بی جے پی کو یوپی میں اکثریت تو ضرور مل گئی، لیکن اس کی اتحادی پارٹیوں کے ووٹ فیصد کو شامل کرنے کے بعد بھی وہ صرف 45 فیصد کے قریب ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ کس طرح الیکشن میں فرقہ پرستی پر زور دیا گیا،یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ باقی 55 فیصد ووٹ بی جے پی مخالف تھے۔
متعدد سیاسی مبصرین اورتجزیہ کار اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتخابی جیت کو بی جے پی کی پچھلی حکومت کی عوامی فلاح و بہبود کی پالیسیوں کے لیے عوامی حمایت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ حالاں کہ ، ایسے تجزیہ کار اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ اس پارٹی کے ایسےقائدین بھی جن کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی کی کئی وجوہات تھیں، انہوں نے بھی انتخابی مہم میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے لیے انتہائی زہریلےبیان دیے۔
خود چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے درجنوں ایسے بیان دیے، جن میں انہوں نے پوری سرگرمی کے ساتھ ہندو مسلم فرقہ واریت کو بڑھاوا دے کر ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش کی۔ ان کی اور ان کی پارٹی کی اس فرقہ وارانہ کوشش کی انتہا ان کےاس ‘وعدے’ یا یوں کہیں کہ’دھمکی’ میں نظر آئی جس میں انہوں نے کہا کہ یوپی میں یہ الیکشن ’80 بنام 20′ کا ہوگا۔
یوگی نے کہا تھا، 80 فیصد حمایت ایک طرف ہوگی، 20 فیصد دوسری طرف ہوگی۔مجھے لگتا ہے کہ 80 فیصد مثبت توانائی کے ساتھ آگے بڑھیں گے، 20 فیصد نے ہمیشہ مخالفت کی ہے اور مخالفت کریں گے۔
تاہم اس دوران وہ محتاط رہے کہ یہ فیصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ نہ جوڑیں، لیکن بی جے پی کارکنوں اور سنگھ پریوار کے بڑے اور چھوٹے لیڈران نے ان کے اس اشارے کو بخوبی سمجھ لیا اور انتخابی ریلیوں سے لے کر چھوٹی موٹی میٹنگ اور صوبے کے ایک ایک گھر تک عوام کو بیانات کے ذریعےمسلم مخالف جال میں پھنسانے کی کوشش کی۔
یہ یوگی آدتیہ ناتھ اور نریندر مودی کی بدقسمتی ہی ہے کہ ’80-20′ والے اس بیان نے نہ صرف انتخابات میں فرقہ وارانہ کھیل میں بی جے پی کے مرکزی کردار کو بے نقاب کیا، بلکہ اس نے ایک بالکل الٹی ہی طرح کے انتخابی فارمولے کو بھی جنم دےدیا۔
بی جے پی نے اکثریت تو ضرورحاصل کرلی، لیکن اس کی چھوٹی موٹی اتحادی پارٹیوں کے ووٹ فیصد کو شامل کرنے کے بعد بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صرف 45فیصد کے قریب ہی ووٹ حاصل کرسکی۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ کس طرح الیکشن میں فرقہ پرستی پر زور دیا گیا، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ باقی 55فیصد ووٹ بی جے پی مخالف تھے۔
یہاں تک کہ اگر مایاوتی اور امت شاہ کے درمیان کسی قسم کا معاہدہ بھی ہوا ہو تو بھی بی ایس پی کے صرف ایک تہائی حامیوں نے بی ایس پی سے بی جے پی میں اپنی وفاداری تبدیل کی۔ مایاوتی کی انتخابی مہم ذرا بھی مؤثر نہیں تھی، لیکن ان کا رخ اور پیغام بی جے پی مخالف ہی تھا۔
واضح طور پر، بی جے پی اب بھی ہندوستان کے اکثریتی نظام کے تحت جائز طریقے سےحکومت بنائے گی (جیسا کہ دوسری پارٹیاں ماضی میں بنا چکی ہیں اور آگے بھی بناتی رہیں گی)۔ لیکن یوپی کے رائے دہندگان ریاستی حکومت کی ‘بلڈوزر’ پالیسی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، مودی کے زرعی قوانین، مذہب کی بنیاد پر لگاتارسماج کے پولرائزیشن، وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے حکومت کی پالیسی وغیرہ جیسے بڑے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس ووٹ شیئر بینچ مارک کو ریفرینس پوائنٹ کے طور پر لیا جانا چاہیے جہاں یوگی آدتیہ ناتھ نے مان لیا تھا کہ ’80-20′ ان کے حق میں ہوگا، لیکن اصل میں تو وہ ان کے خلاف ’45-55′ بن گیا۔
میں یہاں کوئی اکیڈمک دلیل نہیں دے رہا ہوں کیونکہ بی جے پی اس کو ملی اکثریت کو ان کی پرانی پالیسیوں،جنہیں 55 فیصد ووٹروں نے خارج کر دیا، کو تیزی سے لاگو کرنے کے لیے لائسنس کے طور پر استعمال کرے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن کے لیے سیاست کی بہت گنجائش ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے حریف جتنی جلدی ان نتائج کے صدم سے باہر نکلیں گے، ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
غور طلب ہے کہ ’80-20′ کے ہدف کے خلاف ’45-55′ کا نتیجہ کچھ خاص طرح کی امیدوں کو بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بی جے پی کی انتخابی مہم اور اس کی جیت کے پیچھے کی اصل وجہ فرقہ پرستی ہے اور یہ خطرے کی علامت بھی ہے کہ کل ووٹروں کا 41.3فیصد کا ایک بہت بڑا حصہ یا تو پہلے کی طرح ہی ان نفرت پھیلانے والوں سے جڑا رہا یابراہ راست اور فعال طور پر ان سے متاثر ہوا۔
لیکن اس کے باوجود ایک سچائی یہ بھی ہے کہ مودی اور یوگی پچھلے پانچ سالوں میں اپنے ووٹروں کی تعداد میں 1.5فیصد سے زیادہ کا اضافہ نہیں کر سکے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ سیاست اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یہ سوچنا منطقی ہی ہے کہ کل ووٹروں کا 40فیصد یعنی تقریباً 6.3 کروڑ لوگوں میں سے اکثر نے مخالفت کی وجہ سے یا اس فرقہ پرستی کے جال میں نہ پھنسنے کی وجہ سے ہی ووٹ نہیں دیا۔
اس کے ساتھ دیگر کئی عوامل بھی اسے ووٹ دینے سے روکنے کے ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی کے ایسے کئی لیڈر جو ہندو مسلم شدت پسندی کے قائد تھے، اس الیکشن میں اپنی ہی سیٹیں ہار گئے۔ شایدیہ اس بات کی علامت ہے کہ فرقہ پرستی کی زہریلی نالی مزید آگے جانے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔
میں نے اوپر جو کچھ بھی کہا اس کا یہ مطلب اخذ کرنا بالکل غلط ہو گا کہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ اور فاشسٹ پروپیگنڈہ مہم یا پالیسیوں کے خطرے کو کم سمجھا جا سکتا ہے۔ مسلم دشمنی اب بھی اس پارٹی کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے اور اگلے لوک سبھا انتخابات میں اس کا استعمال اور زیادہ بڑھے گا ہی ۔
مودی جب یوپی میں بی جے پی کی جیت کی بات کر رہے ہیں تو اس کے ذریعے وہ یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس جیت نے ان کے لیے 2024 میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کا راستہ صاف کر دیا ہے۔ لیکن اتر پردیش کا انتخابی نتیجہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں اب بھی لڑنے کی قوت ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر