خبریں

گجرات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ’نقلی کلاس روم‘ کے دورے پر اپوزیشن نے سوال اٹھائے

وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کے روز گاندھی نگر ضلع میں ‘مشن اسکول آف ایکسی لینس’ کی شروعات کی تھی، جہاں  کی تصویروں میں وہ ایک  کلاس روم میں بیٹھے ہوئےنظر آ رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس سمیت کئی سوشل میڈیا صارفین نے کلاس روم کے سائزاور کھڑکی کی جگہ پر پینٹنگ کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے اسے ‘نقلی  کلاس روم’ بتایا ہے۔

کلاس روم میں بیٹھے پی ایم مودی اور کھڑکی جگہ پر بنی  تصویر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/سوربھ بھاردواج)

کلاس روم میں بیٹھے پی ایم مودی اور کھڑکی جگہ پر بنی  تصویر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/سوربھ بھاردواج)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کو گاندھی نگر ضلع کے اڈلاج قصبے میں ‘مشن اسکول آف ایکسی لینس’ پہل کی شروعات کی  اور اس دوران انہوں نے ایک اسکول کا دورہ کیا۔ خبروں اور سوشل میڈیا میں سامنے آئی تصویروں میں وزیر اعظم کو کلاس روم میں ایک بنچ پر بیٹھ کر طلباءکے ساتھ  بات چیت  کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد عام آدمی پارٹی (عآپ)، کانگریس کے رہنماؤں سمیت متعدد سوشل میڈیا صارفین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جس کلاس روم میں وزیر اعظم مودی بیٹھے ہیں وہ اسکول کے کلاس روم کی طرح نہیں لگتا ، بلکہ ایک ‘نقلی’ کلاس روم کا سیٹ اپ ہے۔

دہلی کے گریٹر کیلاش کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے ایک ٹوئٹ میں اس بارے میں سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا، ‘اسکول کی کلاس نظر نہیں آ رہی، یہ شوٹنگ کے لیے بنایا گیا نقلی کلاس روم ہے۔ کھڑکی نہیں  پینٹگ ہے۔ کلاس میں ڈیسک  کی ایک ہی  قطار ہے۔ دیواریں نقلی ہیں۔ بچوں کے لباس اور جوتے نئےنظر آ رہے ہیں۔

اس کے بعد بہت سے صارفین نے کلاس کے سائز، دیوار پر لگی ورچوئل ونڈو، طلباء کی تعداد، ایک اسٹوڈنٹ کے اسکول یونیفارم  کے بجائے لوور پہننے جیسے کئی سوال اٹھائے۔

کئی ٹوئٹر صارفین نے یہ سوال بھی کیا کہ اس اسکول کا پتہ بتایا جانا چاہیے۔

عآپ ایم ایل اے نریش بالیان نے لکھا، ‘فوٹو کھینچنے کے لیے بچے کو ٹھگتے  ہیں… بچے بھگوان کا روپ ہوتے ہیں۔ نقلی کلاس روم، پرنٹ کیا ہوا کھڑکی لگادیا،اتنا بھی فیک نہیں دکھانا تھا کہ  ودیا کے مندر سے لوگوں کابھروسہ ہی  اٹھ جائے…جاؤ بی جے پی والو تم سے یہ نہیں ہوگا۔ تم ہندو مسلم کرو۔ شرمناک ہے یہ۔

راشٹریہ لوک دل نے بھی اس پر طنز کیا اور کہا کہ ‘شکشا کے مندر کو نقل کا مندر بنا دیا گیا’۔ پارٹی کے ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا، ’27 سالوں میں بی جے پی گجرات میں ایک ایسا اسکول نہیں بنا سکی جہاں مودی جی کا فوٹو شوٹ کیا جا سکے… اس کے لیے بھی فوٹو شاپ/فلیکس کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے… یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔’

کانگریس قائدین نے بھی اس پر چٹکی لی۔ کانگریس کے چھتیس گڑھ انچارج اور پارٹی کے قومی سکریٹری چندن یادو نے لکھا، ‘صاحب کی شوٹنگ کے لیے کل اسکول کا سیٹ لگایا گیا تھا! سستے سیریل بھی اتنے نقلی نہیں  ہوتے ہیں جتنے کہ مودی کے نیوز شوٹس ہوتے ہیں۔

دریں اثنا، اتر پردیش کانگریس نے لکھا، ‘فلم کی شوٹنگ ہونی تھی… کلاس روم پلائی ووڈ سے بنایا گیا ۔ کھڑکی کا دھیان نہیں آیا تو بنا نہیں ،آناً فاناً میں میں پینٹنگ کر کے کھڑکی  بنائی گئی۔ کیا ملتا ہے یہ سب کر کے آخر پول کھلنے پرجگ ہنسائی ہوتی ہے۔

رائٹر اور ٹیچر رام شنکر سنگھ نے بھی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسکول کے بچوں کو کسی پروپیگنڈے کا آلہ نہیں بنانا چاہیے۔

فیس بک پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا، زندگی کے ہر شعبے کو فوٹو شوٹ اور تشہیر کا ذریعہ بنا کر چھوڑ دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔

نقلی کلاس روم ہے، نقلی کھڑکی ہے، لیکن ایک بچے کے ہاؤ بھاؤسب بیان کر رہے ہیں۔ دوسری تصویر میں بچے کیااشارہ کر رہے ہیں؟ پانچوں کی نظریں مختلف سمتوں پر ہیں… 18-18 گھنٹے کی انتخابی مہم چلانے کی منصوبہ بندی اور صرف یہی ہوتے  رہنا بھی  ثابت کرتا ہے کہ ملک کس طرف جا رہا ہے۔

گجراتی چینل کا دعویٰ – اسکول کا سیٹ اپ لگایا گیا تھا، شام تک ہٹا لیاگیا

دریں اثناء جمعرات کو ایک گجراتی چینل کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے جس میں نیوز اینکر بتا رہی ہیں کہ یہ کلاس روم دراصل ایک سیٹ اپ تھا، جسے وزیراعظم کے پروگرام کے بعد ہٹا دیا گیا۔

دہلی کے براڑی سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے سنجیو جھا نے اس ویڈیو کا کلپ شیئر کیا ہے۔

اس ویڈیو میں بتایا جا رہا ہے کہ جب چینل کا رپورٹر اسکول کے مقام پر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ ‘ڈیمو’ کے لیے لگایا گیا سیٹ اپ تھا، جسے اس وقت ہٹایا جا رہا تھا۔ ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب رپورٹراس ‘ڈیمو کلاس روم’ کی طرف بڑھے تو پیچھے سے آنے والے کچھ لوگ ان سے کیمرہ بند کرنے کو کہتے ہیں۔

دی وائر آزادانہ طور پر اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔

کیجریوال بولے –  ملک میں اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کریں پی ایم مودی

وزیر اعظم کے گجرات کے گاندھی نگر کے دورے اور وہاں کے ایک اسکول میں طلباء سے ملاقات کے بعد، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بدھ کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملک میں اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی اپیل کی  اور اپنی حکومت کے تجربات  شیئر کرنے کی پیش کش کی۔

کیجریوال نے ٹوئٹ کیا، ‘مجھے بہت خوشی ہے کہ آج ملک کی تمام پارٹیوں اور لیڈروں کو تعلیم اور اسکولوں کے بارے میں بات کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ مجھے امید ہے کہ تعلیم کی یاد صرف انتخابات کے دوران نہیں آئے گی۔ تمام حکومتیں مل کر صرف پانچ سالوں میں تمام سرکاری اسکولوں کو شاندار بنا سکتی ہیں۔

دریں اثنا، دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات کے ایک اسکول کا دورہ کیا اور ایک بنچ پر بیٹھے طلباء سے بات چیت کی جب ریاست کے لوگوں کے پاس  عام آدمی پارٹی (آپ) کو اقتدار میں لانے کااختیار ہے۔

سسودیا نے دعویٰ کیا کہ عآپ اسکولوں کی تعمیر کے لیےمعروف ہے۔

سسودیا نے کہا، جب گجرات کے لوگوں کے پاس اروند کیجریوال جیسے لیڈر کو منتخب کرنے کا اختیار ہے، جو اسکول بناتے ہیں، تو وزیر اعظم مودی کہہ رہے ہیں – دیکھیے، میں نے بھی ایک اسکول بنایا ہے۔ بہتر ہوتا کہ گجرات میں گزشتہ 27 سالوں کے دوران  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت میں یہ (اسکول)  بنایا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ کام 27 سال پہلے کر لیا جاتا تو ہر شہر کے ہر بچے کو بہترین اسکول ملتا۔آج جب گجرات کے لوگ حکومت بدلنے کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں تو آپ بچوں کے ساتھ بیٹھ  رہے ہیں۔ یہ سارا کام ہم سات سالوں میں (دہلی میں) کر سکتے ہیں، توگجرات میں بی جے پی کے 27 سال کے دور میں اور بھی اچھا ہو سکتا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل ستمبر میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی گجرات کے ایک سرکاری اسکول کا دورہ کیا تھا۔ تب عام آدمی پارٹی نے کہا تھا کہ وہ ان کی  پارٹی کے لیڈروں کو دیکھ کر اسکول کا دورہ کرنے پہنچے ہیں۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)