خبریں

ہندی کے ممتاز نقاد اور ادیب مینیجر پانڈے نہیں رہے

مینیجر پانڈے مارکسی نقاد کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔ وہ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں پروفیسر رہنے کے علاوہ  بریلی کالج اور جودھپور یونیورسٹی میں بھی درس و تدریس سے وابستہ رہے۔

مینیجر پانڈے۔ (فوٹو بہ شکریہ: amazon.in)

مینیجر پانڈے۔ (فوٹو بہ شکریہ: amazon.in)

نئی دہلی: ہندی ادب کے نامور نقاد اور ادیب  پروفیسرمینیجر پانڈے کا اتوار کو انتقال ہوگیا۔ وہ  81 سال کے تھے۔ وہ 23 ستمبر 1941 کو بہار کے گوپال گنج ضلع کے لوہٹی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔

مینیجر پانڈے ہندی میں مارکسی تنقیدکا بڑا نام تھے۔ انہوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) سے پڑھائی  کی۔ یہیں سے انہوں نے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔

وہ دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سینٹر فار انڈین لینگویجز میں ہندی کے پروفیسر رہنے کے ساتھ اس مرکز کے چیئر پرسن بھی رہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بریلی کالج، بریلی اور جودھ پور یونیورسٹی میں بھی درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ دنیا بھر کے عصری کلامیہ، ڈسکورس اور مفکرین پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔

دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق،  ان کی بیٹی ریکھا پانڈے نے بتایا کہ وہ گزشتہ کئی ماہ سے شوگر کے مریض تھے، جس کا علاج دہلی کے وسنت کنج کے ایک نجی اسپتال سے چل  رہا تھا۔ ان کی آخری رسومات سوموار کی شام 4 بجے لودھی روڈ  واقع شمشان گھاٹ  میں ادا کی جائیں گی۔

وانی پرکاشن کے مطابق، مینیجر پانڈے ہندی تنقید میں گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے سرگرم تھے۔ وہ اپنی تنقیدی اور فکر انگیز تحریروں کے لیے ملک بھر میں معروف  ہیں۔

تنقید کے لیے انہیں متعدد اعزازات سے سرفراز کیا گیا۔ ان میں ہندی اکیڈمی دہلی کا شالاکا سمان، راشٹریہ دنکر سمان، رام چندر شکلا شودھ سنستھان، وارانسی کا گوکل چندر شکلا ایوارڈ اور دکشن بھارت پرچار سبھا کا سبرامنیم بھارتی سمان وغیرہ قابل ذکر  ہیں۔

ان کے اہم کاموں میں ‘شبد اور کرم’، ‘اتہاس اور اتہاس درشٹی’، ‘بھکتی آندولن اور سورداس کا کاویہ’، ‘سورداس (وی نبندھ)’، ‘ساہتیہ کے سماج شاستر کی بھومیکا’، ‘آلوچنا کی ساماجکتا’، ‘اپنیاس اورلوک تنتر’، ‘ہندی کویتا کا اتیت اور ورتمان’، ‘تنقید میں سہمتی اسہمتی’، ‘بھارتیہ سماج میں پرتی رودھ کی پرمپرا’، ‘ساہتیہ اور دلت درشٹی’، ‘شبد  اور سادھنا’ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ان کے انٹرویوز کے دو مجموعے ’میرے ساکشاتکار‘ اور ’میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں‘ شائع ہو چکے ہیں۔

مینیجر پانڈے نے ایک طرف ‘ساہتیہ اور اتہاس درشٹی’ کے توسط سے ہندی  ادب کے تفہیم و تجزیہ اور تشخیص کے تاریخی نظریات کو فروغ دیا، وہیں  دوسری طرف ‘ساہتیہ میں سماج شاستر کی صورت میں انہوں نے ہندی ادب میں  سماجیات کے مطالعہ کو ایک نئی جہت دینے کی راہ پیدا کی۔

اپنی تنقید میں وہ روایت کے تجزیاتی مطالعہ اوراس کے از سر نو جائزہ کے بھی قائل  رہے ۔ انہوں نے سورداس کے ادب کو عصری تناظر میں پیش کرتے ہوئےبھکتی دور کے مروجہ شعری تصورات  سے ہٹ کر بالکل نئی اورمنطقی مطابقت کو ثابت کیا ہے۔

دلت ادب اور خواتین کی آزادی کے عصری سوال پر گزشتہ برسوں میں ہندی میں ہونے والی بحثوں میں پانڈے کے نمایاں  کردار کو بار بار اجاگر کیا گیا ہے۔

انہوں نے اقتدار اور ثقافت کے وابستہ سوالوں پر بھی مسلسل غوروخوض  کیا۔

ان کی کتاب ساہتیہ کے ‘سماج شاستر کی بھومیکا’کااُردو ترجمہ پیش کرتے ہوئے عرض مترجم کے طور پر سرورالہدیٰ لکھتے ہیں؛ پانڈے ہندی کے ان چند ناقدین میں ہیں جن کے یہاں تاریخ اور تہذیب کا تصور تعصب اور ہر طرح کی تنگ نظری سے پاک ہے۔ وہ ہندی زبان و ادب کی کسی بھی روایت کو ہندوستان کی دوسری زبانوں اور تہذیبوں س ےغیر ضروری طور پر الگ کرکے نہیں دیکھتے۔

سرورالہدیٰ یہ بھی کہتے ہیں کہ ، پانڈے نے ادب کے سماجیاتی مطالعے کو ہر قسم کی ہٹ دھرمی اور شدت پسندی سے بچاکر ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں سماجیاتی عمل کے حدودوامکانات واضح ہو جاتے ہیں۔