انصاف اور مساوات کی راہ میں رکاوٹ پیداکرنے والوں نے تبدیلی کی لڑائی کو فرقہ وارانہ نفرت میں تبدیل کر دیا ہے، اورمسلمانوں کے خلاف نفرت پیداکرنے کے لیےتمام فرضی افواہیں بنائی گئی ہیں۔ آج اسی سیاست کا نتیجہ ہے کہ لوگ مہنگائی، روزگاراور تعلیم کے بارے میں بات کرنا بھول گئے ہیں۔
کیا ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی قصور ہے؟
دنیا بھرمیں ملکوں کے اندر تشدد کے واقعات رونما ہوتےہیں، ملکوں کے درمیان جنگیں ہوتی ہیں۔ جنگیں خود بخودنہیں ہوتیں، جنگیں کروائی جاتی ہیں۔ گاندھی کی مانیں تو، جنگ کی دو وجوہات ہیں۔ ہماری نفرت اور لالچ۔
گاندھی کی بات اس لیے بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا میں جو جنگیں ہوئیں وہ یا تو سامراجی لوٹ مار کے لیے تھیں۔ یا پھر مذہبی منافرت کی وجہ سے۔
فرانسیسی، ولندیزی (ڈچ) یا انگریز ساری دنیا میں خام مال یا سستے مزدوروں یا بازاروں کی تلاش میں جاتے تھے۔ وہ نئے نئےممالک پر قبضہ کرتے تھے، وہاں سے کپاس، مصالحے، ریشم، سونا، لکڑی یا دیگر بیش قیمتی اشیا لوٹتے تھے۔
کئی دہائیوں تک افریقہ سےآدی واسیوں کو غلام بناکر انگلستان، امریکہ اور یورپ لے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ ان ملکوں کے تاجروں نے اپنے ملکوں کی فوج کا استعمال دوسرے ممالک کے خلاف اس لوٹ کو کامیاب بنانے کے لیےکیا۔ ہندوستان بھی ڈھائی سو سال تک اس لوٹ مار اور غلامی کا شکار بنارہا۔
اسی سامراجی لوٹ سے پہلی جنگ عظیم کا ظہور ہوا۔ اور پہلی جنگ عظیم کے پیٹ سے ہٹلر اور مسولینی پیدا ہوئے۔ جنگ کی شکست کا بدلہ لینے اور خود کو برتر نسل سمجھنے کی نفرت انگیز سوچ سے فاشزم اور نازی ازم نمودار ہوا اور اسی میں سے دوسری جنگ عظیم کا بھی ظہور ہوا۔
انگریزوں نے ہندوستان سے خام مال لوٹنے کے لیےاس کو اپنی کالونی بناکر رکھا۔
ہندوستان کو اپنا غلام بنائے رکھنے اور اپنی سلطنت کے خلاف بغاوت کو کمزور کرنے کے لیے انگریزوں نے ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں بانٹ کر رکھنے کی چال بازی کی۔
اس کے لیے انگریزوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی خوب چال چلی۔
ایک تو انگریزیورپ میں مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑ چکے تھے، اس لیے وہ مسلمانوں کے خلاف تعصبات سے بھرے ہوئے تھے۔
دوسرا، ہندوستان میں مرہٹوں، سکھوں اور راجپوت بادشاہوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیےبھی انگریزوں نے مسلمانوں کو دور رکھنے کی پالیسی اپنائی۔
انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت بڑھانے کے لیےفرضی تاریخ لکھنی شروع کی۔
برطانوی مؤرخ جان اسٹورٹ مل نے ہندوستان کی تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا ہندو دور، دوسرا مسلم دور اور تیسرا برطانوی دور۔
جبکہ ہندوستان میں کوئی ہندو دور تھاہی نہیں۔ ہندوستان میں جین حکمراں ہوئے۔ بودھ حکمراں بھی ہوئے۔ برہمن حکمراں بھی ہوئے۔ سماجی طور پر شودر بتائے گئے لوگ بھی حکمراں ہوئے۔
برہمن حکمرانوں کی طرف سے بودھ مت کے پیروکاروں کے خلاف تشدد کا ایک لمبا دورچلا۔ ان کے بعد مسلمانوں کی ہندوستان آمد کے بعد مسلمان حکمراں بھی ہوئے۔ انہی کے دور میں راجپوت، مرہٹوں اور سکھوں نے بھی حکومت کی۔
حکمراں بھلے ہی مسلمان تھے،لیکن ہندوستان میں کبھی اسلامی حکومت نہیں رہی۔ کبھی شریعت نافذ نہیں ہوئی، بلکہ منو سمرتی کی بنیاد پرذات پات کا نظام ہی جاری رہا۔
لاکھوں شودروں نے مساوات کی تلاش میں اسلام میں پناہ لی، لیکن کسی بھی مسلمان حکمراں نے منو اسمرتی پر مبنی برہمن نظام پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔
مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان میں شہروں اور دیہاتوں کے نام بدلنے کی کوئی ظالمانہ مہم بھی نہیں چلائی۔ رام پور اور سیتا پور جیسےنام اپنی جگہ پر قائم رہے۔ برہمنوں اور دوسرے ہندوؤں کی آبادی اتنی ہی بنی رہی۔ تلوار کے زور پر ان کو مسلمان بنانے کے لیے کبھی کوئی زبردستی کی مہم نہیں چلائی گئی۔
مسلمان حکمراں مندر بنانے کے لیے زمینیں اور وظیفے دیتے رہے۔ تلسی داس نے مسلم حکمرانوں کے زمانے میں ہی ایودھیا میں رام چرت مانس لکھی اور اسی دور میں وہاں سینکڑوں رام مندر بنے۔
مغلیہ دور میں ہی بھکتی دور پروان چڑھا اور کرشن کے پریمی روپ اوربال لیلاؤں کی شاعری لکھی گئی۔ رسکھان (رسخان)اور ملک محمد جائسی جیسے مسلمان کرشن بھکت بھی اسی دور میں ہوئے۔
لیکن انگریزوں نے جھوٹی تاریخ لکھی اور مغل حکمرانوں کو ہندوؤں پر ظلم کرنے والا باور کرانا شروع کیا۔
غدر (1857) میں مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف بڑی تعداد میں شرکت کی تھی، چنانچہ انگریزوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں سے الگ کرنے کی پالیسی پر بھی کام کرناشروع کیا۔
ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کا قیام انگریزوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ہوا۔ ان تنظیموں نے ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف چلنے والی تحریک آزادی کی مخالفت کی اور انگریزوں کی مدد کی۔ ان تنظیموں کی مدد سے ہی انگریزوں نے ہندوستان اور پاکستان کو دو ملکوں میں تقسیم کر دیا۔
انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان کی حکمرانی انہی روایتی حکمران طبقوں کے ہاتھوں میں رہی جو اپنی ذات اور پیسے کی وجہ سےہمیشہ سے مالدار تھے اور حکومت میں شامل تھے۔
ہندوستان میں محنت کش طبقے کو شودر اور غریب بھی بناکر رکھا گیا تھااور اسے اقتدار سے دور رکھا گیا تھا۔ اسی کو تاریخی ناانصافی کہا گیا ہے۔
آزادی کے بعد اس تاریخی ناانصافی کو دور کرنے اور سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن جو طبقات ناانصافی کی وجہ سے بڑے اور امیربنےہوئے تھے وہ ایسا کیسے ہونے دیتے!
اسی لیے انہوں نے مساوات کے نظریہ کو غیر ملکی قرار دیا، اسے بائیں بازو کا خیال قرار دیا اور ہندوستان میں جاری استحصال کو مذہب، ثقافت اور روایت کہا۔ استحصال کو دوام بخشنے کے لیے مظلوموں کو فرضی لڑائیوں میں الجھانے کی چال چلی گئی۔
دلتوں اور شودر ذاتوں سے کہا گیا کہ تمہارے دشمن مسلمان ہیں، ان سے لڑو، ذات پات کے خلاف مت لڑو۔ مزدوروں سے کہا گیا کہ مزدوری کے لیےمت لڑو، مسلمانوں کے خلاف لڑو۔
اس طرح انصاف اور مساوات کی پوری لڑائی کا رخ فرقہ وارانہ منافرت کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس سے ان لوگوں کو فائدہ ہوا جو ان کا استحصال کر رہے تھے۔ اور نقصان ان کا ہوا جو مساوات کی وجہ سے فائدے میں رہتے۔
مساوات اور انصاف کو روکنے والے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھڑکانے کے لیے ہرطرح کی فرضی افواہیں تخلیق کیں، تاکہ غیر مسلموں کو مسلسل اکسایا جا سکے۔
ہم نے ان افواہوں کی اچھی طرح چھان بین کی ہے اور ہمیشہ انہیں غلط پایا ہے۔ مثلاً مسلمان اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں اور چند سالوں میں یہ ہندوؤں سے زیادہ ہو جائیں گے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
دوسری افواہ کہ مسلمانوں ہتھیار رکھتے ہیں، فساد برپا کرتے ہیں اور دہشت گرد ہوتے ہیں۔
جبکہ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر فسادات جان بوجھ کر مسلمانوں کے صنعتی ٹھکانوں پر کرائے گئے ہیں تاکہ ان کی معیشت تباہ ہو جائے چاہے وہ مراد آباد ہو، فیروز آباد ہو، بنارس ہو یا بھاگلپور، بھیونڈی ہویا مالیگاؤں۔
یہ سب وہ جگہیں ہیں جہاں مسلمان کپڑے، پیتل، قالین یا ساڑی کا کام کرتے تھے۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں مسلمان ہی مارے گئے ہیں۔ تو یہ واضح ہے کہ یہ فسادات دراصل مسلمانوں نے نہیں بلکہ ان کے خلاف برپاکیے گئےتھے۔
اسی طرح مسلمانوں پر ‘لو جہاد’ کا الزام لگایا گیا، جس کے نہ ہونے کے بارے میں عدالت کا بھی فیصلہ آ چکا ہے۔
آج اسی نفرت پر مبنی سیاست کا نتیجہ ہے کہ لوگ مہنگائی، روزگار، مہنگی تعلیم کی بات کرنا بھول گئے ہیں۔
آج ہندوستان کی زیادہ تر آبادی ہر سیاسی تحریک کی مخالفت کرنے والی بنا دی گئی ہے۔ حکومت اب طالبعلموں، خواتین، مزدوروں، کسانوں یا آدی واسیوں کی تحریک کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ یہ کام ہندوستان کی یہ تیار کی گئی مسلم مخالف آبادی کرتی ہے۔
فرقہ پرستی کے جھوٹے پروپیگنڈے سے پیدا ہونے والی یہ آبادی اپنے حقوق ختم کرنے کے لیے آمادہ ہے، ملک کے ہم وطنوں کے انسانی حقوق چھیننے کی حمایت کے لیے تیار ہے۔
شہریوں کو سوچنے سمجھنے والا شہری نہ بناکراس کوفسادی ہجوم میں تبدیل کرنا اس دائیں بازو کی سیاست کی ایک سوچی سمجھی چال ہے، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔
(ہمانشو کمار سماجی کارکن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر