خبریں

چڑیا کو اس کا گھونسلہ نظر نہیں آ رہا ہے، لیکن اس کے سامنے کھلا آسمان ضرور ہے: رویش کمار

اڈانی گروپ کے ذریعے این ڈی ٹی وی کی حصہ داری خریدنے کے بعد این ڈی ٹی وی انڈیا کے گروپ ایڈیٹر رویش کمار نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو چونی سمجھنے والے جگت سیٹھ ہر ملک میں  ہیں۔ اگر وہ دعویٰ کریں  کہ وہ صحیح  معلومات پہنچاناچاہتے ہیں تواس کا  مطلب یہ  ہے کہ وہ اپنی جیب میں ڈالر رکھ کر آپ کی جیب میں چونی  ڈالنا چاہتے ہیں۔

صحافی رویش کمار۔ (فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

صحافی رویش کمار۔ (فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: گوتم اڈانی کے ذریعے نئی دہلی ٹیلی ویژن لمیٹڈ (این ڈی ٹی وی) کےٹیک اوورکرنےکے بیچ  این ڈی ٹی وی انڈیا کے گروپ ایڈیٹر اورسینئر صحافی رویش کمار نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اس سے پہلے سوموارکو این ڈی ٹی وی کے بانی پرنائے رائے اور ان کی اہلیہ رادھیکا رائے نے پروموٹر گروپ کی یونٹ، آر آر پی آر ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اڈانی گروپ نے آر آر پی آرکا ٹیک اوور کر لیا تھا۔ آر آر پی آر کے پاس این ڈی ٹی وی کی 29.18 فیصد حصہ داری ہے۔

تاہم، رائے  فیملی کے پاس پروموٹر کی صورت میں  این ڈی ٹی وی میں اب بھی 32.26 فیصد حصہ داری ہے  اور انہوں نے نیوز چینل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ پرنائے رائے این ڈی ٹی وی کے چیئرپرسن ہیں اور رادھیکا رائے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔

اگست میں اڈانی گروپ کے ذریعے این ڈی ٹی وی  میں حصہ داری  خریدنے کے بعد سے ہی یہ قیاس آرائیاں تھیں کہ چینل سے وابستہ بڑے نام  اس سے الگ ہوسکتے ہیں۔

بہار کے جیتوار پور گاؤں میں پیدا ہونے والے رویش کمار 1996 میں چینل سےجڑے  تھے اور ہندی صحافت کے میدان میں بہترین رپورٹنگ اور عوامی مسائل پر آواز اٹھانے کے لیےمعروف  ہیں۔

چینل میں اپنے طویل عرصے کے دوران رویش ‘ہم لوگ’، ‘رویش کی رپورٹ’، ‘دیس کی بات’ اور ‘پرائم ٹائم’ جیسے پروگراموں کا حصہ رہے، جو ناظرین کے درمیان  بہت مقبول تھے۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایشوز اٹھانے کی وجہ سے ٹرول کے نشانے پر بھی  رہے ہیں۔

انہیں صحافت کے لیے دو مرتبہ باوقار رام ناتھ گوئنکا ایوارڈ سے نوازا  گیاہے۔ 2019 میں انہیں صحافت میں ان کی خدمات کے لیے ایشیا کا نوبیل سمجھے جانے والے میگسیسے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔

رویش نے تین کتابیں – عشق میں شہر ہونا، بولنا ہی ہے اور فری وائس لکھی ہیں۔

سال 2019 میں دی وائر ہندی کے دو سال پورے  ہونے پر، ‘دی وائر ڈائیلاگ’ میں انہوں نے میڈیا پر اقتدار کے بڑھتے اثرات کے بارے میں ایک لمبی بات چیت کی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ مین اسٹریم نیوز رومز میں صنعتکاروں کے بارے میں بولنے کا رواج ختم ہو چکا ہے اور انہی  کے ذریعے جمہوریت کو ختم  کیا جا رہا ہے۔

بدھ کو استعفیٰ دینے کے بعد ایک ویڈیو میں رویش نے چینل کے ساتھ اپنے سفر کے بارے میں بتایا۔ وہ کہتے ہیں،’ہندوستان کی صحافت میں کبھی سنہری دور تو تھا نہیں، لیکن یہ آج کی طرح بھسم یُگ بھی نہیں تھا۔ بھسم یُگ  سےمیرا مطلب ہے کہ  جہاں پیشے کی ہر اچھی بات تیز رفتاری سے  بھسم کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ دن تو آنا ہی تھا۔

رویش نے مین اسٹریم میڈیا کے حکومت کی طرفداری کے چلن  کو ‘گودی میڈیا’ کا نام دیا تھا۔ اپنے بیان میں اسی بات کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘اس ملک میں مختلف ناموں کے بہت سے چینل ہو گئے ہیں،مگر ہیں تو سب گودی میڈیا ہی۔ ان کا ماحول اور صحافت کا ایکو سسٹم سب ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن صحافت کرنے اور کرانے کا دعویٰ بھی  سب کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بھی جو اسی اقتدار  کا حصہ مانے جاتے ہیں، جن کی طاقت سے صحافت کو ہر دن اس ملک میں کچلا جا رہا ہے۔ گودی میڈیا اور صحافت بھی اس کا اپنا مطلب آپ پر تھوپنا چاہتی ہے۔

این ڈی ٹی وی کے ساتھ اپنی وابستگی کے بارے میں انہوں نے مزید کہا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ خاص نہیں کہہ سکیں گے کیونکہ جذبات کی رو میں کوئی شخص غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ چینل میں وہ  اپنے ابتدائی دنوں میں چینل کے صحافیوں کے نام آئے خطوط کوچھانٹنے کا کام کیا کرتے تھے، مترجم کے طور پر کام کیا اور پھر رپورٹنگ کا سفر شروع ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے چھٹی چھانٹنے کو لے کر ہمدردی کا اظہار نہ کیا جائے کیونکہ وہ اس شخص  کی طرح نہیں ہیں جو ہوائی جہاز سے اترتا ہے اور چائے بیچنے کی بات کرتا ہے۔ ‘میں اپنی جدوجہد کو عظیم بتانے کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہتا۔’

اپنے 24 منٹ کے اس بیان میں جذباتی ہو کر انہوں نے ناظرین  کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ، میں ناظرین کے درمیان گیا تو گھر ہی نہیں لوٹا، اب شاید کچھ وقت ملے گا اپنے ساتھ رہنے کا۔ آج کی شام کچھ ایسی شام ہے جہاں چڑیا کو اس کا  گھونسلہ نظر نہیں آ رہا کیونکہ کوئی اور اس کا گھونسلہ لے گیا ہے۔ لیکن اس کےسامنے  تھک جانے تک ایک کھلا آسمان ضرور نظر آرہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ناظرین  ان کے مستقل  ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ کمار نے کہا، ‘میں اکثر کہتا ہوں کہ ایک پیڑمیں کئی بارشوں کا پانی ہوتا ہے۔ آپ جیسے ناظرین  میں  ہی کسی  رویش کمار کا  ہوناہے، آپ ہر موسم میں برسات  بن کر آ جاتے ہیں، سوکھتے پیڑوں  کو ہرا کرنے کے لیے… آج کے دور میں آپ  ہی صحافت کا ادارہ ہیں، صحافت اب کسی ادارے میں نہیں بچی ہے، ناظرین کے بیچ بچی ہوئی ہے۔ جن  کی وجہ سے آج صحافی سوال پوچھ رہے ہیں… آپ ناظرین کا ہونا ہمیں حوصلہ دیتا ہے کہ جمہوریت بھلے ہی  ختم ہو جائے  اس کی چاہت کبھی ختم نہیں ہوتی۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘میرے آگے دنیا بدلتی رہی، میں ٹیسٹ میچ کے کھلاڑی کی طرح ٹکا  رہا۔ لیکن اب کسی نے میچ ہی ختم کر دیا ہے۔ اسے ٹی ٹوئنٹی میں تبدیل کر دیا  ہے۔ عوام کو چونی سمجھنے والے جگت سیٹھ ہر ملک میں ہیں،اس  ملک  میں بھی ہیں۔ اگر وہ دعویٰ کریں  کہ وہ آپ تک صحیح  معلومات پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اپنی  جیب میں ڈالر رکھ کروہ آپ کی جیب میں چونی ڈالنا چاہتے ہیں۔ صحافی ایک  خبر لکھ دے تو جگت سیٹھ مقدمہ کر دیتے ہیں اور پھر ست سنگ میں جا کرپر وچن دیتے ہیں  کہ وہ صحافت کی بھلائی چاہتے  ہیں۔ آپ ناظرین اتنا توسمجھتے  ہوں گے…

انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ‘آج کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ سارا نظام ان کے قبضے میں ہے، اب عوام کی کوئی قدر نہیں ہے۔ میڈیا کوختم  کر کے عوام اور اپوزیشن کو ختم کیا  جا چکا  ہے… لیکن یہ ابدی نہیں ہے۔ ایک نہ ایک دن جب لوگ اپنی نفرتوں سے خاکستر ہو جائیں گے تب ان کو کسی نئی زمین کی  تلاش ہوگی ۔ کسی  صحافی کی یاد آئے گی ۔ نفرت کی غلامی سے باہر آنے  کا راستہ آپ ہی  بنائیں گے۔

انہوں نے صحافت کے میدان میں بڑھتی ہوئی مایوسی کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ایک عدد نوکری کرنے کے سوا صحافی بننےکی  کوئی دوسری  شرط نظر نہیں آتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہاں تک کہ جج بھی کہہ رہے ہیں کہ ضمانت دینے پر انہیں ٹارگیٹ کیے جانے کا ڈر لگ رہا ہے۔ جب جج کو ہی  ڈر لگ رہا ہے تو اس دور میں یہ بولنا بھی گناہ  ہے کہ مجھے ڈر نہیں لگتا۔ ایک ڈرا ہوا  صحافی مرا ہوا شہری پیدا کرتا ہے۔