ٹوئٹر نے کرناٹک ہائی کورٹ میں بتایا کہ حکومت نے اسےکسی ایک ٹوئٹ کی بنیاد پر پورے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کو کہا تھا، حالانکہ آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 69 (اے) پورے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس کی دفعہ کے تحت صرف کسی خاص انفارمیشن یا ٹوئٹ کو بلاک کرنے کی اجازت ہے۔
نئی دہلی: سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر نے سوموار کو کرناٹک ہائی کورٹ میں کہا کہ مرکزی حکومت کسانوں کی تحریک اورکووڈ کی مبینہ بدانتظامی سے متعلق سیاسی مواد کے باعث صرف ان متعلقہ ٹوئٹ کے بجائے صارف کا پورا اکاؤنٹ بلاک کرنے کے لیے کہہ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ٹوئٹر کی جانب سے پیش ہوئےسینئر ایڈوکیٹ اروند داتار نے دلیل دی کہ کمپنی کو پورے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کے لیے کہا گیا تھا، حالانکہ آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 69 (اے) پورے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ صرف ایکٹ کی دفعہ کے تحت انفارمیشن یا کسی خاص ٹوئٹ کو بلاک کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
ہائی کورٹ کچھ اکاؤنٹ، یو آر ایل اور ٹوئٹ بلاک کرنے کے مرکزی حکومت کے حکم کے خلاف ٹوئٹر کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔
ٹوئٹر نے اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کیے جانے اورمواد کو ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ہدایت دینے سے قبل مبینہ خلاف ورزی کرنے والوں کو نوٹس جاری نہیں کیے جانے کی بنیاد پر حکومتی احکامات کو چیلنج کیا تھا۔
ٹوئٹر کی جانب سےسینئر وکیل اروند داتار نے دلیل دی کہ کمپنی انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کے طے شدہ اصولوں پر عمل پیرا ہے۔
ٹوئٹر نے کہا کہ ملزم (خلاف ورزی کرنے والوں ) کو نوٹس جاری کیے بغیر اس کو متعدد اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی کرنے کو کہے جانے سے ایک پلیٹ فارم کے طور پروہ متاثر ہوا ہے۔
کمپنی کی جانب سے ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے داتار نے دلیل دی کہ مبینہ خلاف ورزی کرنے والوں کو نوٹس جاری کیے بغیراس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ کو ہٹانے کے لیے کہے جانے سےٹوئٹر ایک پلیٹ فارم کے طور پر مرکز کی طرف سے سے متاثر ہوا ہے۔
ان کے مطابق، مرکز نے بہت سے اکاؤنٹ کو بند کرنے کو کہا، جس سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹوئٹر پر کئی بڑی شخصیات کے اکاؤنٹ ہیں۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، داتار نے کہاجب آپ بلاک کرنے کا آرڈر پاس کرتے ہیں، تو یہ میڈیم اور شخص دونوں کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ یہ پلیٹ فارم کو انفارمیشن کی تشہیر سے روکتا ہے۔
داتار نے سپریم کورٹ بنام شریا سنگھل کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ اکاؤنٹ بلاک کرنے کا حکم دینے سے پہلے ٹوئٹر جیسے میڈیم کو نوٹس جاری کیا جانا اور ان کی بات سننا لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وزارت کی طرف سے جاری کیا گیا اس طرح کا حکم سپریم کورٹ کے فیصلے اور متعلقہ ایکٹ (انفارمیشن ٹکنالوجی بلاک ایکشن رولز 6 اور 8) کے خلاف ہے۔
سینئر وکیل نے اکاؤنٹ بلاک کرنے کےلیے دیے گئے ایک حکم کی مثال دی، جس میں ٹوئٹر کو 1178 اکاؤنٹ بلاک کرنے کو کہا گیا تھا۔
داتار نے دلیل دی کہ ٹوئٹر خود ان ٹوئٹ کو بلاک کرتا ہے جسے وہ نامناسب سمجھتا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر خالصتان کی حمایت کرنے والے ٹوئٹ کو بلاک کرنے کی مثال بھی دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کو مرکزی حکومت نے جن ٹوئٹ کو بلاک کرنے کے لیے کہا تھا، ان میں سے 50 سے 60 فیصد ٹوئٹ نقصاندہ نہیں تھے۔
انہوں نےدہلی میں کسانوں کے مظاہرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں نشرشدہ مواد کو ٹوئٹر پر بلاک کرنے کو کہا گیا تھا۔
انہوں نے کہا،مثال کے طور پر، دہلی میں کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے دوران مجھ سے ایک اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کو کہا گیا تھا۔ جبکہ ٹی وی اور پرنٹ میڈیا خبریں شائع/ نشر کر رہے ہیں۔ تو صرف مجھے (ٹوئٹر کو) اکاؤنٹ بلاک کرنے کے لیے کیوں کہا جا رہا ہے؟
داتار نے کہا کہ غیر مناسب لگنے والی ٹوئٹ کو بلاک کرنے کے بجائے سیاسی مواد والے اکاؤنٹ کو ہی بلاک کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
سیاسی تنقید کے لیے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کے بارے میں داتار نے کہا، (آئین) کے آرٹیکل 19 (1) (اے) کی بنیاد میں تنقید کا حق شامل ہے… اظہار رائے کی آزادی میں حکومت پر تنقید کرنے کا حق بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آپ قانون کے دائرے میں رہ کر تنقید کرسکتے ہیں۔ آپ کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، جسٹس دکشت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے اس بات کا تقابلی تجزیہ طلب کیا کہ دنیا بھر کی دیگر عدالتوں نے اس طرح کے مسائل سے کیسے نمٹا ہے۔
جولائی میں ٹوئٹر نے الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت کی طرف سے جاری کردہ دس بلاکنگ آرڈرز کو چیلنج دیتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
کمپنی نے 2 فروری 2021 سے 28 فروری 2022 تک وزارت کی جانب سےبلاک کرنے کے احکامات کو، یہ کہتے ہوئے چیلنج دیا ہے کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور حکام کے ذریعے مبینہ خلاف ورزی کرنے والوں کو نوٹس جاری کیے بغیر ٹوئٹر سے مواد ہٹانے کے لیے کہنا اصول کے مطابق نہیں ہے۔
ٹوئٹر کی عرضی میں کہا گیا تھا کہ آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 69 (اے) کے تحت مواد کو ‘بلاک’ کرنے کے لیے متعدد احکامات جاری کیے گئے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ متعلقہ مواد دفعہ 69 (اے) کی خلاف ورزی کیسے کرتا ہے۔ ٹوئٹر نے عدالت سے مواد کو ‘بلاک’ کرنے کے احکامات کا عدالتی جائزہ لینے کی درخواست کی تھی۔
الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے 1 ستمبر کو ٹوئٹر کی عرضی پر 101 صفحات پر مشتمل بیان داخل کیا تھا۔
ہائی کورٹ میں کیس کی اگلی سماعت 17 اکتوبر کو ہوگی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں