فوج کے ریٹائرڈ افسروں نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ سیڈیشن اور تفرقہ انگیز بیانات سے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے بلکہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 19 پر بھی حملہ ہوا ہے۔ یہ بیان ملک کے سیکولر تانے بانے کوداغدار کرتے ہیں اور امن عامہ کو شدید طور پرمتاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نئی دہلی: ہندوستانی مسلح افواج کے تین ریٹائرڈ افسروں نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہری دوار اور دہلی کے دھرم سنسدوں میں مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی جائے۔
ان درخواست گزاروں کے نام میجر جنرل ایس جی وومبٹکرے، کرنل پی کے نائر اور میجر پریہ درشی چودھری ہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ، سیڈیشن اورتفرقہ انگیز بیانات نے نہ صرف ملک کے فوجداری قانون کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 19 پر بھی حملہ کیا ہے۔ یہ بیان ملک کے سیکولر تانے بانے کو داغدار کرتے ہیں اور امن عامہ کو متاثر کرنے کے شدید امکان رکھتے ہیں۔
درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ اگر اس طرح کے واقعات پر توجہ نہ دی گئی تو اس سےمسلح افواج کے جوانوں کے حوصلے، اتحاد اور سالمیت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان کا تعلق مختلف برادریوں اور مذاہب سے ہے۔
درخواست گزاروں نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ اس طرح کی نفرت انگیز باتیں ہماری فوج کی لڑنے کی صلاحیت کو بھی شدید طور پرمتاثر کر سکتی ہیں، جس کے ردعمل میں قومی سلامتی سےسمجھوتہ کیا جائے گا۔
درخواست میں دہلی اور ہری دوار کے دھرم سنسدوں میں کہی گئی ان باتوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جن میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کرتے ہوئے ملک کی پولیس، سیاست دانوں، فوج اور ہر ہندو سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی تھی۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ، اس طرح کے غیر آئینی اور سطحی کردار کےغیرمہذب بیان شاید آزادی سے پہلے کے ہندوستان کے بعد سے کھلے عام نہیں دیے گئے ہیں۔
اس سے پہلے 10 جنوری کو سپریم کورٹ اس پی آئی ایل کی عرضی پر شنوائی کے لیےتیار ہوگئی تھی، جس میں ہری دوار دھرم سنسد میں ہیٹ اسپیچ کے ملزمین کے خلاف کارروائی کی مانگ کی گئی تھی۔
دریں اثنا چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ کے سامنے عرضی داخل کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
فوج کے ان تین ریٹائرڈ افسروں کی عرضی میں ملزمین کی گرفتاری نہ ہونے کے بارے میں بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔
بہرحال 13 جنوری کو اتراکھنڈ پولیس نے ہری دوار دھرم سنسد میں زہر اگلنے والے وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ ایک اور ملزم غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کے پجاری اور جونا اکھاڑہ کے مہامنڈلیشوریتی نرسنہانند کی بھی گرفتاری سنیچر کو ہوگئی ہے۔
حالاں کہ، نرسنہانند کو دھرم سنسد میں ہیٹ اسپیچ کے لیے گرفتار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ستمبر کے مہینے میں خواتین پر کیے گئے توہین آمیز تبصروں کے معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
بتادیں کہ 17 سے 19 دسمبر 2021 کے درمیان اتراکھنڈ کے ہری دوار میں ہندوتوا رہنماؤں اور شدت پسندوں کی جانب سے ایک ‘دھرم سنسد’ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھلے عام ہیٹ اسپیچ دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے قتل عام کی بھی اپیل کی گئی تھی۔
پروگرام کے منتظمین میں سے ایک یتی نرسمہانند نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ ہندو پربھاکرن بننے والے شخص کو ایک کروڑ روپے دیں گے۔
معاملے میں 15 لوگوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ اس تقریب کاویڈیو وائرل ہونے پر ہوئے تنازعہ کے بعد 23 دسمبر 2021 کو اس سلسلے میں پہلی ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں صرف جتیندر نارائن سنگھ تیاگی کو نامزد کیا گیا تھا۔ اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرنے سے پہلے تیاگی کا نام وسیم رضوی تھا۔
ایف آئی آر میں25 دسمبر 2021 کوسوامی دھرم داس اور سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے کے نام شامل کیے گئے تھے۔ پوجا شکن پانڈے نرنجنی اکھاڑہ کی مہامنڈلیشور اور ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری ہیں۔
اس کے بعد یکم جنوری کو اس ایف آئی آر میں یتی نرسنہانند اور رڑکی کےساگر سندھوراج مہاراج کے نام شامل کیے گئے تھے۔
گزشتہ 2 جنوری کو ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے معاملے کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی بھی بنائی تھی۔ اس کے بعد 3 جنوری کو دھرم سنسدکے سلسلے میں دس افراد کے خلاف دوسری ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
دوسری ایف آئی آر میں تقریب کے منتظمین یتی نرسنہانند گری، جتیندر نارائن تیاگی (جنہیں پہلے وسیم رضوی کے نام سے جانا جاتا تھا)، ساگر سندھوراج مہاراج، دھرم داس، پرمانند، سادھوی اناپورنا، آنند سوروپ، اشونی اپادھیائے، سریش چوان اور پربودھانند گری کو نامزد کیا گیا ہے۔
Categories: خبریں