خبریں

کھرگون تشدد: انتظامیہ نے توڑا پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنایا گیا مکان

رام نومی پر فرقہ وارانہ تشدد کے بعد کھرگون میں ضلع انتظامیہ کی طرف سے کئی مکانات اور دکانوں کو منہدم کرنے کی کارروائی کی گئی تھی۔ اب ایک خاندان کے پاس دستیاب دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ جس گھر کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا گیا وہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنایا گیا تھا۔

کھرگون میں ملزمان کی تعمیرات گرانے کی کارروائی۔ (تصویر: ٹوئٹر/اسکرین شاٹ)

کھرگون میں ملزمان کی تعمیرات گرانے کی کارروائی۔ (تصویر: ٹوئٹر/اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے کھرگون میں رام نومی کے دن ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے سوموار کو ملزمین کے نصف سو مکانات اور دکانوں کو منہدم کر دیا تھا۔

انتظامیہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ تعمیرات ملزمان نے تجاوزات کرکے غیر قانونی طور پر کی تھیں۔ لیکن، اب ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے کہ جس گھر کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا گیا تھا، وہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنایا گیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، رام نومی کے موقع پر جلوس کے بعد ہوئے تشدد پر کارروائی کرتے ہوئے کھرگون کے خس خس باڑی علاقے میں حسینہ فخرو کے گھر کو بھی مسمار کر دیا گیا تھا۔

خاندان کے پاس دستیاب دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ برلا مارگ پر واقع یہ مکان حسینہ فخرو کے نام پر ان کے شوہر کی موت کے بعد رجسٹرڈ ہوا تھا، جو پی ایم آواس یوجنا کی اصل مستفید تھیں۔

یہ ان 12 گھروں میں سے ایک تھا جو اس علاقے میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ضلع انتظامیہ کی مہم کے تحت مسمار کیے گئے تھے۔

اتوار کو ہوئی جھڑپ کے بعد شہر میں چار مقامات پر کل 16 مکانات اور 29 دکانیں منہدم کی گئی تھیں۔

انڈین ایکسپریس کو 60 سالہ حسینہ نے روتے ہوئےبتایا،سوموار کی صبح میونسپل ملازمین کی ایک ٹیم بلڈوزر لے کر آئی۔ انہوں نے مجھے دھکا دے کر باہر کردیا، باہر  دیوار پر گائے کا گوبر پوت دیا جہاں لکھا تھا کہ یہ مکان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت بنایا گیا ہے۔ اور چند منٹوں میں گھر کو مسمار کر دیا۔

حسینہ کے 35 سالہ بیٹے امجد خان، جو مزدوری کر کے روزی کماتے ہیں، نے بتایا کہ حسینہ کا پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں پرمشتمل سات رکنی خاندان تین دہائیوں سے زائد عرصے سے زمین کے مذکورہ ٹکڑے پر رہ رہا تھا۔

امجد نے کہا، 2020 تک ہم اس پلاٹ پر کچے مکان میں رہتے تھے۔ 2020 میں، ہاؤسنگ اسکیم کے تحت منظوری ملنے کے بعد ہم نے ایک پکا گھر بنایا۔ ہمیں حکومت سے ڈھائی لاکھ روپے ملے اور گھر بنانے کے لیے مزید ایک لاکھ روپے جوڑ کررکھے تھے۔

امجد نے ملکیت کی تصدیق کے لیے جو دستاویز (ریکارڈ) پیش کیے ہیں ان میں پراپرٹی ٹیکس کی رسید، تحصیلدار کو دیا درخواست، اہلیت کا حلف نامہ اور وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی جانب سے پی ایم آواس یوجنا کے مستفید ہونے پر انہیں مبارکباد کا خط شامل ہے۔

ایک تصویر ایسی بھی ہے جس میں حسینہ کچے گھر کے باہر کھڑی ہیں اور دوسری تصویر میں وہ نئے گھر کے باہر کھڑی ہیں۔

متاثرین کے مطابق، حسینہ کو گھر کے انہدام سے تین دن پہلے 7 اپریل کو ایک نوٹس موصول ہوا تھا، جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ تین دن کے اندر اپنے ٹائٹل کی تفصیلات پیش کریں ورنہ انہدام کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نوٹس کا ٹائپ شدہ جواب دکھاتے ہوئے امجد نے کہا، میں تمام دستاویزوں کے ساتھ جمعہ کو ضلع عدالت جواب ٹائپ کرانےگیا تھا،جس میں  والد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ سے لے کر پراپرٹی ٹیکس کے دستاویزات تک شامل تھے۔ لیکن ہم اسے سنیچر اور اتوار کو کیسے جمع کر سکتے تھے جب تمام دفاتر بند تھے۔ اور پھر سوموار کو وہ بلڈوزر لے کر آگئے۔

اس سلسلے میں کلکٹر انوگرہ پی کا کہنا ہے،مستحقین کو کسی اور پلاٹ پر مکان بنانے کے لیے رقم دی گئی تھی، لیکن انھوں نے اسے سرکاری زمین پر بنالیا، جس کی قیمت دو کروڑ روپے ہے۔ ہم نے صرف سرکاری اراضی سے تجاوزات ہٹائی ہیں۔

کلکٹر سے پوچھا گیا کہ رام نومی کےواقعہ کے بعد گھر کو کیوں منہدم کیا گیا، جبکہ اس سے قبل مالک کو ایک الگ کارروائی  کے تحت نوٹس موصول ہوا تھا۔ اس پر کلکٹر نے کہا، خس خس باڑی فسادات کے اہم علاقوں میں سے ایک ہے، باقی چارج شیٹ پر منحصر ہے۔

تاہم امجد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسی پلاٹ پر گھر بنانے کی درخواست دی تھی جس پر گھر بنایا گیا تھا اور ہمیں اس پلاٹ پر گھر بنانے کی اجازت مل گئی۔ اگر ہمارے پاس کسی اور پلاٹ پر رہنے کا اختیار ہوتا تو ہم اپنی جمع پونجی تجاوزات والی زمین پر کیوں خرچ کرتے؟

بتادیں کہ اتوار کو کھرگون میں رام نومی کے موقع پر جلوس کے دوران دو برادریوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ ہوئی تھی جس کے بعد حکومت اور ضلع انتظامیہ نے ملزمان کے گھروں کو گرانے کی مہم شروع کی تھی۔