گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل پولیس اور انسپکٹر جنرل کی میٹنگ میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے بھی شرکت کی تھی۔ یہاں ریاستوں کے سب سے بڑے پولیس افسران خبردار کر رہے تھے کہ ہندوتوا دی ریڈیکل تنظیمیں ملک کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ تاہم جیسے ہی یہ خبر باہر آئی، اس رپورٹ کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
اب کوئی کانگریسی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملک میں بھگوا دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی وفاقی حکومت کے آٹھ سال گزر جانےکے بعد ملک کی ریاستوں کے اعلیٰ پولیس افسران خبردار کر رہے ہیں کہ ہندوتوادی ریڈیکل تنظیمیں ملک کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔
اخبارات کے مطابق، دہلی میں انسپکٹر جنرل آف پولیس کی حالیہ کانفرنس میں پیش کیے گئے تحقیقی مقالوں میں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں کا نام ریڈیکل تنظیموں کے طور پر لیا گیا۔ انہوں نے گائے کے گوشت پرپابندی لگانے اور گائے کی اسمگلنگ کو روکنے کے نام پر جاری تشدد کو نشان زد کیا۔ انہوں نے گھر واپسی جیسی مہموں کی بھی نشاندہی کی جو تشدد پھیلانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اسلام کے نام پر کام کرنے والی تنظیموں کا نام تو لیا ہی گیا، ماؤنواز تنظیموں کا بھی چرچہ ہوا۔
خبر مگر ہندوریڈیکل تنظیموں کو خطرہ بتانے والی بات بنی۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب آر کے سنگھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور وزیر نہیں بنے تھے اور ایک پیشہ ور ایڈمنسٹریٹر تھے، تب ہندوستان کے ہوم سکریٹری کی حیثیت سے انہوں نے اس وقت کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے ‘بھگوا دہشت گردی’ والے بیان کی تصدیق کی تھی۔
انہوں نے اپنی جانچ ایجنسیوں کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مکہ مسجد، اجمیر شریف، سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث کم از کم 10 لوگوں کے نام ان کے پاس تھے، جن کا کسی نہ کسی طرح سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے تعلق تھا۔ انہوں نے شواہد اور خود ملزمان کے بیانات کی بنیاد پر کہا تھا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ اب ان کی تردید کی جا سکتی ہے۔’
بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے دہشت گردی کے سامنے بھگوا کی صفت استعمال کرنے پر ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ لیکن اس سے نہ تو وہ تفتیش ختم ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے حاصل ہونے والے شواہد۔ آج 10 سال بعد صورتحال بدل گئی ہے۔
وزارت داخلہ اور اس کے ادارے جس نے آر ایس ایس یا اس سے منسلک تنظیموں سے وابستہ لوگوں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث بتایا تھا، آج اسی وزارت پر آر ایس ایس کے لوگوں کا کنٹرول ہے۔ امن و امان وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے اور یہ ریاستوں کے دائرہ اختیار کا موضوع بھی ہے۔ آج کئی ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے جو آر ایس ایس کا پارلیامانی سیاسی ونگ ہے۔ اس وجہ سے بھی ان اعلیٰ پولیس افسران کے مقالے بہت اہم ہیں۔
معلوم ہوا کہ جیسے ہی یہ خبر سامنے آئی، پولیس افسران کی کانفرنس کی ویب سائٹ سےیہ مقالے اور پرچے ہٹا لیے گئے۔ لیکن تب تک کچھ اخبارات نے انہیں حاصل کر لیا تھا اور یہ خبر بھی بڑے پیمانے پر عام ہو چکی تھی۔ ابھی تک سرکاری طور پر اس کی تردید بھی نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے امن و امان کی ذمہ دار تنظیموں کا ماننا ہے کہ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی سرگرمیاں ریڈیکل ہیں۔
وزارت داخلہ جو 8 سال پہلے کہہ رہا تھا، ایک طرح سے افسران کے یہ مقالے انہیں دہرا رہے ہیں۔ لیکن ہم نے اتنے سنجیدہ موضوع پر کوئی عوامی بحث نہیں دیکھی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے اسے نظر انداز کیا۔ کسی بھی قسم کی سرکاری تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا۔ یہ ہندوستان کی سلامتی کا معاملہ تھا۔ پھر میڈیا کیوں خاموش رہا؟
یہ بات اپنے آپ میں حیران کن تھی کہ یہ مقالےآر ایس ایس کے سویم سیوک ہونے کی وجہ سے اعلیٰ عہدوں پر پہنچے لوگوں کے سامنے پیش کیےگئے۔ جن افسران نے یہ کیا وہ جانتے تھے کہ یہ ایک پرخطر کام ہے۔ لیکن انہوں نے اپنا کام کیا۔ اگلا کام میڈیا کا تھا۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ ہندوستان کا بڑا میڈیا اس ریڈیکل نظریے کی حمایت کرتا ہے جو آج ہندوستان پر قابض ہے۔ پھر وہ اس پر بحث کیوں کرے؟
کیوں دنیا بھر میں ریڈیکل تنظیموں یا نظریات پر تشویش کی صورت نظر آتی ہے؟ اس لیے کہ وہ صرف نظریے کی سطح پر ہی محدود نہیں رہتے، وہ تشدد کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ریڈیکل جس کا لغوی مطلب میں بنیاد پرستی ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں، تنظیموں یا نظریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کسی ایک شئے میں دیکھتے ہیں۔ جیسے امریکی سفید فام عیسائی یہ سمجھیں کہ ان کے مسائل کی جڑ سیاہ فام لوگ ہیں یا ان کے ملک میں باہر سے آنے والے لوگ ۔ اس لیےان کی نفرت اور تشدد سیاہ فام لوگوں اور باہری لوگوں کے خلاف ہے۔
ایسے ریڈیل گروپ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی ہیں اور انہوں نے ہی گزشتہ انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کے بعد امریکی سینیٹ پر حملہ کیا تھا۔ حال ہی میں برازیل میں انتخابات میں بولسونارو کی شکست کے بعد ایسے گروہوں کا تشدد دیکھا گیا۔
ایسے انتہا پسند گروہوں کے بارے میں الگ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں جو ہر مسئلے کا حل اسلامی حکومت کے قیام میں دیکھتے ہیں۔ جیسے ہی ہم ریڈیکل کہتے ہیں، ہمارے ذہن میں صرف اس کی تصویر ابھرتی ہے۔ لیکن یورپ کی سکیورٹی ایجنسیاں ان کے علاوہ دیگرریڈیکل گروہوں کی نشاندہی کرتی ہیں اور ان پر نظر رکھتی ہیں۔ یورپ میں یہودی مخالف ریڈیکل گروہ اسٹیٹ کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔ نو نازی گروہ آج نئے سرے سے متحرک ہو گئے ہیں۔
اسلامی ریڈیکل تنظیمیں ہندوستان کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہیں؟ گزشتہ حکومت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں نےریڈیکل نظریہ کو قبول نہیں کیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کی اکثریت ریڈیکل نہیں ہے۔ لیکن کیا ہندوؤں کے بارے میں بھی اسی اعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے؟
ریڈیکل کون ہے،ریڈیکل بنانے کا طریقہ کار کیا ہے، اس بارے میں کافی غوروخوض کیا گیا ہے۔ یہ ایک لمبا پروسیس ہے۔ جوریڈیکل ہیں، وہ ہمارے اور آپ کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ ناراضگی لیے ان کی وجہ ڈھونڈتے ہیں اور ایک بنیادی وجہ تلاش کرنے اور اسے ختم کرنے کے خیال سے متفق ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اس کے لیے تنظیمیں بناتے ہیں اور کچھ حقیقی پرتشدد کارروائیوں میں شامل ہوتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام ریڈیکل خیالات رکھنے والے لوگ تشدد میں شریک ہوں۔ لیکن وہ اسے ممکن بنانے اور اس کو جائز ٹھہرانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ بحث ماؤنوازوں کے تناظر میں ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح ان کے بارے میں بھی دنیا بھر میں کافی چرچہ ہوتا رہا ہےجو جدید دنیا کی بیماریوں سے نجات اسلامی حکومت کے قیام میں دیکھتے ہیں۔ ایسی اسلامی تنظیموں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ریاست انہیں ریڈیکل یا دہشت گرد مان کر ان کے خلاف چوکنا رہتی ہے۔
ہندوستان میں ہندوؤں پر صدیوں سے ظلم ہوا ہے، انہیں شرمناک حالت میں رکھا گیا ہے۔ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے لیکن اس پر ان کا حق نہیں رہ گیا ہے،جیسے نظریات تقریباً 150 سال سے موجود ہیں۔ لیکن ان خیالات پر تنظیمی کارروائی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندو مہاسبھا نے شروع کی۔ ہندوستان پر ہندوؤں کی بالادستی قائم کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے انہیں منظم کرنا ضروری ہے۔ ظاہری طور پر اس کا مقصد ہندوؤں کی تنظیم اور ان کی خدمت ہے۔ لیکن اس خدمت اور سپردگی کے پردے کے پیچھے ہندوؤں کی شرمناک حالت کے لیے ذمہ داروں کو تلاش کرکے ان کویا تو تباہ کرنا یا اپنا محکوم بنانا ایک سچے محب وطن ہندو کا فرض ہے۔
آر ایس ایس کے لیے ہندو راشٹر کے دشمنوں کی پہچان کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ ہمارے درمیان ایسے بے شمار ہندو ہیں جو ایسی سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن ایسا ہندو ذہن اپنے آپ نہیں بن جاتا۔ یہ آر ایس ایس کی شاخوں، اس کے دانشوروں، اس کے تربیتی کیمپوں میں تیار کیا جاتا ہے۔
سنگھ کے ایسے ہی ایک کیمپ کا معمول بتاتے ہوئے ایک ٹرینی نے بتایا کہ سب سے پہلے اسے سزا (ڈنڈا) دی جاتی ہے۔ علی الصبح ایک دھماکہ ہوتا ہے اور تمام ٹرینی اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ دشمن کا حملہ ہے۔ وہ دشمن کے پتلے پر ڈنڈوں سے حملہ کرتے ہیں۔ اس کو پیٹتے ہیں۔پھر ایک اور دھماکہ ہوتا ہے اور وہ اس کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس کے بعد دن بھر نظریاتی نشستیں ہوتی ہیں جن میں وطن سے محبت، خدمت، ہماری تاریخ وغیرہ پر بات کی جاتی ہے۔ بہت چالاکی سے ذہن مسلم مخالف جذبات سے بھرے جاتے ہیں۔ زیادہ تر شرکا اسکول سے نکلے ہوئے لڑکے ہوتے ہیں۔ یہ عمل ،اس ٹرینی کے مطابق ان سب کوریڈیکل بنانے کے لیے ہے۔
پھر بھی، جیسا کہ خبروں سے لگتا ہے، پولیس افسران کی اس میٹنگ میں آر ایس ایس کوریڈیکل نہیں کہا گیا ہے۔ یہ ہچکچاہٹ کیوں ہے ، سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ آر ایس ایس اپنی امیج کو خوشگوار بنائے رکھنا چاہتا ہے اور اکثر تمام مہذب لوگ اس پر یقین کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن اس کی تنظیمیں، یعنی وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل تشدد میں براہ راست حصہ لیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ سنگھ کی تنظیم ہے، سب جانتے ہیں۔ پھر بھی ریاست یہ نہیں کہہ پاتی کہ سنگھ ان اداروں کی مربی تنظیم ہے جو ہندوؤں کوریڈیکل بناتے ہیں۔ کیوں؟
سنگھ کے زیر انتظام ہزاروں اسکول ہندو بچوں کوریڈیکل بنانے کے کارخانے ہیں۔ سرسوتی ششو مندر اور سنگھ کی شاکھاؤں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ وہ کس طرح بچوں کے ذہنوں میں مسلم مخالف اور عیسائی مخالف نفرت پیدا کرتے ہیں۔ ان اسکولوں پر کی گئی تحقیق سے یہ واضح ہے کہ ان کی کتابیں اور سرگرمیاں آہستہ آہستہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تعصب پیدا کرتی ہیں۔
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اس ایکو کا ایک حصہ ہے۔ ان دنوں اے بی وی پی کے علاوہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے ‘یووا’ کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم کی گئی ہے۔ ان تنظیموں میں سرگرم تمام افراد براہ راست تشدد میں ملوث نہیں ہوتے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد تشدد کی حمایت کرتی ہے۔
اب تشدد کا یہ ماحول اتنا پھیل چکا ہے کہ پورے ملک میں رام سینے، ہندو یوا واہنی، ہندو سینا، ابھینو بھارت جیسی سینکڑوں تنظیمیں جنم لے چکی ہیں۔ مسلم مخالف اور عیسائی مخالف تشدد میں براہ راست ملوث ہونے میں ان کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ سنگھ ان کو کنٹرول نہیں کرتا، لیکن وہ ان کی مخالفت بھی نہیں کر سکتا۔
ہندوؤں کوریڈیکل بنانے میں ہندی میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ نہ صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بلکہ دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بھی ہندی اخبارات اور ٹی وی چینل مسلسل پروپیگنڈہ چلاتے رہتے ہیں۔ شاکھا، سنگھ کےا سکولوں میں جانے کی ضرورت نہیں۔
اب آپ کے گھروں میں کھلے عام نفرت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔ ان میں بابا رام دیو، سد گرو، بابا باگیشورناتھ، یتی نرسنہانند، سادھوی پراچی جیسے مذہبی رہنماؤں کو شامل کرلیں، جو ستسنگ کے نام پر ہندو راشٹرکے قیام اور اس کے لیےدشمنوں کی شناخت اور ان کی تباہی کا اعلان روزانہ کر رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ ہیں جو ان کو سنتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس دائرے سے باہر کیوں رکھا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے لیڈر کبھی اشارے میں،کبھی کھلے عام مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہندو ووٹ اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ کام صرف سادھوی پرگیہ ہی نہیں کرتیں بلکہ وزیر داخلہ اور وزیر اعظم بھی بہت خوشی سے کرتے ہیں۔ کیا یہ ہندوؤں کوریڈیکل بنانے کا کام نہیں ہے؟
ہندوؤں کوریڈیکل بنانے کی ان منظم کوششوں سے دیانت دار پولیس افسروں کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان افسران میں کچھ ایسے بھی ہیں جوبذات خودریڈیکل ہیں۔ مجھے ایک بڑی ریاست کے سب سے بڑے پولیس افسر کے ساتھ ہوئی بات چیت یاد ہے، جس میں انہوں نے اپنی پولیس فورس کےریڈیکل ہوتے جانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے پولیس افسران اس تشویش کا اظہار ان لیڈروں کے سامنے کر رہے تھے جن کی سیاست ہندوؤں کوریڈیکل بنانے پر ہی ٹکی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ان تحقیقی مقالات کو فوراً ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
لیکن کیا ہندوؤں کوریڈیکل بنانے کا عمل ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں چل رہا ؟ اور کیا وہ انہیں دیکھ کر فکرمند ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کوریڈیکل بنانے سے بچانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم تشدد کی حمایت کرنے والے اور اس سے لطف اندوز ہونے والے معاشرے کےبدل جانے کے خطرے کی گمبھیرتا کو نہیں سمجھ پا رہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر