دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کو ایک حلف نامہ کے ذریعےمطلع کیا تھا کہ گزشتہ سال 19 دسمبر کو قومی راجدھانی میں ہندو یووا واہنی کی طرف سے منعقد ‘دھرم سنسد’ میں کسی بھی کمیونٹی کے خلاف کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کی گئی تھی۔ اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے پولیس کو ‘بہتر حلف نامہ’ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے قومی دارالحکومت میں ایک تقریب کے دوران مبینہ نفرت انگیز تقاریر (ہیٹ اسپیچ)سے متعلق دہلی پولیس کے حلف نامہ پر جمعہ کو ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے ‘بہتر حلف نامہ’ داخل کرنے کی ہدایت دی۔
اس سے قبل دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ 19 دسمبر 2021 کو قومی راجدھانی میں ہندو یووا واہنی کی جانب سے منعقد ‘دھرم سنسد’ میں کسی بھی کمیونٹی کے خلاف کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کی گئی تھی۔
جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ابھے ایس اوکا کی بنچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج کو ہدایت حاصل کرنے اور 4 مئی تک ‘بہتر حلف نامہ’ داخل کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔
بنچ نے کہا، یہ حلف نامہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے داخل کیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ باریکیوں کو سمجھ گئے ہیں۔ کیا انہوں نے محض تحقیقاتی رپورٹ دوبارہ جمع کرائی ہے یا انہوں نے اپنا دماغ بھی لگایا ہے؟ کیا آپ کا بھی یہی موقف ہے یا سب انسپکٹر کی سطح کے افسر کی تحقیقاتی رپورٹ دوبارہ پیش کرنی ہے؟
بنچ نے کہا، اے ایس جی نے بہتر حلف نامہ داخل کرنے کے لیے حکام سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے وقت مانگا ہے… دو ہفتے کا وقت دینے کی گزارش کی گئی ہے۔اس معاملے کو 9 مئی کے لیے درج کریں۔بہتر ہوگا اگر حلف نامہ 4 مئی کو یا اس سے پہلے داخل کیا جائے۔
سپریم کورٹ صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج اور سینئر ایڈوکیٹ انجنا پرکاش کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جنہوں نے دہلی اور ہری دوار میں منعقد ‘دھرم سنسد’ پروگراموں میں مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے واقعات کی ایس آئی ٹی کے ذریعے آزادانہ، قابل اعتماد اور منصفانہ جانچ کرنے کی ہدایت دینے کی درخواست کی ہے ۔
اس سے پہلے اسی ماہ کے شروع میں دہلی پولیس کی طرف سے اس سلسلے میں داخل کردہ ایک حلف نامہ میں کہا گیا تھا کہ دہلی کے پروگرام میں کسی بھی نفرت کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، جیسا کہ عرضی گزار نے الزام لگایا تھا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ، دہلی کے پروگراموں میں کسی گروہ، برادری، مذہب یا عقیدے کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔
حلف نامے میں دہلی پولیس کے حوالے سے مزید کہا گیا تھا کہ تقریر (ایونٹ کے دوران) کسی مذہب کو بااختیار بنانے کے بارے میں تھی کہ وہ اپنے آپ کو ان برائیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے جو اس کے وجود کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ اس کا کسی خاص مذہب کی نسل کشی کی اپیل سے دور دور تک تعلق نہیں تھا۔
یہ بھی کہا گیاتھا کہ، دہلی کے پروگرام سے متعلق ویڈیو میں کسی خاص طبقے یا کمیونٹی کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ اس لیے مبینہ ویڈیو کی چھان بین اور جائزے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مبینہ نفرت انگیز تقریر میں ایسے الفاظ نہیں ہیں جو کسی خاص کمیونٹی کے خلاف نفرت کو ہوا دیں۔
پولیس کا خیال ہے کہ پروگرام کے دوران کیے گئے تبصرےمیں سے کسی بھی لفظ سے ہندوستانی مسلمانوں کی تعریف نہیں ہوتی، جس سے کہ کسی بھی مذہب، ذات یا فرقے کے درمیان انتشار کا ماحول پیدا ہو۔
اس میں کہا گیا کہ اس تقریر کا کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نسل کشی کی اپیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
معلوم ہو کہ گزشتہ سال دسمبر میں اتراکھنڈ کے ہری دوار میں جب شدت پسند ہندوتوا لیڈروں نے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی تھی، اسی وقت قومی دارالحکومت میں ہندو یوا واہنی کے اسی طرح کے ایک پروگرام میں سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے کہا تھا کہ وہ ہندوستان کو’ہندو راشٹر’ بنانے کے لیے ‘لڑنے، مرنے اور مارنے’ کے لیے تیار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ویڈیو میں چوہانکے کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور ہندو راشٹر کو برقرار رکھنے کے لیے ضرورت پڑنے پرہمیں لڑنا پڑے گا، مرنا پڑے گا اور مارنا پڑے گا۔ اس پروگرام میں موجود بھیڑ نے بھی انہی لفظوں کو دہراتے ہوئے حلف لیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں