خبریں

بلقیس بانو کیس کے مجرموں کو مرکزی حکومت کی منظوری سے رہا کیا گیا: گجرات حکومت

سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کیس کے11 قصورواروں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف دائرعرضی  کے جواب میں گجرات حکومت نے کہا ہے کہ اس فیصلے کو مرکزی وزارت داخلہ نے منظوری دی تھی۔ حکومت کے حلف نامہ کے مطابق، سی بی آئی، اسپیشل کرائم برانچ ممبئی اور سی بی آئی کورٹ نے سزامعافی کی مخالفت کی تھی۔

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات حکومت نے سوموار کو سپریم کورٹ میں کہا کہ بلقیس بانو گینگ ریپ معاملے میں11 قصورواروں کو معافی دینے کے لیے مرکزی حکومت سے منظوری لی گئی تھی۔

لائیو لاء کے مطابق، 17 اکتوبر کو عدالت کے سامنے گجرات سرکار نے  بتایا کہ 11 جولائی 2022 کو لکھے گئے خط کے توسط سے مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعےگجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کے رشتہ داروں کے قتل کے قصوروار ٹھہرائے  گئے گیارہ لوگوں کی  سزا معافی اور قبل از وقت رہائی کو منظور دی گئی تھی۔

ریاستی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) لیڈر سبھاشنی علی، آزاد صحافی ریوتی لال اور لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما کی طرف سے مجرموں کی رہائی کے خلاف دائر کی گئی پی آئی ایل  پر اپنا جواب داخل کیا ہے۔

اپنے حلف نامے میں حکومت نے کہا کہ ،ان کا [مجرموں کا] سلوک اچھا پایا گیا تھا، اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ  قید میں  چودہ سال گزار چکے تھے۔

غور طلب ہے کہ  گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی پالیسی کے تحت عمر قید کی سزا کاٹ رہے ان  تمام 11 مجرموں کی رہائی کو منظوری دی تھی ، جس کے بعد ان سب کو 16اگست کو گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ  اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  ان لوگوں  کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔

گجرات حکومت نے کہا کہ چونکہ اس کیس کی تحقیقات سی بی آئی نے کی تھی، اس لیے اس نے قصورواروں کو معافی دینے کے لیے مرکز سے ‘مناسب احکامات’ لے لیے تھے۔

گجرات حکومت نے عدالت عظمیٰ کے سامنےبتایاکہ معافی کا فیصلہ 9 جولائی 1992 کی اس کی معافی  پالیسی کے مطابق لیا گیا تھا، ‘جس کی ہدایت  عدالت عظمیٰ نے دی  تھی’ نہ کہ ‘آزادی کے امرت مہوتسو’ کے حصے کے طور پر’ قیدیوں کو  دینے والے سرکلر کے تحت۔

گجرات حکومت کے محکمہ داخلہ میں انڈر سکریٹری میور سنگھ میتوبھا واگھلے کی جانب سے داخل حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ، میں ادب کے ساتھ یہ بتاتا ہوں کہ جن حالات میں یہ عرضی دائر کی گئی ہے، ان کو دیکھنے پر پتہ چلا ہے کہ عرضی گزار مظلوم نہیں بلکہ ایک اجنبی ہے۔

عرضی  کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے حکومت نے کہا کہ عرضی  گزار کسی بھی طرح سے اس کارروائی سے منسلک نہیں ہیں، جس کے تحت مجرموں کو سزا دی گئی تھی، اور نہ ہی جس کے نتیجے میں  مجرموں کی سزا کو معاف کیا گیا تھا۔

گجرات حکومت نے یہ کہتے ہوئے اس عرضی کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ اس معافی کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار کچھ نہیں بلکہ ‘دوسروں کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والے’ ہیں اور ‘ان کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے’ اور عرضی ‘سیاسی سازش’ کا حصہ  ہے۔

لائیو لاء کے مطابق، سی بی آئی، ممبئی کی اسپیشل کرائم برانچ اور سی بی آئی عدالت نے مجرموں کی سزا معافی کی مخالفت کی تھی۔ لیکن مرکزی وزارت داخلہ نے اس کی سفارش کی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، گجرات حکومت نے ‘اچھے سلوک ‘ کی بنیاد پر مجرموں کی سزا معافی کے لیے جیل ایڈوائزری کمیٹی (جے اے سی) کی متفقہ سفارش کا حوالہ دیا ہے ۔

حال ہی میں ان مجرموں میں سے ایک رادھے شیام شاہ نے سزامعافی کے سلسلے میں دائر درخواستوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی  دائر کرتے ہوئےاس عرضی  کو ‘غیر عملی اور سیاست سے متاثر’ بتایا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اسی رادھے شیام شاہ پر کچھ دن پہلے کیس کے ایک اہم گواہ کو دھمکانے کا بھی الزام لگاتھا۔ اس کیس کے کلیدی گواہ امتیاز گھانچی نے اس سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کو خط لکھا تھا جس میں اپنی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

گھانچی نے اپنی جان کو لاحق خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے گجرات کے ہوم سکریٹری اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی ایک کاپی بھیجی تھی۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)