افغانستان کے شہر اسپن بولدک میں ہلاک ہونے والے صحافی دانش صدیقی کے والدین نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں طالبان کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ اس شکایت میں چھ طالبان رہنماؤں کے ناموں کا ذکر کرتےہوئے کہا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کے قتل کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔
نئی دہلی: افغانستان میں ہلاک ہونے والےفوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کے والدین اختر صدیقی اور شاہدہ اختر نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ یعنی جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں طالبان کے خلاف ایک شکایت درج کرائی ہے۔
انہوں نے اپنی شکایت میں چھ طالبان رہنماؤں کے ناموں کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان کے شہر اسپن بولدک میں ہلاک ہوئے ان کے بیٹے کےمعاملے کی تفتیش کی جانی چاہیے۔
بتادیں کہ اپنی شکایت میں طالبان کے جن رہنماؤں کے خلاف دانش کے اہل خانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں ان میں جہاں طالبان کے سپریم کمانڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ، طالبان قیادت کی کونسل کے سربراہ ملا حسن اخوند، چیف ترجمان اور قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر اور طالبان کے وزیر دفاع شامل ہیں، وہیں مولوی محمد یعقوب مجاہد، قندھار کے طالبان گورنر گل آغا شیرزئی اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے نام بھی اس میں ہیں۔
شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ دانش صدیقی کا قتل ‘جنگی جرم’ بھی ہے اور ‘انسانیت کے خلاف بھی جرم’ ہے۔
منگل کو پریس کانفرنس میں متاثرہ خاندان کی طرف سے ایڈوکیٹ ایوی سنگھ نے جھڑپ کے دوران افغانستان میں لی گئی وائرل تصویروں کا ذکرتے ہوئے کہا کہ وہ فوٹو جرنلسٹ تھے اورہندوستانی تھے، اس لیے ان کو مارا گیا۔
اس دوران سنگھ نےسوال بھی اٹھایا کہ،بین الاقوامی روایتی قانون اور تاریخی طور پر بھی مسجد کو ایک پناہ گاہ تسلیم کیا گیاہے ، اس کے باوجود طالبان نے مسجد کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ،دانش کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔ ان پر تشدد کیا گیا اور اس کے بعد انہیں قتل کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں کہ دانش کو طالبان نے غیر قانونی طور پر پکڑا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کی بلٹ پروف جیکٹ اس وقت تک سلامت تھی، جب وہ ان کے گھر والوں کو لوٹائی گئی تھی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے جسم کو مسخ کردیا گیا تھا۔
سنگھ نے بتایا کہ، دانش کے جسم میں کچھ گولیاں اور کچھ چھرے رہ گئے تھے جو نکالے نہیں جا سکے۔
انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کی جانب سے نہ صرف صحافیوں بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانے کی طویل تاریخ کے پیش نظر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات اہم ہیں۔
بتادیں کہ گزشتہ سال 16 جولائی کو دانش اس وقت زخمی ہو گئے تھے جب وہ رائٹرز کے لیے افغان فورسز اور افغان فوجی کےدرمیان جھڑپ کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ان کو علاج کے لیے ایک مسجد لے جایا گیا، جہاں وہ ‘غفلت کی وجہ سے’ پیچھےچھوٹ گئے۔ بعد میں انہیں مبینہ طور پر طالبان نے انہیں حراست میں لیا اوران پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
ایڈوکیٹ سنگھ نے نامہ نگاروں کو بتایاکہ،دانش کے پاس ان کی شناخت بتانے والی چیزیں تھیں، جیسے کہ ان کا پریس کارڈ، پاسپورٹ۔ ان کی شناخت ایک جنگجو کے طور پر نہیں جاسکتی تھی…
سنگھ نے کہا، ہم نے نہ صرف طالبان کے مقامی کمانڈروں کے خلاف ہی نہیں، بلکہ ان کی قیادت کے خلاف بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
سنگھ نے مزید کہا کہ اس طرح سےعام شہریوں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور جو لوگ اس کےلیے ذمہ دار ہیں ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔
صدیقی کے اہل خانہ نے اپنی شکایت میں لکھا ہے کہ دانش کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔ لیہہ کے نام سے شائع ہونے والے طالبان کے فوجی ضابطہ اخلاق میں صحافیوں سمیت عام شہریوں پر حملہ کرنے کی پالیسی شامل ہے۔
انہوں نے لکھا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے طالبان کے ہاتھوں 70000 سے زیادہ شہریوں کی ہلاکتوں کا دستاویز تیار کیا ہے۔
پریس کانفرنس میں دانش کے بھائی عمر صدیقی نے کہا کہ ،یہ مہینے ہمارے خاندان کے لیے بہت تکلیف دہ رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت لمبا راستہ ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اہل خانہ کے لیےیہ جاننا ضروری ہے کہ ہم نے وہ سب کیا جو ہم انصاف کے لیے کر سکتے تھے۔
سنگھ نےایک سوال کے جواب میں کہا کہ اہل خانہ ہندوستانی حکومت سے صدیقی کے قتل کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کی حمایت کرنے کوبھی کہے گا۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں