اتوار کو ممبئی میں ہونے والے ہندو جن آکروش مورچہ کے پروگرام پر اس کے پچھلے پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ کا حوالہ دیتے ہوئے روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ پروگرام میں ہیٹ اسپیچ نہ ہو۔ عدالت نے پولیس سے پروگرام کی ویڈیو گرافی کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کو بھی کہا ہے ۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ ہندو جن آکروش مورچہ کو 5 فروری کو ممبئی میں حکام کی اجازت کے بعد پروگرام منعقد کرنے کی اجازت کے بعد مہاراشٹر حکومت اس بات کو یقینی بنانے کو اس کوئی ہیٹ اسپیچ نہ ہو۔
مہاراشٹر حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ کو بتایا کہ ریاست نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر تقریب منعقد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس شرط پر دی جائے گی کہ کوئی شخص ہیٹ اسپیچ نہیں دے گا اور قانون کی نافرمانی نہیں کرے گا، اور امن عامہ میں خلل نہیں ڈالے گا۔
بنچ نے مہتہ کا بیان ریکارڈ کیا اور ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پروگرام میں ہیٹ اسپیچ نہ ہو۔
عدالت نے کہا، ہم یہ بھی ہدایت دیتے ہیں کہ پروگرام کی اجازت کے بعدسی آر پی سی کی دفعہ 151 کے تحت ملے اختیارات کے استعمال کرنے کی حالت پیدا ہونے پر،اس کولاگو کرنا متعلقہ پولیس افسران کا فرض ہوگا۔
بتادیں کہ سپریم کورٹ شاہین عبداللہ کی درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ ان کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ پورے مہاراشٹر میں کئی تقریبات اور ریلیاں ہوئی ہیں، جس میں مسلم کمیونٹی کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور پوری کمیونٹی کو مجرم قرار دیتے ہوئے ‘لینڈ جہاد’ اور ‘لو جہاد’ کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
درخواست گزار نے الزام لگایا ہے کہ اس طرح کی عوامی ریلیاں، جن میں بچے بھی شرکت کرتے ہیں، حکومت کی رضامندی اور جانکاری کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں۔ 29 جنوری کو ممبئی میں ہندو رائٹ ونگ تنظیموں کی ایک اکائی ‘سکل ہندو سماج’ کے زیراہتمام ہندو جن آکروش مورچہ کے بینر تلے ہوئی ایک ریلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ نے مسلمانوں کو قتل کرنے کی کھلی کال دی تھی۔
درخواست میں عدالت سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کی درخواست کی گئی ہے کہ 29 جنوری کو ہندو جن آکروش مورچہ کے اجلاس میں پیش آنے والے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ عرضی گزار کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ پولیس کو سی آر پی سی کی دفعہ151 لگانی چاہیے، جو انہیں ایک قابل دست اندازی جرم کو روکنے کے لیے گرفتاریوں کا اختیار دیتا ہے۔
سبل نے مطالبہ کیا تھا کہ پورے پروگرام کی ‘ویڈیوگرافی’ کی جائے اور عدالت میں ایک رپورٹ پیش کی جائے، جس پر بنچ نے اپنے حکم میں پولیس کو پروگرام کی ویڈیو گرافی کرکے رپورٹ پیش کرنے کو کہا۔
عدالت نے سالیسٹر جنرل مہتہ سے کہا کہ وہ ہندو جن آکروش مورچہ کے 29 جنوری کے پروگرام سے متعلق ہدایات حاصل کریں۔
سماعت کے دوران، مہتہ نے عرضی کی مخالفت کی اور درخواست گزار پر چنندہ طریقے سےاس مسئلے کو اٹھانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کیرالہ کا رہنے والا ہے، لیکن اس نے مہاراشٹر میں ایک مجوزہ پروگرام کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سالیسٹر جنرل نے کہا، ‘اب لوگ چنندہ طریقے سےموضوع کا انتخاب کر رہے ہیں اور اس عدالت میں آکر اس پروگرام کو اتراکھنڈ یا مدھیہ پردیش یا مہاراشٹر میں بین کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیا اس عدالت کو ایسی اتھارٹی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جو پروگرام منعقد کرنے کی اجازت دے؟ انہوں نے کہا کہ پروگرام کو روکنے کی گزارش کرنا خطابات کے پہلے ہی سینسر شپ جیسی بات ہوگی۔
لائیولاء کے مطابق، اس کا جواب دیتے ہوئےسبل نے کہا کہ 29 جنوری کے پروگرام میں مقررین کے’گمبھیر بیانات’ پر غور کیا جانا چاہیے، جس میں حکمراں پارٹی کے ایک رکن پارلیامنٹ سمیت شرکاء نے قابل اعتراض تقریریں کیں اور اگلے مرحلے کی اجازت دینے سے پہلے ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کے وکیل نے سبل کی دلیل کی مخالفت کی۔ دفعہ 151 کو لاگو کرنے کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے مہتہ نے کہا، درخواست گزار نہ صرف پری–اسپیچ سینسر شپ (بولنے سے پہلے روکنا) بلکہ پری اسپیچ اریسٹ کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے کہ ‘پہلے سے ہی سوچنا کہ کہ تقریر مناسب نہیں ہوگی، مہتہ نے تقریب کی ویڈیو گرافی کروانے کے عدالت کے فیصلے کو قبول کیا، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ‘مثالی طور پر پرجوش لوگوں کو ریکارڈ کرنا چاہیے، جو چنندہ طور پر آتے ہیں اور اس عدالت کے دائرہ اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
اس پر جسٹس جوزف نے مہتہ سے پوچھا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ درخواست گزاروں کو ویڈیو گرافی کی اجازت دی جائے گی؟
واضح ہو کہ جمعرات کو اس عرضی پر فوری سماعت کے مطالبہ کے بعد جسٹس کے ایم جوزف، جسٹس انرودھ بوس اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے احکامات کے باوجود نفرت پھیلانے والی تقریر(ہیٹ اسپیچ) پر کوئی کارروائی نہیں کر رہا ہے۔
بنچ نے کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کے لیے مزید ہدایات دینے کے لیے کہا گیا تو اسے بار بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں