خبریں

فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کو دوسرا پولٹزر ایوارڈ، والد نے کہا – وہ اپنے کام سے ہمیشہ زندہ رہے گا

خبر رساں ایجنسی رائٹرس کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی اور  ان کے ساتھیوں عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو اور امت دوے کو ‘فیچر فوٹوگرافی کے زمرے’ میں پُلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ گزشتہ سال افغانستان میں افغان فوجیوں اور طالبان کے بیچ  گولی باری  کی تصویریں  لینے کے دوران دانش کی موت ہو گئی تھی۔

پولٹزر ایوارڈ جیتنے والے  فوٹو جرنلسٹ (بائیں سے دائیں) عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو، امت دوے اور دانش صدیقی۔ (تصویر: pulitzer.org)

پولٹزر ایوارڈ جیتنے والے  فوٹو جرنلسٹ (بائیں سے دائیں) عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو، امت دوے اور دانش صدیقی۔ (تصویر: pulitzer.org)

نئی دہلی: فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کو دوسرا پلٹزر پرائز دیے جانے پر اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے ان کے والد نے ان کو ایک بہادر، غمگسار، پیشہ ور اور اپنے خاندان کی حفاظت کی فکر کرنے والا بیٹا بتایا۔

دانش کے والد اختر صدیقی نے کہا، ہمیں اس پر فخر ہے، لیکن ہمیں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دانش کے علاوہ  چار ہندوستانیوں کو ‘فیچر فوٹوگرافی زمرہ’ میں باوقار پلٹزر پرائز 2022 سے نوازا گیا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں افغانستان میں 38 سالہ صدیقی کی موت  ہو گئی تھی ۔افغانستان میں افغان فوجیوں اور طالبان کے بیچ گولی باری  کی تصویر لیتے ہوئے ان کی موت ہوگئی تھی۔

صدیقی کو دوسری بار پلٹزر پرائز سے نوازا گیا ہے۔ 2018 میں بھی رائٹرس کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہیں روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران سے متعلق تصویروں  کے لیے پلٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے افغانستان اور ایران کی جنگوں، ہانگ کانگ میں مظاہروں اور نیپال میں زلزلہ جیسے اہم واقعات کی تصویریں  لی تھیں۔

ان کے والد نے کہا، اس ایوارڈ کے بارے میں جان کر اس کو ضرور خوشی  ہوتی ۔ اس نے اپنی لگن ،محنت اور بامعنی کاموں سے  ہمارے خاندان اور صحافتی برادری کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا اپنے کام کی وجہ سے ہمیشہ زندہ ر ہے گا۔

انہوں  نے کہا، دنیا اس کی عزت کر رہی ہے۔ اس کو اس سال اپریل میں بوسٹن یونیورسٹی نے اعزاز سے نوازا تھا۔ اس سے پہلے اور بھی کئی ایوارڈز دیے گئے۔ دنیا اس  کے کام اور خدمات کو تسلیم کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے وہ اپنے کام اور خدمات کو جاری رکھنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ صبح سے ہمیں بہت سے پیغامات مل رہے ہیں۔ اسے  احترام سے یاد کیا جا رہا ہے۔

اہل خانہ  نے ان کی وراثت کو محفوظ  کرنے کے لیے دانش صدیقی فاؤنڈیشن کاقیام کیا ہے۔

دانش کے والد نے کووڈ 19 کی دوسری لہر کے دوران اپنے بیٹے کے کام کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ تمام طرح کے خطرات کے باوجود دانش نے کام جاری رکھا تھا۔

انہوں نے کہا، وہ ملک بھر کے ہسپتالوں، کووڈ وارڈز، مردہ خانوں، قبرستانوں میں گیا۔ ان دنوں اس نے بہت کام کیا۔ اس کا مقصد یہ دکھانا  تھا کہ لوگ کس طرح تکلیف میں ہیں۔ اس نے یہ خطرہ اپنی صحت اور اپنے خاندان کی کی قیمت پر اٹھایا۔

اختر صدیقی نے کہا کہ ان کا بیٹا اپنے دو چھوٹے بچوں اور اپنے بوڑھے والدین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے سلسلے میں  بہت محتاط تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ انفیکشن سے بچاؤ کا خاص  خیال رکھتا تھا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے کہااس نے اپنی صحت  اور اپنے خاندان کی قیمت پر یہ خطرہ مول لیا۔ اسے اپنے فرائض کی انجام دہی سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔

انہوں نے کہا، کام سے گھر واپس آنے کے بعد وہ باہر باتھ روم میں نہاتا تھا اور پھر اندر آ کر الگ کمرے میں رہتا تھا۔ بچے انفیکشن کا شکار ہوگئے تھے لیکن وہ جلد صحت یاب ہو گئے۔ اس نے سب سے زیادہ خیال رکھا۔ اسے بھی کووڈ 19 انفیکشن تھا، لیکن یہ ہلکا تھا۔

رپورٹ کے مطابق،  دانش مہا ماری  کے دوران اپنے والدین سے ملنے سے بھی پرہیز کرتے تھے، جو پانچ سے چھ کلومیٹر دور رہتے تھے اور جب وہ ان سے ملنے جاتے تھے تو الگ کمرے میں رہتے تھے اور وہیں سے بات چیت کرتے تھے۔

دانش صدیقی نے اتراکھنڈ کے بھاگلپور میں دور دراز علاقوں کا سفر کیا، کووڈ وارڈز میں وقت گزارا اور خبروں کی تلاش میں ہر جگہ گئے، خواہ وہ مردہ خانہ ہو یا قبرستان۔

ان کے والد نے کہا، یہ سب اس کے لیے بھی بہت دردناک  تھا۔ کبھی کبھی وہ اس تجربے کو شیئر کرتا تھا، لیکن اگلی صبح وہ دوبارہ کام پر چلا جاتا تھا۔ اس وقت وہ جذباتی طور پر اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں نے کبھی ایسا انسانی المیہ نہیں دیکھا۔ اس نے اس وقت بہت سی ایسی چیزیں دیکھی، جن پر بات کرنا مشکل تھا۔

بتا دیں کہ فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کے علاوہ  چار ہندوستانیوں کو ’فیچر فوٹوگرافی زمرہ ‘ میں باوقار پلٹزر پرائز 2022 سے نوازا گیا ہے۔

‘دی پلٹزر پرائز’ کی ویب سائٹ کے مطابق خبر رساں ادارے ‘رائٹرس’ کے فوٹو جرنلسٹ صدیقی اور ان کے ساتھیوں عدنان عابدی، ثنا ارشاد مٹو اور امت دوے کو یہ ایوارڈ دیا گیا ہے، جس کا اعلان سوموار (9 مئی) کو کیا گیا۔ انہیں ہندوستان میں کووڈ-19 سے متعلق تصاویر کے لیے اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

صدیقی نے اپنی ماسٹرز کی ڈگری جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے حاصل کی تھی۔

دانش صدیقی کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ دیا گیا ہے۔

دانش صدیقی کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ دیا گیا ہے۔

امت دوے کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ ملا ہے۔

امت دوے کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ ملا ہے۔

ثنا ارشاد مٹو کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ دیا گیا ہے۔

ثنا ارشاد مٹو کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ دیا گیا ہے۔

عدنان عابدی کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

عدنان عابدی کو اس تصویر کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ‘لاس اینجلس ٹائمز’ کے مارکس یام کو ‘بریکنگ نیوز فوٹوگرافی کے زمرہ ‘ میں ایوارڈ ملا۔ انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے لوگوں کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کو ظاہر کرنے والی تصویریں  لی تھیں۔

دی واشنگٹن پوسٹ‘ کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں 6 جنوری کی بغاوت کی کوریج کے لیے پبلک سروس جرنلزم میں پلٹزر پرائز ملا۔

ایوارڈ کمیٹی کے مطابق، اخبار نے 6 جنوری 2021 کو واشنگٹن پر حملے کے بارے میں جادوئی انداز میں بتایا  اوراس کو بہترین انداز میں پیش کیا، جس سے عوام کو ملک کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک کے بارے میں مکمل طور پر آگاہی ملی۔

گیٹی امیجز کے ون میکنیمی، ڈرو اینگرر، سپینسر پلیٹ، سیموئل کورم اور جان چیری کو بھی ‘بریکنگ نیوز فوٹوگرافی زمرے’ میں پلٹزر پرائز ملا۔ انہوں نے امریکی پارلیامنٹ پر حملے سے متعلق تصویریں  کھینچی تھیں۔

سال 1912 میں، کولمبیا یونیورسٹی نے مختلف زمروں میں پولٹزر ایوارڈدیےجانے  کے منصوبے کو منظوری دی۔ اس کی بنیاد ہنگری نژاد امریکی فوٹو جرنلسٹ جوزف پلٹزر نے رکھی تھی۔پولٹزر ایوارڈ پہلی بار 1917 میں دیے گئے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)