خصوصی رپورٹ: مرکزی وزیر پیوش گوئل کی قیادت والی قومی پیداواری کونسل کا کہنا ہے کہ وزارت زراعت کے تحت آنے والے نیشنل ایگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن نے جو نیلامی ضابطہ فروغ دیا ہے، اس سے مل مالکان کو بے تحاشہ منافع حاصل کرنے میں مدد مل رہی تھی۔ کونسل کی سفارش ہے کہ این اے ایف ای ڈی 2018 سے جاری نیلامی کے اس ضابطہ کورد کرے۔
نئی دہلی: کامرس کےوزیر پیوش گوئل کی قیادت والی میں قومی پیداواری کونسل (نیشنل پروڈکٹیویٹی کونسل) کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ غریبوں اور مسلح افواج کو دال فراہمی کے لیے مرکزی حکومت کی 4600 کروڑ روپے سے زیادہ کی نیلامی میں کچھ بڑے مل مالکان کو فائدہ پہنچانے کے لیے دھاندلی کی گئی تھی۔
کونسل نے ہندوستان میں دالوں اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں استحکام پرنظر رکھنے والی ایک کمیٹی کے سامنے اپنے شروعاتی نتائج پیش کیے ہیں۔ کونسل کے اس دستاویز کو رپورٹرز کلیکٹو نے دیکھا ہے۔
کونسل ایک خودمختار سرکاری تحقیقی ادارہ ہے، جو کچی دالوں کو پکنے کے لیے تیاریعنی ریڈی ٹو کُک میں بدلنے اور ان کی تقسیم کے لیےمل مالکان کو منتخب کرنے کے لیے منعقد نیلامی کا مطالعہ کرتی ہے۔ کونسل نے پایا کہ نیلامی کی شرائط نے مل مالکان کو حکومت سے ٹنوں دال کھلے بازار میں منافع پر فروخت کرنے اور ناقص معیار کی دالوں کو سپلائی کرنے کی منظوری دی۔
کونسل نے پایا کہ وزارت زراعت کے تحت آنے والےنیشنل ایگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن نے جو نیلامی ضابطہ فروغ دیا ہے، اس سے مل مالکان کو بے تحاشہ منافع حاصل کرنے میں مدد مل رہی تھی۔ کونسل نے سفارش کی ہے کہ این اے ایف ای ڈی سال 2018 سے جاری نیلامی کے اس عمل کورد کرے ۔
اپنی پچھلی چھان بین میں ہم نے بتایا تھا کہ کس طرح این اے ایف ای ڈی نے مل مالکان کو حکومت کے ذریعےاستعمال کیے جا رہی روایتی نیلامی ضابطہ کو نظرانداز کرتے ہوئے غریبوں کے لیے مختص ٹنوں دالوں کی ٹھگی ہونے دی۔
کونسل کے شروعاتی نتائج، جن کو ہم نے آرٹی آئی کے ذریعے حاصل کیا ہے، سرکاری طور پر ہماری پچھلی رپورٹ پر مہر لگاتے ہیں۔
دی رپورٹرز کلیکٹو کے ذریعے حاصل کردہ دیگر ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اکتوبر 2021 میں کونسل کے ساتھ شیئر کیے گئے نتائج کو نظر انداز کیا — اس کے اگلے دو مہینوں میں حکومت نے اسی نیلامی ضابطہ کو استعمال کر کے 875.47 کروڑ روپے کی 137509 میٹرک ٹن دالوں کی نیلامی کی۔
پچھلے انکشافات کے بعد این اے ایف ای ڈی نے اب فلاحی اسکیموں کے لیے دالوں کی ملنگ (کچی دالوں کی صفائی) بند کر دی ہے۔ اس کے بجائے، محکمہ امور صارفین نے اس سال فروری میں صرف کچی دال تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی ملنگ ریاستیں خود کر سکتی ہیں۔
این اے ایف ای ڈی، امور صارفین کی وزارت اور زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت نے انہیں بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
کیا تھا ضابطہ
سال 2015 میں دال کی کمی کے پیش نظر کسانوں کو زیادہ دالوں کی پیداوار کے لیے حوصلہ افزائی کی غرض سے حکومت نے ان کی دالیں خریدنے کا وعدہ کیا۔ جیسے ہی دالوں کا اسٹاک جمع ہونا شروع ہوا، این اے ایف ای ڈی نے 2017 میں مختلف فلاحی اسکیموں کے تحت ریڈی ٹو کُک دالوں کو دینے کی تجویز پیش کی۔ اس کے لیے این اے ایف ای ڈی نے ایک نیلامی پلیٹ فارم قائم کیا، جہاں مل مالکان کو کچی دالوں کو پروسیس کرنے اور انہیں ریاستوں تک پہنچانے کے لیےمعاہدہ حاصل کرنے کے لیے بولی لگانی ہوتی ہے۔
جیسا کہ دی رپورٹرز کلیکٹو نے دسمبر 2021 میں بتایا تھا، این اے ایف ای ڈی نے معاہدوں کے لیے ایک غیر معمولی ضابطے کو فروغ دیا جس کی وجہ سےکچھ مل مالکان کو منافع ہوا۔ عام طور پر حکومت سب سے کم بولی لگانے والے کو کام کا ٹھیکہ دیتی ہے۔ اس کے بجائےاین اے ایف ای ڈی نے اس ضابطہ کو تبدیل کیا جہاں بولی لگانے والوں کو سب سے کم ممکنہ قیمت نہیں بتانا ہوتاہےبلکہ اس کی جگہ پرانہیں سب سے زیادہ ممکنہ آؤٹ ٹرن ریشیو یا او ٹی آر بتانا ہوتا ہے۔
اوٹی آر کا مطلب ہے کہ مل مالک خام مال کے مقابلے میں کتنا فائنل پروڈکٹ دے سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ایک کوئنٹل چنا، ارہر، اُڑد وغیرہ کے مقابلے میں وہ کتنی دالیں نکال سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک مل مالک 100 کیلو گرام خام مال لیتا ہے اور اس کی پروسیسنگ کے بعد 80 کیلو گرام پروسیس کیا ہوا دال کا صرف 70 کیلو ہی حکومت کو لوٹاتا ہے۔ حکومت کے لیے تب اوٹی آر 70 کیلورہےگا۔ اضافی 10 کیلو دال مل مالک کے نقل و حمل اور دیگر اخراجات اور ان کے منافع میں شامل کیا جائے گا۔
رپورٹرز کلیکٹو نے انکشاف کیا تھا کہ کیسے مل مالکان نے منافع کمایا: این اے ایف ای ڈی کی نیلامی میں کسی مل مالک کے ذریعے او ٹی آر پر بولی لگانے کی کوئی نچلی حد نہیں تھی۔او ٹی آر جتنا کم ، منافع اتنا زیادہ۔ مؤثر طریقے سے،این اے ایف ای ڈی اس کام میں مل مالکان کے منافع کو محدود کرنے میں ناکام رہا۔
اور ایسا بھی نہیں تھا کہ این اے ایف ای ڈی کو وارننگ نہیں دی گئی تھیں۔ ہندوستان کے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل نے پہلے آندھرا پردیش میں چاول کی ملنگ میں او ٹی آر پر مبنی بولی کے بارے میں سوال اٹھائے تھے۔ یہاں پایا گیا تھا کہ مل مالکان نے سرکاری خزانے کو 1195 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ کم از کم آندھرا پردیش میں او ٹی آر کی ایک نچلی حد مقرر کی گئی تھی۔ لیکن این اے ایف ای ڈی نے نیلامی کے اسی ضابطے کو قومی سطح پر دالوں کی نیلامی میں اپنایا اور کم از کم او ٹی آر طے کرنے کی زحمت تک نہیں اٹھائی۔
سرکار نے ہی کی سرکاری گھوٹالے کی تصدیق
این اے ایف ای ڈی سال 2018 سے ہی اس بولی کے عمل کو استعمال کرتا آ رہا ہے، جس پر اب سرکاری طور پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اس کا استعمال پیوش گوئل کی قیادت والی امورصارفین کی وزارت کے تحت چلنے والے پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم-جی کے اے وائی) کے تحت دالوں کی سپلائی کے لیے کیا گیاتھا۔ گوئل نیشنل پروڈکٹیویٹی کونسل کے بھی سربراہ ہیں، جس نے اب اس عمل کو ناقص پایا ہے۔
حکومت کی طرف سے کونسل کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ اس کی دالوں کے لیے پرائس اسٹیبلائزیشن فنڈ سکیم کتنی مؤثر رہی ہے۔ 2015 میں شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد بنیادی طور پر بفر اسٹاک بنا کر بازار کی مداخلت کے ذریعے دالوں کی قیمتوں کو مستحکم کرنا ہے۔
کونسل نے 2016-17 اور 2019-20 کے درمیان ملک میں دال کی قیمتوں اور ان کی مانگ کے اپنے مطالعہ کی بنیاد پر پایا کہ اوٹی آر نیلامی مل مالکان کو ‘خریدی گئی دالوں کی خاطر خواہ مقدار’ کو برقرار رکھنے کی منظوری دیتی ہے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ مل مالکان کے پاس اپنے تجارتی استعمال کے لیے رکھی گئی دالوں کی بڑی مقدار اس معقول رقم سے زیادہ تھی جسے انہیں نیلامی کے شفاف ضابطے کے تحت رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی۔ مل مالکان کو ایسا کرنے کی منظوری دے کر این اے ایف ای ڈی انہیں بے لگام منافع کمانے کی اجازت دے رہا تھا۔
اس کے علاوہ ‘تبصروں اور سفارشات’ کے حصے کے طور پر کونسل نے کہا، دالوں کے ملنگ کی آؤٹ ٹرن ریشیو (او ٹی آر) سسٹم کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے اور معیار کی ہدایات کے ساتھ مختلف دالوں کا یکساں او ٹی آر کو طے کیا جا سکتا ہے۔دال ملک مالکان کوبائی پروڈکٹ (بھوسی) کی لاگت کو نظر میں رکھتے ہوئے ملنگ چارجز ادا کیے جا سکتے ہیں۔
اس کی طرف سے تجویز کردہ نیلامی ضابطہ آسان ہے کیونکہ اس میں اچھی طرح سے طے شدہ معیار کے پیرامیٹرز اور سرکاری خزانے کے موافق اوٹی آرکے ساتھ بولی لگانے والے کو منتخب کرنے کا معیاری طریقہ شامل ہے۔ این اے ایف ای ڈی کے موجودہ نظام کے تحت، مل مالکان جن اوٹی آر کو کوٹ کرتے ہیں ، انہیں ایک انٹرنل کمیٹی کے ذریعے منظور کیا جاتا ہے۔
انٹرنل کمیٹی کی بیٹھکوں کی تفصیلات کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور آر ٹی آئی کے ذریعے انفارمیشن تک رسائی کی کوششوں کو این اے ایف ای ڈی نے عدالتی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے روک دیا ہے،جس نے اسے شفافیت کے قانون سے چھوٹ دی ہے۔
ایک اور اہم جانکاری یہ بھی ہے کہ نیلامی کچھ بڑے مل مالکان کے حق میں کی گئی ہے۔ کونسل نے ریاستوں میں دال مل مالکان کے انتخاب کے عمل کا جائزہ لینے کی بھی بات کہی ہے۔ اس نے کہا، موجودہ وقت میں صرف چند بڑے مل مالک ہی این اے ایف ای ڈی دالوں کی ملنگ میں شامل ہیں۔
اس نے ملنگ کے کاروبار سے چھوٹے تاجروں کو باہر کرنے کے لیے این اے ایف ای ڈی کو قصوروار ٹھہرایا۔ نتائج میں کہاگیا ہے، 100 میٹرک ٹن کا موجودہ لاٹ سائز چھوٹے دال مالکوں (ایم ایس ایم ای یونٹس) کو ملنگ آپریشنز میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔ اس نے چھوٹے مل مالکان اور تاجروں کے لیے جگہ بنانے کے لیے لاٹ سائز کو کم کر کے 25 ٹن کرنے کی سفارش کی ہے۔
رپورٹرز کلیکٹو نے کونسل کے نتائج کو جانچنے کے لیے این اے ایف ای ڈی کے نیلامی آرکائیو سےاوٹی آر پر مبنی نیلامیوں کا تجزیہ کیا۔ معلوم یہ ہوا کہ چنا دال کے لیے اپریل 2018 سے اب تک 185 نیلامیوں میں سے صرف 35 نیلامی ہی 100 ٹن سے کم مقدار کے لیے تھیں۔ صرف 2 پچیس ٹن یا اس سے کم کے لیے تھیں۔
ارہر کی دال کے اعداد و شمار اورخراب ہیں۔ این اے ایف ای ڈی کی 495 نیلامیوں میں سے صرف 37 کی نیلامی 100 ٹن سے کم کے لیے ہوئی تھی۔ صرف پانچ میں 25 ٹن یا اس سے کم کے لیے نیلامی ہوئی ۔
گزشتہ اکتوبر میں حکام کے ساتھ اپنی میٹنگ میں کونسل کی جانب سے این اے ایف ای ڈی کو اس کے ضابطوں کو بہتر بنانے کا مشورہ دینے کے بعد جن دو اشیاء کا تجزیہ کیا گیا، ان کے لیے گزشتہ سال دسمبر کے وسط تک ہوئی 13 نیلامیوں میں سے صرف دو میں دالوں کی مقدار 100 ٹن سے کم تھی۔
دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ این اے ایف ای ڈی کے پاس 320 کے قریب لسٹیڈ مل مالکان ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق، اس کے مقابلے ملک میں دال ملوں کی کل تعداد 7000 ہے۔ ان میں سے زیادہ تر روایتی ٹکنالوجی کا استعمال کرنے والی چھوٹی ملیں ہیں۔ صرف چند بڑے تاجروں کو منظوری دے کر، این اے ایف ای ڈی نے زیادہ تر مل مالکان کے لیے راستے بند کر دیے۔
رپورٹرز کلیکٹو نے ایک دال مل مالک سے بات چیت کی،جنہوں نے پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا کے تحت منعقد اوٹی آر نیلامی میں حصہ لیا ہے۔ رازداری کی شرط پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، این اے ایف ای ڈی کی نیلامی کی شرائط ہم میں سے کچھ کو اس سے باہر رکھنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ کمپنی کے کم از کم ٹرن اوور کے لیے درکار معیار کو تبدیل کر دیں گے یا وہ صرف کسی خاص ریاست کے مل مالکان کی شرکت پر پابندی عائد کر دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا، ان کے کچھ ٹینڈر سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات کچھ لوگوں کی طرف سے ہدایت دی جاتی ہے … ایسی کچھ شرطوں کو شامل کرنے کے لیے، جو صرف چند مل مالکان کے حق میں ہوتی ہیں۔ میں آپ کو ایک مثال دے سکتا ہوں۔ پچھلے سال انہوں نے اے پی او (آرمی پروکیورمنٹ آرگنائزیشن) کے ٹینڈرز جاری کیے تھے۔ ان ٹینڈرز میں انہوں نے کہا کہ صرف وہی مل مالک حصہ لے سکتے ہیں جوپہلے ہی این اے ایف ای ڈی کے ذریعے اے پی او ٹینڈرز میں حصہ لے چکے ہیں۔ یہ شرط میرے خلاف رہی۔
انہوں نے مزید کہا،یہ مقابلے کو محدود کرتا ہے اور مل مالکان تب بہت کم اوٹی آر بولی لگاتے ہیں ۔ 80-85فیصد اوٹی آر میں کیا جا سکنے والا کام اب 65-70فیصد او ٹی آر میں ہو تا ہے۔
ناقص کوالٹی کی جانچ
کونسل کے نتائج میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ریاستوں نے وبائی امراض (مہاماری)کے دوران مودی حکومت کی فلیگ شپ ریلیف اسکیم پی ایم جی کے اے وائی کے تحت نہ کھانے لائق- سڑے ہوئے، پرندوں کی بیٹ کے داغ والی دالوں کی سپلائی کی شکایت کیوں کی تھی۔ ان شکایات پررپورٹرز کلیکٹو نےاسٹوری کی ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب این اے ایف ای ڈی نے سپلائی کی گئی دالوں کی کوالٹی کے لیے مل مالکان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
کونسل نے پایا کہ خریداری کے مرحلے سے سپلائی تک کوالٹی کی جانچ کمزور تھی۔
کوالٹی چیک کے لیے کام کرنے والی ایجنسیوں نے ‘غیر تربیت یافتہ’ اور ‘غیر ہنر مند’ افسران کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے محکمہ زراعت کے مقرر کردہ معیار کی جانچ کیے بغیر اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے دالوں کی خریداری کی۔
اس کے علاوہ، جب فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے اسٹاک کی نیلامی کی جاتی ہے، تو پہلے خریدے گئے اسٹاک کو ترجیحی بنیادوں پر ٹھکانے لگایا جاتا ہے تاکہ اس کے گوداموں میں پرانے اسٹاک کو جمع ہونے سے روکا جاسکے۔ لیکن این اے ایف ای ڈی نے اس ‘فرسٹ ان فرسٹ آؤٹ’ کے ضابطہ کو ہٹا دیا۔
این اے ایف ای ڈی نے 2 اپریل 2020 کو محکمہ امورصارفین کو مطلع کیا کہ وہ منزل کے قریب ترین گودام میں جمع کیے گئے اسٹاک کو نمٹائے گا۔پی ایم جی کے اے وائی کے تحت نیلامی کے لیے ‘فرسٹ ان ، فرسٹ آؤٹ’ کی پیروی نہیں کی جائے گی۔
این اے ایف ای ڈی کے مطابق، یہ سیکرٹریز کی کمیٹی، جو اعلیٰ بیوروکریٹس کا ایک بین وزارتی گروپ ہے، کی سفارش تھی۔
کونسل نے یہ بھی کہا کہ این اے ایف ای ڈی پہلے سے ہی فرسٹ ان ، فرسٹ آؤٹ کے اصول نہیں مانتا ہے۔
کونسل کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کرنے کے باوجود کہ این اے ایف ای ڈی نے پہلے سے ہی اس اصول پر عمل نہیں کیا اور این اے ایف ای ڈی کے سابق ایم ڈی نے پی ایم جی کے وائی کے لیے سپلائی کے تحت اس ضابطہ کو واضح طور پر مسترد کر دیا تھا، محکمہ امور صارفین نے اپنے آر ٹی آئی ریکارڈ میں جھوٹ بولا۔
قابل ذکر ہے کہ 8 مارچ 2022 کو دی رپورٹرز کلیکٹو کے دیے گئے جواب میں محکمہ نے بغیر پوچھے ہی کہا کہ پرائس اسٹیبلائزیشن فنڈ اسکیم کے تحت اسٹاک کو ٹھکانے لگانے میں اس ضابطے کی سختی سے پیروی کی گئی تھی۔
اسٹاک کی ڈھلائی کا وقت اہم ہے کیونکہ اوسطاً دالوں کی شیلف لائف چھ ماہ ہوتی ہے۔اس کو آئیڈیل اسٹوریج کے حالات کے تحت چند مہینوں تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ کچھ معاملات میں کونسل نے پایا کہ دالوں کو اسٹاک کی کوالٹی کی باقاعدہ نگرانی کیے بغیر تین سال سے زائد عرصے تک ذخیرہ کیا گیا تھا۔
تاہم، کونسل نے پایا کہ اسٹاک کوان کی شیلف لائف سے زیادہ مدت کے لیے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ دالوں کی شیلف لائف عام طور پر اس وقت تک ہوتی ہے جب تک کہ ذخیرہ کیڑوں یا چوہوں کے انفیکشن، فنگس اور اس طرح کے دیگر عوامل سے پاک ہو۔
کونسل نے یہ بھی پایا کہ این اے ایف ای ڈی اسٹاک کی نیلامی سے قبل کوالٹی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ اسٹوریج کے مرحلے کے آگے ملنگ کی ہوئی دالوں کی کوالٹی کی بھی نگرانی نہیں کی جا رہی تھی۔
محکمہ امورصارفین کا نیا آرڈر
این اے ایف ای ڈی کو ریاستوں کو صرف کچی دالیں الاٹ کرنے کی اجازت دینے کے اپنے 11 فروری 2022 کے آرڈر کے ساتھ، محکمہ امورصارفین نے این اے ایف ای ڈی کی نیلامی کے جاری مسئلے کو بڑی حد تک سنبھال لیا ہے۔ تاہم، یہ ہدایات تین بنیادی طریقوں سے نیلامی کے عمل کوجاری رکھنے کا راستہ کھلا چھوڑدیتی ہیں۔
سب سے پہلے، یہ آرڈر صرف فلاحی اسکیموں کے تحت فراہم کی جانے والی دالوں سے متعلق ہے۔ این اے ایف ای ڈی نے اسی نیلامی ضابطہ کو استعمال کرتے ہوئے چار سالوں میں مسلح افواج کو 580 کروڑ روپے سے زیادہ کی ملنگ کی ہوئی دالیں فراہم کیں۔ حکم نامے میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
دوسرا، یہ آرڈر اصل میں نیلامی کے عمل کو نہیں روکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ ریاستیں دالیں الاٹ کرتے وقت ملنگ اور تقسیم کے لیے اسی طریقے کو استعمال میں لاسکتی ہیں۔
آخر میں، یہ صرف ایک اجناس – دال -کی این اے ایف ای ڈی کے ذریعے ملنگ سے روکتا ہے۔ دی رپورٹرز کلیکٹو نے پایا ہے کہ 2019-20 میں 180 کروڑ روپے سے زیادہ کی مالیت کی مونگ پھلی کے تیل اور 52.78 کروڑ روپے سے زیادہ کی مالیت کےسرسوں کے تیل کی ملنگ اور سپلائی کے لیے بھی اسی یکساں نیلامی کے عمل کو استعمال کیا گیا تھا۔
(شری گیریش جلیہل دی رپورٹرز کلیکٹو کے رکن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر