سنسدہے۔ ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہندوستان جو تیزی سے ایک اسلامک اسٹیٹ بن رہا ہے، اسے جلد از جلد سناتن ویدک راشٹربنا یا جائے۔
اس انٹرویو میں ان کے ساتھ سوامی درشن بھارتی بھی تھے، جو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ریاست میں نام نہاد ‘لو جہاد’ اور ‘لینڈ جہاد’کی مہم چلا رہے ہیں۔ بھارتی نے مطالبہ کیا تھا کہ اتراکھنڈ میں مسلمانوں پر زمین خریدنے پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔
نرسنہانند نے کہا، سوامی درشن بھارتی نے اپنی پوری زندگی مذہب کی حفاظت کے لیے وقف کر دی ہے۔انہوں نے اتراکھنڈ کو ایک ایسا صوبہ بنا دیا ہے جہاں پچھلے پانچ سالوں میں کسی کو بھی مسجد، مدرسہ یا مزار بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسے جنگجو کوہمیشہ ہمارے ساتھ ملتارہے گا۔
دھرم سنسد میں پربھاکرن پر اپنے بیان پرانہوں نے کہا، ہٹھ یوگی جی مہاراج نے ہمارے دھرم سنسد میں کہا تھا کہ ہمیں پربھاکرن کی ضرورت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں پربھاکرن، بھنڈراوالے اور جنرل شابیگ سنگھ کی ضرورت ہے۔جب تک ہر ہندو مندر میں ایک پربھاکرن، ایک بھنڈرا والا اور ایک شابیگ سنگھ نہیں ہوگا، ہندو دھرم نہیں بچے گا، اسے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
پربھاکرن کے ساتھ نرسنہانند نے خالصتانی علیحدگی پسندتحریک کے دو لیڈروں جرنیل سنگھ بھنڈراوالے اور شابیگ سنگھ کا بھی ذکر کیا۔سنگھ بھنڈراوالے کے فوجی مشیر تھے اورانہوں نے 1971 کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کی حمایت کرنے والی’مکتی واہنی سینا’بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
نرسنہانند نےحکومت کی طرف سے’دہشت گرد’مانے گئے افراد کی تعریف کرتے ہوئے واضح طور پرپرتشدد کارروائی کی اپیل کی ہے، لیکن اب تک کسی مقامی پولیس یا سینٹرل ایجنسی نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔
‘ڈو پالیٹکس’نامی یوٹیوب چینل چلانے والےاجیت بھارتی کو دیے گئےایک انٹرویو میں نرسنہانند نے اکتوبر میں کہا تھا:
اسلام کے ساتھ میری لڑائی صرف اس زندگی کی نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اتفاق سے 1971 میں ایک لڑکا پیدا ہوا، اس کے والدین نے اس کا نام دیپک رکھا، دیپندر نارائن، وہ پجاری بن گیا اور اسلام سے لڑنے لگا۔ میری لڑائی 1971 سے شروع نہیں ہوئی، یہ زندگی سے پہلے کی ہےاور میری زندگی کے بعد بھی جاری رہے گی۔ یہ تاریکی اور روشنی کی جنگ ہے۔میں روشنی کا نمائندہ ہوں- وہ اندھیرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بھلے ہی ایک دیا جل رہا ہو،امید بچی ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ لڑائی سخت ہے، کروڑوں لوگوں کو مرنا پڑے گا، لیکن ہندو اس نظریے کے نہیں ہیں۔ قربانی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ قربانی سے ہی معاشرہ ایک ساتھ کھڑا ہو گا۔
اس سے پہلے ہری دوار میں منعقد دھرم سنسد میں موجود لوگوں کو حلف دلاتے ہوئے نرسنہانند نے کہا، میں نرسنہا نندگیری ماں گنگا کے کنارے پر یہ حلف لیتا ہوں، اب سناتن دھرم کی، اپنے خاندان کی، اپنی بہن بیٹیوں کی اور بیوی کی،میں ہمیشہ حفاظت کروں گا۔ دنیا کی کوئی بھی برادری ہو، جو میرے مذہب، میرے خاندان، میرے بچوں، میری عورتوں کو نقصان پہنچانے کی سوچےگا بھی ، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ہم اپنے دھرم کے لیے زندہ رہیں گے۔ ہم اپنے دھرم کے لیے مریں گے۔اسلام کا جہاد ختم ہو جائے گا۔ سناتن دھرم لافانی رہےگا۔ سناتن کے دشمنوں کی تباہی ہو۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں