داہود کے ڈی ایم کوسونپے گئے گئے میمورنڈم میں رندھیک پور کی مسلم کمیونٹی نے کہا ہے کہ وہ خوف کے مارے گاؤں چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ انہیں تحفظ،بالخصوص خواتین کی فکر ہے۔ جب تک ان ملزمین کی گرفتاری نہیں ہوتی وہ، واپس نہیں آئیں گے۔ 2002 کے فسادات میں رندھیک پورگاؤں میں ہی بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا اور ان کے خاندان کوقتل کیا گیا تھا۔
نئی دہلی: گجرات کے داہود ضلع کے رندھیک پور گاؤں کے ایک شخص نے منگل کو دعویٰ کیا کہ 2002 کے فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کے سزا کاٹ رہے 11 قیدیوں کی رہائی کے بعد سکیورٹی خدشات کی وجہ سے کئی مسلمان گاؤں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
واضح ہو کہ یہ واقعہ اسی گاؤں میں پیش آیا تھا، بتایا گیا ہے کہ پولیس نے رندھیک پور میں سکیورٹی بڑھا دی ہے، لیکن پولیس نے اس بات کی تردید کی کہ گاؤں والے نقل مکانی کررہے ہیں۔ تاہم پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ کچھ لوگ گاؤں چھوڑ چکے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات کے دوران رندھیک پور گاؤں میں ہی 3 مارچ 2002 کوبلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا اور ان کے خاندان کے لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔
بتادیں کہ بلقیس بانو کیس میں 14 سال جیل کی سزاکاٹنے کےبعد پندرہ اگست کو گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت 11 مجرموں کی عمر قید کی سزا معاف کر دی تھی، جس کے بعد انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
رندھیک پور کے رہنے والے شاہ رخ شیخ نے کہا کہ 70 مسلم خاندان خوف کے سایے میں جی رہے ہیں، جبکہ بہت سے دوسرے لوگ نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں میں اپنے رشتہ داروں اور خیر خواہوں کے ساتھ رہنے چلے گئے ہیں۔
یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والے شیخ نے کہا، ہم ڈرے ہوئے ہیں۔ مجرموں کی رہائی کے بعد ان کی طرف سے تشدد کے خوف سے کئی لوگ گاؤں چھوڑ چکے ہیں۔ ہم نے ضلع مجسٹریٹ سے اپیل کی ہے کہ مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے اور گاؤں والوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، کچھ لوگوں نے داہود ضلع کے دیوگڑھ بریا تعلقہ میں راہی-مباد ریلیف کالونی میں پناہ لی ہے۔
اخبار نے اطلاع دی ہے کہ جب ان کے نمائندے نے سوموار کو اس کالونی کا دورہ کیا تو رندھیک پور کے لوگ اپنا سامان ٹیمپوسے یہاں لا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس وقت تک یہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک کہ مجرموں کی رہائی کے بارے میں کوئی ‘فیصلہ’ نہیں لیا جاتا۔
اتوار کو اپنی ماں اور بہن کے ساتھ کالونی پہنچی 24 سالہ سلطانہ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، گزشتہ ہفتے سے کمیونٹی میں خوف ہے… کوئی سیدھی دھمکی نہیں ملی، لیکن ان کا استقبال اور گاؤں میں پھیلی خوشی… ہم پریشان ہو گئے اور چلے آئے کیونکہ ہم وہاں محفوظ محسوس نہیں کر رہے تھے۔ جب وہ پیرول پر باہر آئے تو یہ بات الگ تھی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ وہ آخر کار قیدی ہی تھے لیکن اب تو انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
سلطانہ اور ان کی والدہ یومیہ اجرت پر کام کرتی ہیں۔ ان کی ماں نے یاد کیا کہ کس طرح وہ 2002 میں چار سالہ سلطانہ کے ساتھ بھاگ کر رندھیک پور پہنچی تھی۔ انہوں نے کہا، اس وقت کی خوفناک تصویریں یاد آ رہی ہیں… اگرچہ ہم خوش قسمت تھے کہ ہم زندہ رہے، لیکن اب ہم اس سسٹم پر بھروسہ نہیں کر سکتے… ہم میں سے کسی میں بھی اس طرح کی ہمت نہیں ہے جو بلقیس نے گزشتہ 20 سالوں میں دکھائی ہے۔ جب ہم یہاں آ رہے تھے تو قیصر پورہ کے قریب راستے میں حکمران جماعت کا ایک بڑا قافلہ نظر آیا اور ہم کافی ڈر گئے۔
یہاں بلقیس کے ایک رشتہ دار بھی رہتے ہیں۔ اس اخبار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، انہوں نے میری بہنوں، گھر کی باقی عورتوں اور لوگوں کے ساتھ جو کچھ بھی کیا اس کے باوجود ا ن کو رہا کر دیا گیا… وہ گاؤں، بازار میں گھوم ر ہے ہیں اور یہ ڈرانے والا ہے۔ میرے پاس گھر چھوڑنے اور اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کے ساتھ اس کالونی میں آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔
داہود کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو سوموار کو سونپے گئے میمورنڈم میں مسلم کمیونٹی نے اپنے خوف کی بات کرتے ہوئے کہا کہ رندھیک پور گاؤں کے بہت سے باشندے گاؤں چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے معافی کے فیصلے پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ گجرات حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج میں ریلی نکالنے کی بھی اجازت مانگی ہے۔
گاؤں والوں نے کہا کہ وہ اس لیے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنی سکیورٹی ، خاص طور پر خواتین کے لیے ڈر تھا۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ جب تک 11 ملزمان گرفتار نہیں ہوتے وہ واپس نہیں آئیں گے۔
پولیس نے کہا کہ مجرموں کا تعلق رندھیک پور کے قریب ایک گاؤں سے ہے اور وہ علاقے میں موجود نہیں ہیں، لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ کچھ گاؤں والے گاؤں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) آر بی دیودھا نے کہا، مقامی لوگوں سے بات کرنے کے بعد ہم نے کچھ جگہوں پر پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا ہے اور گشتی بڑھا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے چلے گئے ہیں۔ پولیس رندھیک پور میں لوگوں سے رابطے میں ہے اور ان کے خدشات کودور کر رہی ہے۔
داہود کے پولیس سپرنٹنڈنٹ بلرام مینا نے کہا کہ 11 مجرم رندھیک پور کے قریب سنگواڑ گاؤں کے رہنے والے ہیں، لیکن وہ علاقے میں موجود نہیں ہیں۔
مینا نے کہا، مجرموں کو 15 اگست کو رہا کیا گیا تھا۔ آج 23 اگست ہے۔ اگر کوئی نقل مکانی ہوتی تو ہمیں پتہ ہوتا۔ نیز رہائی پانے والے مجرم خود بھی علاقے میں موجود نہیں ہیں۔ وہ چلے گئے ہیں۔ہمیں مقامی لوگوں کے ڈرنے اور بھاگنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
واضح ہو کہ رہائی کی سفارش کرنے والے پینل کے ایک رکن بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نےریپسٹ کو ‘اچھے سنسکاروں’ والا ‘برہمن’ بتایا تھا۔
گجرات حکومت کے اس فیصلے پر وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا، یہ سال 2022 ہے لیکن میں وہی خوف، عدم تحفظ اور ناامیدی محسوس کر رہی ہوں جیسا 2002 میں محسوس کر رہی تھی۔ اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بدلا ہی نہیں ہے۔ یہ 2002 جیسا ہی لگ رہا ہے۔
سال 2002 میں پیش آئے اس واقعے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنے والی بلقیس نے کہا تھا کہ اب ان میں صبر ہے نہ ہمت۔ انہوں نے کہا، میں بہت مایوس ہوں۔ ہم ہار گئے۔
انہوں نے مزید کہا، آزادی کا دن ہمارے لیے بری خبر لے کر آیا۔ میری آزادی، حقوق، تحفظ سب چھین لیے گئے۔ میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی میری مدد کر سکتا ہے؟ ہاں، میں اپنی لڑائی ہار چکی ہوں۔
قصورواروں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کی اپوزیشن جماعتوں سمیت سماجی اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مذمت کی ہے۔
غورطلب ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔
تین مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔
بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔
خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔
بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت کرناہے۔
اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں