بی جے پی نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے تین ترپ کے پتوں یعنی گائے، مسلمان اور پاکستان میں سے مسلمان کا جم کر استعمال کیا۔
ہندوستان میں حال ہی پانچ صوبائی اسمبلی کے لیے ہوئے انتخابات میں سے چار میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کامیابی حاصل کرکے ثابت کردیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور سخت گیر ہندوتوا کا جادو ابھی بھی ہندو اکثریتی ووٹروں میں سر چڑھ کر بو ل رہا ہے۔
سکھ اکثریتی صوبہ پنجاب میں نوزائیدہ عام آدمی پارٹی (عآپ) نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر روایتی پارٹیوں اکالی دل اور کانگریس کو بری طرح پچھاڑ دیا۔
ان میں سے اہم صوبائی انتخاب آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کا تھا۔ چونکہ اس صوبہ کی پارلیامنٹ کی 543نشستوں میں سے 80نشستیں ہیں، اس لیے ان نتائج نے فی الحال یہ ثابت کردیا ہے کہ ہندوستان میں موجودہ حالات میں سیکولر سیاست کی جگہ محدود ہے۔
صوبائی اسمبلی کی 403نشستوں میں بی جے پی نے 255سیٹیوں پر کامیابی حاصل کرکے ہندو پروہت یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر برقرار رہنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے انہوں نے اس صوبہ کو ہندوتو ایعنی سخت گیر ہندو ازم کی تجربہ گاہ بنایاہوا ہے۔204ملین نفوس پر مشتمل اس صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی 43ملین یعنی 19فیصد سے زائد ہے۔
عام انتخابات کے ایک سال بعد یعنی 2025میں چونکہ وزیر اعظم مودی 75سال کے ہوجائیں گے، تو عوامی نمائندو ں کیلئے ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی طرف سے طے کی گئی عمر کرا س کر جائیں گے۔
انتہائی مشکل حالات میں اتر پردیش میں بی جی پی کی جیت نے یوگی آدتیہ ناتھ کو وزارت اعظمیٰ کے ایک اہم دعویدار کے بطور پیش کردیا ہے۔
فی الحال مودی کے جو جانشین منظر عام پر ہیں، ان میں یوگی کے علاوہ وزیر داخلہ امت شاہ اوربی جے پی کے سابق صدر اور مرکزی وزیر نتن گڈکری شامل ہیں۔ مگر ان میں صرف یوگی ہی عوامی لیڈر کے بطور مودی کا نعم البدل ہوسکتے ہیں۔
اس لیے اب نگاہیں اس سال کے اواخر میں گجرات میں ہونے والے انتخابات پر اور وہاں امت شاہ کی کارکردگی پر ٹک جائیں گیں۔ دونوں مودی اور امت شاہ گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مودی نے اتر پردیش کو رام کرنے کے لیے وارانسی سے انتخاب جیت کر اپنے آپ کو اسی صوبہ کے نمائندہ کے طور پر منوا تو لیا، مگر یہ شاید امت شاہ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
مودی کے برعکس یوگی کبھی آرایس ایس کے ممبر نہیں رہے ہیں۔2017 میں و زیر اعلیٰ بننے تک وہ بی جے پی کے بھی رکن نہیں تھے، گو کہ گورکھپور سے وہ 1998سے لگاتا ر بی جے پی کے ٹکٹ پر پارلیامانی انتخاب جیتے آئے ہیں۔
ا ن کے مرشد گھورکھپور کے گھورکھناتھ مٹھ یا مندر کے مہنت یوگی آوید ناتھ نے اتر پردیش میں اپنا نیٹ ورک ہندو یوا واہنی کے نام سے کھڑا کیا ہوا تھا۔مگر ممبر نہ ہونے کے باوجود اپنی مسلم مخالف شبیہ کی وجہ سے ان کو آرایس ایس کی تائید حاصل ہے۔
اتر پردیش کے انتخابات میں شکست کے باوجود سماج وادی پارٹی کے زیر قیادت اتحاد نے پچھلی بار کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ یعنی 125 سیٹیں جیتی ہیں۔
کانگریس اور دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سب سے زیادہ خسارے میں رہی، کیونکہ کانگریس پارٹی صرف دو اور بی ایس پی ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوسکی۔
اس الیکشن میں کانگریس کو اب تک کے سب سے کم یعنی محض 2.33 فیصد اور بی ایس پی کو 12.88فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس سے قبل کانگریس کا ووٹ 6.25فیصد اور بی ایس پی کا 22.23فیصد ہوتا تھا۔ ان انتخابا ت میں کانگریس نے اپنے آخری ترپ کے پتہ یعنی پرینکا گاندھی کو میدان میں اتار کر استعمال کیا۔ مگر وہ بری طرح ناکام رہی۔
سیاسی بصیرت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پرینکا گاندھی نے گوا، اتراکھنڈ اور پنجاب کو انتخابی میدان بنانے کے بجائے اترپریش کو کیوں چنا، جہاں وہ تین دہائیوں سے پاور سے باہر ہے اور زمینی سطح پر پارٹی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ نہ صرف اس کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ کانٹے کی ٹکر والی سیٹوں پر سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بھی بنی۔
اگر وہ اتراکھنڈ اور گو ا پر توجہ دیتی، تو یہ صوبے کانگریس کی جھولی میں گر سکتے تھے، کیونکہ ان میں اتر پردیش کے برعکس کانگریس کی براہ راست ٹکر بی جے پی کے ساتھ تھی۔
چونکہ ان انتخابا ت میں پولرائزیشن یعنی ووٹروں کو فرقہ وارانہ خطوط پر بانٹنے کے عمل کا بھر پور استعمال کیا گیا، اس لیے بی جے پی کی جیت سے مسلمانوں کا اضطراب میں ہونا لازمی ہے۔مگر ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کے سیکولر اتحاد سے 36 مسلمان امیدوار بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ پچھلی اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعداد بس 24تھی۔
کیرانہ سے ناہید حسن اور رام پور سے اعظم خان نے جیل سے ہی کامیابی حاصل کی۔ان انتخابات میں 318مسلم امیدوار 176سیٹوں پر قسمت آزمائی کر رہے تھے۔ سیاسی کارکن اور تجزیہ کار تسلیم رحمانی کے بقول 33دیگر مسلمان امیدوار دوسرے نمبر پر رہے اور 84تیسرے مقام تک پہنچ کر کانٹے کی ٹکر دینے میں کامیاب رہے۔
ان میں سے اکثر بی ایس پی کے ٹکٹ سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ اس طرح کل 403نشستوں میں سے 153سیٹوں پر مسلمان ووٹر ایک اہم فیکٹر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اتر پردیش میں ان انتخابات میں 91.5ملین ووٹ پڑے اور ان میں سے 10ملین سے زائد ووٹ 318مسلم امیدواروں کو پڑے ہیں۔
اس صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی 42.5ملین ہے۔ اس لیے ووٹروں کی تعداد 25 ملین ہونی چاہیے اور چونکہ 60 فیصد ووٹنگ ہوئی ہے، اس حساب سے ووٹنگ مشینوں میں 15ملین ووٹ مسلمانوں کے ہونے چاہیے تھے۔ مگر ان میں 40لاکھ یعنی چار ملین ووٹ کم نکلے ہیں۔
رحمانی کا کہنا ہے کہ اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو ہر حلقہ میں عین انتخابات سے قبل چند ہزار ووٹ مسلمانوں کے ووٹنگ لسٹ سے خارج کیے گئے ہیں، جیسا کہ معروف شاعر منور رانا کا ووٹ لسٹ میں نہیں تھا یا سیاسی پارٹیوں نے ان کو ووٹنگ لسٹ میں شروع سے ہی شامل کرنے کی کوئی سعی نہیں کی۔
سماج وادی پارٹی کو ریکارڈ 32.06فیصد یعنی 22 ملین ووٹ حاصل ہوئے ہیں، جن میں 10ملین ووٹ مسلمانوں کے ہیں۔ 2017کے انتخابات میں اس کو بس 21.8فیصد ووٹ ہی حاصل ہوئے تھے۔ 2012میں جب اس نے224 سیٹیں جیتی تھیں، اس وقت بھی اس کا ووٹ تناسب 29.15 فیصد ہی تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق اعلیٰ ذاتوں یعنی برہمن اور راجپوتوں کے 70فیصد سے زائد ووٹ بی جے پی کو ملے، اس کے علاوہ اس کو کرمی، دیگر پسماندہ ذاتوں اور غیر جاٹو دلتوں کے بالترتیب 58فیصد، 65فیصد اور 51فیصد ووٹ ملے۔ جاٹو دلت جو بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی کا ووٹ بینک ہوتا تھا، کے 21فیصد ووٹروں نے بھی بی جے پی کے حق میں وو ٹ ڈالے۔
مسلمانوں کے 8فیصد ووٹ بھی بی جے پی کو ملے ہیں،جو شاید مقامی فیکٹرز، ذاتی تعلقات کی یا چند علاقوں میں امیدواروں کی وجہ سے ملے ہوں گے۔ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ یعنی 83فیصد ووٹروں اور یادو ذات کے 86فیصد ووٹروں نے سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالے۔ 47 فیصد جاٹ کسان ووٹروں نے، جو انتخابات سے قبل تک حکومت سے سے سخت ناراض تھے، بی جے پی کو ووٹ ڈالے۔
اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے معروف صحافی و تجزیہ کار حسام صدیقی کا کہنا ہے پولرائزیشن کے علاوہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دوران مفت خوراک کا جو انتظام کیا گیا تھا، اتر پردیش میں اس اسکیم کو مارچ کے اواخر تک بڑھایا گیا۔
اترپردیش میں چودہ کروڑیعنی 140 ملین افراد کو انتخابات سے قبل فی یونٹ مفت پانچ کلو غلہ دیا گیا۔ غلے کے ساتھ ایک کلو چنا، ایک کلو نمک اور ایک لیٹر ریفائنڈ آئل بھی بانٹا گیا۔ اس سے نتائج پر واضح فرق پڑا۔
بہر حال بی جے پی نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے تین ترپ کے پتوں یعنی گائے، مسلمان اور پاکستان میں سے مسلمان کا جم کر استعمال کیا۔
گائے اب شاید انتخابی موضوع نہیں ہے، کیونکہ دیہاتوں میں اس وقت 12لاکھ آوارہ جانور دھن دھناتے کسانوں کی فصلوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ 2024کے عام انتخابا ت میں مرکز میں واپسی کیلئے پارٹی کون سے ترپ کے پتے کو استعمال کرےگی۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر