تین ہندو سنتوں – یتی نرسنہانند، بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو مبینہ طور پر نفرت پھیلانے والا کہنے پر ‘آلٹ نیوز’ ویب سائٹ کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیر آباد پولیس اسٹیشن میں ایک جون کومقدمہ درج کیا گیا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نےکہا کہ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ زبیر نے جرم کیا ہے اوراس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ٹوئٹر پر تین ہندو سنتوں یتی نرسنہانند سرسوتی، بجرنگ منی اور آنند سوروپ کومبینہ طور پر نفرت پھیلانے والا کہنے پر آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف درج ایف آئی آر کو رد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ زبیر نے جرم کیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
جسٹس رمیش سنہا اور اجے کمار سریواستو کی بنچ نے زبیر کی درخواست کو خارج کرتے ہوئےکہا کہ ریکارڈ کا جائزہ لینے سےپہلی نظر میں اس مرحلے پر درخواست گزار کے خلاف جرم کا پتہ چلتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں جانچ کے لیے خاطر خواہ بنیاد ہے۔
ہندو رہنماؤں کے مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنے کے الزام میں زبیر کے خلاف اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں ایک جون کوآئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے یا مذہبی عقائد کی توہین کے لیے دانستہ طور پر کیا گیا فعل) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 (الکٹرانک شکل میں فحش مواد کی اشاعت یا ترسیل) کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔
درخواست گزار زبیر نے ایف آئی آر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ٹوئٹ میں کسی طبقے کے مذہبی عقیدے کی توہین یا توہین کرنےکی کوشش نہیں کی گئی تھی اور درخواست گزار کے خلاف بالواسطہ مقصد سے ہراسانی کے لیےایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری وکیل نے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ زبیر ایک عادتاً مجرم ہیں اور ان پر چار مجرمانہ مقدمات کی تاریخ ہے۔
درخواست گزار کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ مکمل چھان بین کے بعد شواہد اکٹھے کیے جانے چاہیے اور متعلقہ عدالت کے سامنے رکھے جانے چاہیے۔ ان حقائق کی سچائی تحقیقات یا مقدمے میں ہی ثابت ہو سکتی ہے، اس لیے ایف آئی آر کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
گزشتہ 27 مئی کو ٹوئٹس کی ایک سیریز میں زبیر نے ہندوستانی نیوز ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والے پرائم ٹائم مباحثے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں انہوں نے گیان واپی مسجد پر جاری تنازعہ کے حوالے سے کہا تھا، یہ (ٹی وی نیوز چینل) نفرت پھیلانے والوں کے لیے دوسرے مذاہب کے بارے میں بیہودگی کا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔
ٹائمز ناؤ چینل پر اس کی اینکر نویکا کمار کے ذریعے منعقد بحث ‘دی گیان واپی فائلز’ کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے انہوں نے ٹوئٹ کیا:تھا
‘اچھا کیا… @vineetjaintimes! ہمیں یتی نرسمہانند سرسوتی یا مہنت بجرنگ منی یا آنند سوروپ جیسے نفرت پھیلانے والوں کی ضرورت کیوں ہے، جو ایک کمیونٹی اور ایک مذہب کے خلاف بولنے کے لیے دھرم سنسد کا اہتمام کرتے ہیں، جبکہ ہمارے پاس پہلے سے ہی اینکر موجود ہیں، جو نیوزاسٹوڈیو سےبہت بہتر کام کر سکتے ہیں۔
واضح ہو کہ کٹر ہندوتوا رہنما اور جونا اکھاڑے کے مہامنڈلیشور یتی نرسنہانند گری نفرت انگیز تقریر اور تشدد کی اپیل کے لیے معروف ہیں، جس میں سب سے قابل ذکر 2020 کےدہلی فسادات سے قبل بھیڑ کو جمع کرنے اور بھڑکانے میں ان کی شمولیت ہے، جس کی دی وائرنےتحقیقات کی تھی۔
وہ نفرت انگیز جرائم اور مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر میں ملوث دائیں بازو سے وابستہ افراد کے نیٹ ورک کا حصہ رہے ہیں، نیز بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور اشونی اپادھیائے (جو ہری دوار دھرم سنسد میں موجود تھے) کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ نرسنہانند فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔
اس کےساتھ ہی بتادیں کہ اتر پردیش کے ضلع سیتا پور کے بڑی سنگت آشرم کے پجاری مہنت بجرنگ منی نے 2 اپریل کو ہندو نئے سال کے موقع پر پولیس کی موجودگی میں مسلم خواتین کے ساتھ ریپ کی دھمکی دی تھی، جس کے بعدانہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں ضمانت مل گئی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں