اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے تناظر میں کہا کہ اگر اپوزیشن تمام لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی سے مقابلہ کرنے کے بجائے وزیر اعظم کے امیدوار کا چہرہ پیش کرکے نریندر مودی سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گی تو بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
نئی دہلی : آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ہفتے کے روز کہا کہ اگلے لوک سبھا انتخابات کے بعد ہندوستان کو ایک کمزور وزیر اعظم اور کئی جماعتوں کی مدد سے بننے والی ‘کھچڑی’ حکومت کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرے کے کمزور طبقے کو فائدہ پہنچ سکے۔
انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایک طاقتور وزیراعظم صرف طاقتور لوگوں کی مدد کرتا ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے عام آدمی پارٹی (عآپ) پر سخت حملہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ وہ گجرات میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے مختلف نہیں ہے، کیونکہ اس نے بلقیس بانو کیس میں مجرموں کی متنازعہ رہائی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی ایم آئی ایم دسمبر میں ہونے والے گجرات اسمبلی انتخابات میں اپنے امیدوار اتارے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے کہا کہ جواہر لعل نہرو کے بعد سب سے طاقتور وزیر اعظم نے بے روزگاری، مہنگائی، چین کی دراندازی، کارپوریٹ ٹیکس میں چھوٹ اور صنعت کاروں کے بینک قرضوں سے متعلق سوالات پر ‘سسٹم’ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
انہوں نے کہا، میں مانتا ہوں کہ ملک کو اب ایک کمزور وزیر اعظم کی ضرورت ہے۔ ہم نے ایک طاقتور وزیر اعظم دیکھا ہے، اب ہمیں ایک کمزور وزیر اعظم کی ضرورت ہے تاکہ وہ کمزور لوگوں کی مدد کر سکے۔ ایک طاقتور وزیراعظم صرف طاقتور کی مدد کر رہا ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ملک کو ایک ‘کھچڑی’ حکومت کی ضرورت ہے۔ کھچڑی سرکار کا مطلب ہے مختلف جماعتوں کے تعاون سے قائم ہونے والی مخلوط حکومت۔
اویسی نے کہا، جب ایک کمزور آدمی وزیر اعظم بنتا ہے تو کمزور کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن جب مضبوط آدمی وزیر اعظم بنتا ہے تو طاقتور کو فائدہ ہوتا ہے۔ یہ 2024 (لوک سبھا انتخابات) کی کوشش ہونی چاہیے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
‘مفت کی ریوڑی’ کی تقسیم پر جاری سیاسی بحث پرانہوں نے کہا، ‘جسے آپ سوغات کہتے ہیں، وہ سب کی طرف سے دی جارہی ہے۔ وزیراعظم کارپوریٹ ٹیکس اور صنعتکاروں کےقرض معاف کرتے ہیں۔ عآپ بھی بی جے پی سے مختلف نہیں ہے۔ دونوں ایک ہی بات کہتے رہتے ہیں۔عآپ نے بلقیس بانو کیس میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو کچھ لوگوں کی طرف سے 2024 میں اپوزیشن کے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کیے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر اویسی نے کہا کہ اگر اپوزیشن نے چہروں کو پیش کرکے مودی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا،اس کے بجائےہم سب کو تمام لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
نتیش کمار کو نشانہ بناتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم سربراہ نے کہا کہ بہار کے وزیر اعلیٰ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بی جے پی کے اتحادی تھے، انہوں نے بھگوا پارٹی کے ساتھ حکومتیں بنائیں اور اب انہوں نے کسی اور سے ہاتھ ملا لیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، نتیش کے حوالے سےانہوں نے کہا، اگرچہ انہوں نے 2015 میں انہیں (بی جے پی) چھوڑ دیا تھا، لیکن وہ 2017 میں دوبارہ ان کے ساتھ مل گئے اور نریندر مودی کو 2019 کے انتخابات جیتنے میں مدد کی۔ اب انہوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
موجودہ مرکزی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کرنے والی ایک اور رہنما مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو بھی نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا، انہوں نے ماضی میں آر ایس ایس کی تعریف کی تھی۔
اویسی نے مزید کہا، یہ ایک طرح کی منافقت ہے کہ جو لوگ آج سیکولرازم کے ماہر ہونے کا ڈھونگ کر رہے ہیں وہ فیصلہ کریں گے کہ کون سیکولر ہے اور کون فرقہ پرست۔ ملک انہیں دیکھ رہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا، حکمران بی جے پی کے پاس لوک سبھا میں 306 سیٹیں ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعظم مودی کو شکایت ہے کہ ‘سسٹم’ انہیں کام کرنے نہیں دیتا۔ اگر آپ آٹھ سال سے وزیر اعظم ہیں اور پھر بھی اس طرح کے بیانات دیتے ہیں تو براہ کرم مجھے بتائیں کہ آپ اور کون سے اختیارات چاہتے ہیں؟
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے ہندوتوا کے بڑےعلمبردار بننے کی ہوڑ میں ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں