کٹر ہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند نے علی گڑھ میں منعقد ایک تقریب میں ایک خاص مذہب کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کیا تھا، جس کے بعد ان کے ساتھ ساتھ اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی قومی جنرل سکریٹری پوجا شکن پانڈے اور ان کے شوہر کے خلاف بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: ایک مذہبی تقریب میں دوسری کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے کے الزام میں پولیس نے اتوار کی رات یتی نرسنہانند، اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی قومی جنرل سکریٹری پوجا شکون پانڈے اور ان کے شوہر اشوک پانڈے کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے سوموار کو یہ جانکاری دی۔ نرسنہانند اتر پردیش کے غازی آباد ضلع میں واقع داسنہ دیوی مندر کے چیف مہنت ہیں۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ (سٹی) کلدیپ سنگھ گناوت نے سوموار کو صحافیوں کو بتایا کہ ان تینوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
گناوت نے کہا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 188 (سرکاری ملازم کے ذریعہ جاری کردہ حکم کی نافرمانی)، 295اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی حرکتیں، کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے مقصد سے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین)، 298 (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے بیان دینا وغیرہ)، 505 (2) (طبقوں کے درمیان دشمنی، نفرت یا تعصب کو فروغ دینا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تقریب پیشگی اجازت کے بغیر منعقد کی گئی تھی۔
غورطلب ہے کہ اتوار کو سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تقاریر کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا تھا۔ اس ویڈیو کلپ میں نرسنہانند مبینہ طور پر قرآن کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرتے ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور مدارس کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ویڈیو کلپ میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے اداروں کو گرا دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، مدارس تو ہونے ہی نہیں چاہیے۔ جتنے بھی مدارس ہیں ، ان کو بارود سے اڑا دینا چاہیے… اورجیسے چین کرتا ہے نہ … مدارس کے تمام طلبہ کو ایسے کیمپوں میں بھیج دینا چاہیے جہاں سے ان کےدماغ سے قرآن نام کا وائرس نکالا جا سکے۔
اسکرول کی رپورٹ کے مطابق، نرسنہانند نے علی گڑھ کو ایسی جگہ قرار دیا جہاں’تقسیم ہند کا بیج’ بویا گیا تھااور کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کو بم سےاڑا دینا چاہیے۔
ہیٹ اسپیچ پر ان کے خلاف ہوئی قانونی کارروائی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ‘کورٹ کیس ہوتے رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں، اس کے لیے بھی مجھ پر مقدمہ ہو جائے۔
انہوں نے یہ تبصرے 18 ستمبر کو علی گڑھ میں ہندو مہاسبھا کے زیر اہتمام ایک تقریب میں کیے۔
اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق لیڈروں سمیت کئی مسلم نوجوان لیڈروں نے قرآن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز بیانات کے لیے ان تینوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے تینوں پر جان بوجھ کر ملک میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔
معلوم ہو کہ کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند اتر پردیش کے غازی آباد واقع ڈاسنہ مندر کے پجاری ہیں، جو اپنے بیانات کی وجہ سے پہلے بھی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
بتادیں 3 اپریل کو شمالی دہلی کے براڑی میں منعقد ‘ہندو مہاپنچایت’ پروگرام میں نرسنہانند نے ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی تھی۔ اس سلسلے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیاتھا۔
دھرم سنسد کیس میں گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے نرسنہانند نے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کی تھیں۔
اس معاملے میں عدالت کی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کے لیے نرسنہانند اور دیگر مقررین کے خلاف مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن میں ہیٹ اسپیچ کے باعث ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
شدت پسندہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند ہری دوار دھرم سنسد کے منتظمین میں سے ایک تھے۔ گزشتہ سال دسمبر میں اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں منعقد ‘دھرم سنسد’ میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھلے عام ہیٹ اسپیچ کے ساتھ ان کے قتل عام کی اپیل کی گئی تھی۔
دھرم سنسد میں یتی نرسنہانند نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے کہا تھاکہ جو شخص ‘ہندو پربھاکرن’ بنے گا وہ اسے ایک کروڑ روپے دیں گے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں