خبریں

دہلی: تنقید کے بعد جامع مسجد میں خواتین کے داخلے پر پابندی کا فیصلہ واپس لیا گیا

جامع مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے جمعرات کو مرکزی دروازوں پر لگائے گئے نوٹس میں کہا گیا تھاکہ مسجد میں لڑکیوں کا اکیلے یا گروپ میں داخلہ ممنوع ہے۔ اس فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے بتایا کہ لیفٹیننٹ گورنر سے بات چیت  کے بعد اسے واپس لے لیا گیا ہے۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جامع مسجد میں خواتین کے داخلے پر پابندی کا متنازعہ فیصلہ بڑے پیمانے پر تنقید کے بعد جمعرات کی رات کو واپس لے لیا گیا۔ اس معاملے میں تنازعہ کے بعد مداخلت کرتے ہوئے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے شاہی امام سے بات کی تھی۔

جامع مسجد انتظامیہ نے  نوٹس لگایا تھا کہ ‘جامع مسجد میں لڑکی یا لڑکیوں کا اکیلےداخلہ منع ہے۔’

جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے بتایا کہ ‘لیفٹیننٹ گورنر نے مجھ سے بات کی۔ ہم نے نوٹس بورڈز ہٹا دیے ہیں۔ لیکن مسجد دیکھنے کے لیے آنے والے لوگوں کو اس کے تقدس کو کو برقرار رکھنا ہو گا۔

انہوں نے کہا، خواتین کے داخلے پر کبھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ آسکتی ہیں اور نماز ادا کرسکتی ہیں اور گھوم بھی سکتی ہیں، لیکن کسی بھی مذہبی مقام کا تقدس برقرار رکھنا ہوگا۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، بخاری نے کہا، اگرچہ ہم نے دروازوں سے نوٹس ہٹا دیے ہیں، لیکن ہمارے چوکیدار تمام سرگرمیوں کی نگرانی کریں گے۔ ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث لڑکیوں پر پابندی عائد کی جائے گی۔ ان  کے والدین کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔

شاہی امام سید احمد بخاری کے مطابق ،یہ فیصلہ مسجد کے احاطے میں کچھ واقعات کے سامنے آنے کے بعد کیا گیاتھا۔

انہوں نے کہا کہ مساجد نماز پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں،  نہ کہ کسی سے ملنے کے لیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف مسلم لڑکیوں کو ادھر ادھر گھومتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘یہ ایک مذہبی مقام ہے اور یہاں لوگ تفریح کے لیے نہیں بلکہ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ جگہ نماز کے لیے ہے نہ کہ تفریح کے لیے اور پابندیاں صرف ان کے لیے لگائی گئی ہیں۔

تاہم ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ یہ پابندی صرف لڑکیوں پر کیوں لگائی گئی تھی لڑکوں پر کیوں نہیں۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

بخاری نے کہا، ‘کوئی بھی ایسی جگہ چاہے وہ مسجد ہو، مندر ہو یا گرودوارہ، ہو وہ عبادت کی جگہ  ہے۔ اس کام کے لیے آنے پر کوئی پابندی نہیں۔ آج ہی 20-25 لڑکیاں آئیں اور انہیں داخلہ کی اجازت دے دی گئی۔

اس سے قبل بھی مسجد میں زائرین کی میوزک ویڈیوز کی شوٹنگ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ مٹیا محل کے علاقے کی طرف مسجد کے داخلی دروازے پر ایک پرانے بورڈ پر لکھا ہے، ‘مسجد کے اندر میوزک ویڈیوز کی شوٹنگ پر سخت پابندی ہے۔’

حقوق نسواں کے کارکنوں نے کیا تھااحتجاج

دہلی وومین کمیشن (ڈی سی ڈبلیو) کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے اسے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نوٹس جاری کر رہی ہیں، وہیں  کمیشن کے ذرائع نے کہا تھا کہ اس نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا  گیاہے اور کارروائی کے بارے میں فیصلہ کیا جا رہا ہے۔

مالیوال نے ٹوئٹ کیا،’جامع مسجد میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگانا پوری طرح سے  غلط ہے۔ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی عبادت کا حق ہے۔ میں جامع مسجد کے امام کو نوٹس جاری کر رہی  ہوں۔ خواتین کے داخلے پر اس طرح پابندی لگانے کا حق کسی کو نہیں ہے۔

انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ یہ ‘شرمناک’ اور ‘غیر آئینی’ فعل ہے۔

انہوں نے کہا، ‘وہ کیا سوچتے ہیں؟ یہ ہندوستان نہیں ہے۔ یہ عراق ہے؟ کیا وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک پر کوئی کھل کر آواز نہیں اٹھائے گا؟ آئین سے اوپر کوئی نہیں ہے۔اس طرح کی  طالبانی حرکت پر ہم نے انہیں نوٹس جاری کیا ہے۔ ہم اس پابندی کو واپس لینے کو یقینی بنائیں گے۔

کمیشن نے اپنے نوٹس میں جامع مسجد میں خواتین اور لڑکیوں کے ‘بغیر مردوں کے’ داخلے پر پابندی کی وجوہات پوچھی ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے ذمہ دار لوگوں کے بارے میں بھی جانکاری مانگی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘اگر کسی میٹنگ میں فیصلہ لیا گیا ہے، تو براہ کرم اس کی تفصیلات کی کاپی فراہم کریں۔’ کمیشن نے اس معاملے میں 28 نومبر تک تفصیلی کارروائی کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔

وہیں،  مسجد انتظامیہ کو نشانہ بناتے ہوئے حقوق نسواں کے کارکنوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کئی سو سال پیچھے لے جاتا ہے۔

کارکن رنجنا کماری نے کہا کہ یہ پوری طرح سے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ کیسی دسویں صدی کی سوچ ہے؟ ہم ایک جمہوری ملک ہیں، یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ خواتین کو کیسے روک سکتے ہیں؟

خواتین کے حقوق کی کارکن یوگیتا بھیانہ نے کہا، یہ فرمان  100 سال پہلے لے جاتا ہے۔ یہ نہ صرف رجعت پسند ی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ مذہبی گروہ لڑکیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ، بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن (بی ایم ایم اے) کی ذکیہ سمن نے کہا کہ یہ ایسے ذمہ دار عہدے پر فائز لوگوں کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خواتین کو انسان نہیں مانتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ خواتین کو قید کر کے وہ تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیباک کلیکٹو کی حسینہ خان نے کہا، ‘یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ درحقیقت مسئلہ سوچنے کے عمل میں ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین ان مقدس مقامات کی بے حرمتی کریں گی اور اس لیے وہ ان کی  نقل و حرکت کو محدود کر دیتے ہیں۔

واضح ہو کہ مذہبی مقامات پر خواتین کے داخلے پر پابندی کے معاملے پر ماضی میں بھی تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے اور نماز کے مساوی حقوق پر بحث بھی ہوتی رہی ہے۔

سال 2018 میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے 4:1 کی اکثریت کے اپنے تاریخی فیصلے میں، تمام عمر کی خواتین کو سبری مالا مندر میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ خواتین کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ دینا آئین کے آرٹیکل 25 (مذہب کی آزادی) کی خلاف ورزی ہے۔ جنس کی بنیاد پر پوجا پاٹھ میں کوئی امتیاز نہیں ہوسکتا۔

اگرچہ. بعد میں جب ریاستی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا اور کئی تنظیموں نے 2018 کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

اس کے بعد، نومبر 2019 میں، عدالت عظمیٰ کے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے، 3:2 کی اکثریت کے فیصلے سے اپنے 2018 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں کو سات ججوں کے بنچ کو بھیج دیا تھا۔

سبری مالا مندر میں قدیم روایت کے مطابق 10 سال سے 50 سال تک کی خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)

Categories: خبریں

Tagged as: , , , , , , ,