خبریں

بلقیس کیس: این ایچ آر سی کی سابق رکن نے کہا – سزا معافی سے ’قانون کا راج‘ کمزور ہوا

سپریم کورٹ کی سابق جج سجاتا منوہر 2003 میں اس وقت نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رکن تھیں، جب کمیشن نے بلقیس بانو گینگ ریپ  کیس میں مداخلت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم خواتین کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتے۔ یہ سزا معافی ان کے تحفظ کے سلسلے  میں مثبت  پیغام نہیں ہے۔

اپریل 2019 میں دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران  بلقیس اپنے شوہر کے ساتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اپریل 2019 میں دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران  بلقیس اپنے شوہر کے ساتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی سابق جج سجاتا منوہر 2003 میں اس وقت نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رکن تھیں، جب کمیشن نے بلقیس بانو کی جانب سے کیس میں مداخلت کی تھی۔

انہوں نے گزشتہ دنوں 2002 کے گجرات فسادات کیس میں گینگ ریپ اور قتل کے 11 مجرموں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو ‘قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے’ کے مترادف قرار دیا ہے۔

سابق جج نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، خاص طور پر ایسے معاملے میں مجرموں کی رہائی کا فیصلہ اس طرح سے  نہیں لیا جا سکتا۔ جب عدالت نے انہیں مجرم قرار دے کر سزا سنائی ہے تو انہیں اس طرح سے رہا کرنا قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنا ہے۔

بتا دیں کہ 15 اگست کو گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت 11 مجرموں کی عمر قید کی سزا معاف کر دی تھی، جس کے بعد انہیں 16 اگست کو گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ  اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  ان لوگوں  کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی ہے۔

غورطلب  ہے کہ 2003 میں این ایچ آر سی نے اس معاملے میں مداخلت کی تھی، جس کی وجہ سے گجرات پولیس کی طرف سے کیس بند کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرنے میں بانو کو قانونی مدد مل سکی تھی۔

مارچ 2002 میں جب کمیشن کے اس وقت کے چیئرمین گودھرا میں ایک ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے گئے تھے، توکمیشن نے بلقیس سے بھی ملاقات کی تھی۔ جسٹس منوہر اس وقت کمیشن کی رکن تھیں،جنہوں نے سپریم کورٹ میں بلقیس کی نمائندگی کے لیے سینئر وکیل اور سابق سالیسٹر جنرل ہریش سالوے کو مقرر کیا تھا۔

سالوے نے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کی طرف سے از سر نو جانچ کرانے  اور بعد میں اس مقدمے کو گجرات سے ممبئی منتقل کرنے کے لیے بحث کی تھی۔ بانو کا معاملہ گجرات فسادات سے متعلق  واحد کیس تھا، جس کی سی بی آئی نے نئے سرے سے تفتیش کی تھی۔

اب جسٹس منوہر نے کہا، یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ معاملے نے یہ موڑ لے لیا ہے۔ ہم خواتین کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں لیکن ہم ان کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتے۔ یہ معافی خواتین کے تحفظ کے بارے میں صحیح پیغام نہیں دیتی۔

رہائی کی سفارش کرنے والے پینل کے ایک رکن بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نےریپسٹ کو ‘اچھے سنسکاروں’  والا ‘برہمن’ بتایا تھا۔

 گجرات حکومت کے اس فیصلے پر وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا، یہ سال 2022 ہے لیکن میں وہی خوف، عدم تحفظ اور ناامیدی محسوس کر رہی ہوں جیسا 2002 میں محسوس کر رہی  تھی۔ اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بدلا ہی نہیں  ہے۔ یہ 2002 جیسا ہی لگ رہا ہے۔

سال 2002 میں پیش آئے اس  واقعے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنے والی بلقیس نے کہا تھا کہ اب ان میں صبر ہے نہ ہمت۔ انہوں  نے کہا، میں بہت مایوس ہوں۔ ہم ہار گئے۔

انہوں نے مزید کہا، آزادی کا دن ہمارے لیے بری خبر لے کر آیا۔ میری آزادی، حقوق، تحفظ سب چھین لیے گئے۔ میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی میری مدد کر سکتا ہے؟ ہاں، میں اپنی لڑائی  ہار چکی  ہوں۔

قصورواروں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کی اپوزیشن جماعتوں سمیت سماجی اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مذمت کی ہے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔