یہ ملک کے لیےانتہائی افسوسناک ہے کہ اس کےسابق نائب صدر کو بھی مذہبی آئینے میں دیکھا جانے لگاہے۔ان کے بیانات سےسبق حاصل کرنے اور آئینے میں حقیقت کا چہرہ دیکھنے کے بجائے ان سے چاپلوسی کی امید کی جارہی ہے!
ایک دہائی تک نائب صدر رہی کسی شخصیت کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ عدم برداشت کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی دشواریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ، یا شہری قوم پرستی کو ثقافتی قوم پرستی میں تبدیل کیا جارہا ہے اور اس پر اکثریت کی اجارہ داری قائم کی جا رہی ہے تو حکمرانوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے، حالات کو بدلنے اور باہمی افہام و تفہیم اور ہم آہنگی پیدا کرنےکی کوشش کرنے میں اس کا حل ہے یا متعلقہ شخصیت پر چڑھ دوڑنے میں ؟
کوئی بھی ذی فہم اس سوال کے جواب میں حکمرانوں سے اپنے گریبان میں جھانکنے کو ہی کہے گا، لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے دور کے حکمرانوں کو اس کی بالکل عادت نہیں ہے، اس لیے وہ چڑھ دوڑنے کا راستہ ہی اختیار کرتے ہیں۔ خواہ ان کے اس فعل سےان کے کئی گنا زیادہ عدم برداشت کی قوت نئے سرے سے بے نقاب ہو اور مذکورہ شخصیت کے عندیے کو ہی جواز فراہم ہو۔
سابق نائب صدر حامد انصاری کی طرف سے امریکہ میں تکثیری آئین کے تحفظ کے موضوع پر منعقد ایک پروگرام میں شہری قوم پرستی کو ثقافتی قوم پرستی میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں کہی گئی باتوں کے بارے میں حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی جانب سے ان پر کیے گئے حملے ان کی اسی بےعملی کا نتیجہ ہیں۔
ان حملوں کے تحت ان کے بیانات کو متنازعہ بناتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ ملک کی یکجہتی کے پیش نظران کو جائزقرار نہیں دیا جا سکتا۔ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی ان کے بیانات کو ‘ایک فردکی تنقید کے پاگل پن کا ملک کی تنقید کی سازش میں بدل جانا’ تک کہنے سے پرہیز نہیں کر رہے۔
اس سب کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہی نہیں کہ اب ملک میں جو صورتحال پیداکر دیے گئے ہیں، ان پر خاموش رہنے یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سرڈال کر طوفان کے گزر جانے کے انتظار کو ہی جائز مانا جائے گااور اظہار رائے کا کوئی بھی خطرہ مول لینے کی کوشش کی مذمت کی جائے گی؟ اگر ہاں ، تو کسی بھی صورت میں اس کی مزاحمت کو کیوں کر ٹالا یا ختم کیا جا سکتا ہے؟
بلاشبہ حامد انصاری اسی مزاحمت کی وجہ سےسابق ہونے کے باوجود حکمرانوں کوپھوٹی آنکھ بھی نہیں سُہا رہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو اگست 2017 میں ان کی الوداعی تقریب کو بھی متنازعہ بنا دیا تھا۔ یہ کہہ کر کہ اب وہ اپنے آئینی عہدے کی پابندیوں سے بالکل آزاد ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں گے۔
اس وقت اس کی ایک تعبیر یہ بھی کی گئی کہ حامد انصاری آئین کے دائرہ کار کی خلاف ورزی کرنے یا اس کے خلاف جانے والے اپنے خیالات کو آئینی عہدے پر ہونے کی مجبوری میں چھپائے ہوئے تھے ۔
اس کی پوری سچائی یہ تھی کہ 2014 میں ملک میں ان کی حکومت بننے کے بعد اقلیتوں پر مظالم بڑھے اور انہیں ‘اکثریتی آمریت’ کی چھتری تلے چھپانے کی کوششیں تیز ہوئیں تو حامد انصاری نے ان کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیریں اور ان کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریز نہیں کیا۔
اپنے دور اقتدار کےآخری دنوں میں انہوں نے ملک میں ‘قبولیت کے ماحول’ کو خطرے میں بتاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ملک کے مسلمانوں میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی پہل پر21 جون 2015 کویوگا کا پہلا عالمی دن منایا گیا تو حامد انصاری کے بارے میں یہ کہہ کر سخت نکتہ چینی کی گئی کہ انہوں نے راج پتھ پر منعقدتقریب میں شرکت نہیں کی اور نائب صدر کی رہائش گاہ پر بھی یوگا پروگرام کا اہتمام نہیں کیا۔
یہ اس وقت ہوا جب ان کے دفتر کو مذکورہ تقریب میں شرکت کی دعوت تک نہیں دی گئی تھی ۔ نائب صدر کے طور پر اپنے آخری دن انہوں نے یہ کہہ کر بھی مودی حکومت کی قوم پرستی کا نام لیے بغیراس کو آئینہ دکھایاتھاکہ میں ایک ہندوستانی ہوں اور میرے لیےاتناہی کافی ہے۔ دن رات اپنی قوم پرستی کا مظاہرہ فضول ہے، جو دراصل عدم تحفظ کے احساس کو ظاہر کرتا ہے۔
مودی حکومت نے ان میں سے کسی بیان کو کبھی بھی نیک نیتی سے قبول نہیں کیا اور نہ ہی اس نے اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی کی۔ اس کے برعکس ہر بار ان کے حواریوں نے انہیں ولن بنانے کی کوشش کی۔
یہ بات تو خیروہ اپنی دوسری اننگ میں بھی نہیں سمجھ پائی ہےکہ کسی بھی مہذب اور جمہوری ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کے احساس کوسرکاری دعووں سے نہیں بلکہ زمینی حقائق سے پرکھا جاتا ہے۔ایسا نہیں کیا جاتا تو احساس ظاہرہونے کے باوجود تقریباًویسا ہی احساس نظر آتا ہے ، جوکسی معصوم شہری کو زبردستی مسکراتے وقت ہوتا ہے، جب اس کے آس پاس کوئی غنڈہ اس سے پوچھتا ہے کہ اس کی کسی حرکت سے اس کو کوئی پریشانی تونہیں ہے؟
ان حقائق کے پیش نظر 2020 میں سابق نائب صدر کے طور پرششی تھرور کی بے حدمعروف کتاب دی بیٹل آف بلانگنگ کے ڈیجیٹل رسم اجرا کے موقع پر حامد انصاری نے کہا تھا کہ ہندوستانی معاشرہ کووڈ سے پہلے ہی دو وبائی امراض – مذہبی تعصب اور جارحانہ قوم پرستی کی شکار ہو چکی ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے حب الوطنی زیادہ مثبت تصور ہے۔
بات بالکل غلط نہیں تھی، لیکن پھر بھی ان پر وہی حملے کیے گئے جو اب ہو رہے ہیں۔
اس سے قبل 2018 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر لگانے سےمتعلق تنازعہ میں وہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کےحق میں کھڑے ہوگئے تھے، تب بھی حکمران طبقے کو مرچی ہی لگی تھی۔ اس وقت بھی، جب سعید نقوی کی کتاب بیئنگ دی اَدر دی مسلم ان انڈیا کےرسم اجرا میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ایک بیان کے حوالےسے انصاری نے کہہ دیا تھا کہ ملک کی تقسیم کے لیے اس کے دونوں ٹکڑوں کے شدت پسند برابر کے ذمہ دار ہیں۔
ان مثالوں کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آج بھی حکمرانوں کے دلوں میں حامد انصاری سے بغض وعناد کیوں ہے اور وہ ان کی ہر بات میں مین میخ کیوں نکالنے لگ جاتے ہیں۔
دراصل، ان کی اس نفسیات کی وجہ سے، جن کی سیاست کے چکر میں انہوں نے ہمارے اس پیارے ملک میں کسی بھی سچ کو سچ کی طرح سمجھنا مشکل بنا دیا ہے، وہ انہیں سابق نائب صدر سے زیادہ سابق مسلم نائب صدر کےطور پر دیکھتے ہیں اوراپنے لیےموافقت کی توقع کرتے ہیں۔ یا پھریہ کہ انہیں ان کی تھوڑی بہت اطاعت تو کرنی ہی چاہیے۔ انصاری انہیں مایوس کر دیتے ہیں توبیچارےاپنی ناراضگی چھپا پاتے ہیں اور نہ ہی جھنجھلاہٹ۔
اس سلسلے میں ملک کے لیےاس سے بھی بڑی مایوس کن بات یہ ہے کہ اس کے سابق نائب صدر تک کو ان کے مذہب کےآئینے میں دیکھا جانے لگاہے اور ان کے بیانات سے سبق لینے اور اس کے آئینے میں حقیقت کا چہرہ دیکھنے کے بجائے ان سے چاپلوسی کی امید کی جا رہی ہے!
یہ بات بھلا کرکہ جدوجہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی کے بھگت سنگھ سے بھی اختلافات تھے، پنڈت جواہر لال نہرو سے بھی ، سبھاش چندر بوس سے بھی اور بابا صاحب امبیڈکرسے بھی، لیکن ان کے درمیان کبھی کوئی دل شکنی کا معاملہ نہیں رہا۔ ان میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کے خیالات یا فیصلوں سے اختلاف کرتے ہوئے کسی کے لیے کوئی بدکلامی نہیں کی ۔
لیکن افسوس کہ پرانی تاریخ سے جنگ چھیڑ کر ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں مگن موجودہ حکمرانوں اور ان کے حواریوں نے انصاری کے لیے اپنے تعصب سے نجات پانے کی کون کہے،اس کو چھپانے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔
حکمراں دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ملک ان کے دور حکومت میں ماضی کی غلطیوں کو سدھار رہا ہے، لیکن اپنی اصلاح کے لیے کوئی پہل نہیں کرتے، جن کی وجہ سے نہ صرف آئین بلکہ اس کی روح اور تکثیری، لبرل اور سیکولر امیج تک کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ہی لفظوں کہیں تو میں ان کی یہ کارستانیاں ویسی ہی ہیں جیسے کوئی چہرے پر پڑی دھول کو صاف کرنے کے لیےچہرے کے بجائے اس آئینے کو صاف کرنے لگے،جس میں وہ نظر آ رہا ہو۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر