مختلف شہروں میں دو کمیونٹی کے بیچ حالیہ تشدد پر قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، بلکہ کچھ لوگ ملک میں امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جانی چاہیے اور ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ تاہم، انہوں نے پنجاب کے پٹیالہ میں گزشتہ دنوں ہوئے پرتشدد جھڑپوں پر کہا کہ ریاستی حکومت اسے روک سکتی تھی۔
نئی دہلی: مختلف ریاستوں میں دو کمیونٹی کےبیچ حالیہ پرتشدد جھڑپوں کے تناظر میں قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) نے بدھ کو کہا کہ کوئی سیاسی جماعت نہیں، بلکہ کچھ لوگ ملک میں امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمیشن نے قانون نافذ کرنے والی اتھارٹی سے کہا کہ وہ ان کی شناخت کریں اور ‘سازش’ کا پردہ فاش کریں۔
کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ، میں کسی سیاسی جماعت کو مورد الزام نہیں ٹھہراؤں گا، لیکن میں ان جھڑپوں کے لیے یقینی طور پرکچھ عناصر، کچھ لوگوں کو ذمہ دار ضرورٹھہراؤں گا۔ وہ کسی پوشیدہ مقاصد کے ساتھ امن وامان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی نشاندہی کی جانی چاہیے، ان کی سازشوں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔
پنجاب کے پٹیالہ ضلع میں دو گروپوں کے درمیان حالیہ تصادم پر لال پورہ نے کہا کہ ریاستی حکومت اسے روک سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ریاستی حکومت کی رپورٹ نہیں آتی، ہم صرف میڈیا رپورٹس پر ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ، پٹیالہ تصادم جرائم کو روکنے میں پنجاب حکومت کی واضح ناکامی تھی، جو کہ امن و امان کو برقرار رکھنے کا سب سے اہم پہلو ہے۔ کچھ کوتاہی ریاستی حکومت کی طرف سے تھی۔
لال پورہ نے کہا کہ اقلیتی کمیشن نے حالیہ تشدد کے تمام واقعات کا نوٹس لیا ہے اور پنجاب، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ، گجرات اور بہار سمیت ریاستی حکومتوں سے مفصل رپورٹ طلب کی ہے۔
معلوم ہو کہ رام نومی کے جلوس کے دوران ملک کی چھ ریاستوں میں فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی تھی۔ گجرات، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں شوبھا یاترا پر شرپسندوں نے پتھراؤ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تشدد کے واقعات رونماہوئے۔ گجرات میں ایک شخص کی ہلاکت کی خبر بھی موصول ہوئی تھی۔
راجستھان کے جودھ پور میں حالیہ فرقہ وارانہ تصادم پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کمیشن نے ریاست کے چیف سکریٹری سے کہا ہے کہ وہ اس واقعہ کی تحقیقات کو یقینی بنائیں تاکہ امن و امان کو خراب کرنے کی سازش کا پردہ فاش ہو اور ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ مجرموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
مدھیہ پردیش میں گائے کے ذبیحہ کے الزام میں دو لوگوں کوپیٹ پیٹ کر مارے جانے کی میڈیا رپورٹس کا نوٹس لیتے ہوئے اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نے کہا کہ کمیشن نے ریاست کے چیف سکریٹری کو ایک خط لکھا ہے، جس میں اس معاملے کی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
لال پورہ نے کہا کہ انہوں نے کمیشن کے دیگر ارکان کے ساتھ حال ہی میں دہلی کے جہانگیرپوری علاقے کا دورہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا، ہم نے متعلقہ فریق سے ملاقات کی ہے۔ وہ وہاں بہت خوشی سے رہ رہے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندوؤں کے لیے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں، جبکہ ہندو کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لیے عید اور دیگر تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہانگیر پوری میں تشدد کے واقعہ میں کچھ شرپسند ملوث تھے اور مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ہم نے دہلی پولیس کمشنر سے (جہانگیرپوری تشدد پر) رپورٹ طلب کی ہے۔
مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے تنازعہ پر ردعمل دیتے ہوئے کمیشن کے چیئرمین نے کہا کہ شور کو کنٹرول کرنے سے متعلق قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
لال پورہ نے کہا، اذان ضرور ہونی چاہیے۔ لیکن صوتی آلودگی کا مسئلہ بھی ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ مانتا ہوں کہ قانون کی پاسداری کی جانی چاہیے خواہ وہ کسی بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، اور لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگنی چاہیے، چاہے وہ مذہبی مقامات پر ہوں یا بازاروں، ریستورانوں میں یا کہیں اور۔
انہوں نے قومی راجدھانی میں بی جے پی مقتدرہ میونسپل کارپوریش کے ذریعے چلائی جانے والی انسداد تجاوزات مہم کی بھی حمایت کی اور کہا کہ، یہ نئی چیزیں بنانے، چیزوں کو بہتر بنانے اور غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کا عمل ہے، کسی کو سزا دینے کا نہیں۔
معلوم ہو کہ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے ایسے ہی ایک جلوس کے دوران دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں تشدد کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک مقامی شخص زخمی ہو گیا تھا۔
تشدد کے واقعہ کے بعد 20 اپریل کو بی جے پی مقتدرہ شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) کی طرف سے انسداد تجاوزات مہم شروع کی گئی تھی، جس سے تنازعہ پیدا ہوگیا تھا۔
الزام ہے کہ مہم کے تحت ملزمین کے مبینہ غیر قانونی تعمیرات کو گرایا جا رہا تھا، جس پر سپریم کورٹ کی روک کے بعد بھی کارروائی نہیں روکی گئی تھی۔ کچھ گھنٹے بعد جب درخواست گزار کے وکلا عدالت واپس آئے تو توڑ پھوڑ کی کارروائی روکی گئی۔
اس کے بعد 21 اپریل کو معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے این ڈی ایم سی کی توڑ پھوڑ مہم پر دو ہفتے کی پابندی لگا دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ 20 اپریل کو ہوئی توڑ پھوڑ کی کارروائی کو نوٹس میں لے گا، جو کارپوریشن کو اس کے فیصلے سے آگاہ کیے جانے کے بعد بھی جاری رہی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، لال پورہ نے کہا، جہاں تک اقلیتوں کے عدم تحفظ کا سوال ہے تو ان کی حفاظت کے لیے کمیشن موجود ہے۔ ان کی تعلیمی اور معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے۔
انہوں نے کہا کہ 13 اپریل سے 2 مئی تک کمیشن کو 123 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 9 کو نمٹا دیا گیا ہے اور 18 دیگر میں رپورٹس طلب کی گئی ہیں۔
کمیشن کو 2021-22 میں 2076 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 1492 کو نمٹا دیا گیا۔ 2020-21 میں 1463 معاملے، جن میں سے 1272 معاملے نمٹا دیے گئے اور 2019-2020 میں 1670 معاملے، جن میں سے 1600 معاملے نمٹا دیے گئے۔
کمیشن اقلیتی امور کی وزارت کی مختلف اسکیموں کی بھی نگرانی کرتا ہے۔ لال پورہ کے مطابق، 2021-22 میں 8601023 درخواست دہندگان میں سے 5650832 کو پری میٹرک اسکالرشپ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ 1947411 درخواست دہندگان میں سے 703346 کو اسی عرصے کے میں پوسٹ میٹرک اسکالرشپ سے نوازا گیا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں