خبریں

جگہوں کے نام تبدیل کرنے کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست مسترد، عدالت نے کہا – ملک میں کشیدگی برقرار رکھنے کی کوشش

بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے کی جانب  سے دائر عرضی کےمقصد پر سوال اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ انگریز ملک میں ‘پھوٹ ڈالو  اور راج کرو’ کی پالیسی لائے تھے، جس نے  سماج کو توڑ ا۔ ہمیں ایسی عرضیوں  سے اسے دوبارہ نہیں توڑنا چاہیے۔

(فوٹو: دی وائر)

(فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو ایک پی آئی ایل کو مسترد کر دیا جس میں قدیم، ثقافتی اور مذہبی مقامات کے ‘اصل’ ناموں کو بحال کرنے کے لیے ‘ری نیمنگ کمیشن’کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

عرضی میں دلیل دی گئی تھی کہ حملہ آوروں کی جانب سے ان قدیم مقامات کےاصل نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ اس میں تبدیلی کے مطالبے کے حوالے سے کہا گیا کہ ہندوستان  ماضی کا قیدی نہیں ہو سکتا۔

دی ہندو کے مطابق، عدالت نے کہا کہ ہندوستان اپنی تاریخ کا غلام نہیں رہ سکتا، جہاں حملہ آوروں کی تاریخ کو مسلسل کھود کرحال  اور مستقبل کے سامنے نہیں رکھ سکتے ، جس سے ‘ملک میں مسلسل کشیدگی’ برقرار ر ہے۔

جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگ رتنا  نے ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی پی آئی ایل کے مقصد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ  یہ ان  مسائل کو زندہ کر دے گا جو ‘ملک میں کشیدگی کا ماحول پیدا کر سکتے ہیں’۔

بنچ نے کہا، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک پرحملہ کیا گیا اور ایک غیر ملکی طاقت نے اس پر حکومت کی۔ ہم اپنی تاریخ کے منتخب حصے کی خواہش نہیں کر سکتے۔

سپریم کورٹ نے اپادھیائے سے کہا، ہمارا ملک سیکولر ہے اور ہندو مذہب ایک طرز زندگی ہے، جس نے سب کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور اس میں کوئی شدت پسندی  نہیں ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملک کی تاریخ اس کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو  ڈرانے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔

اپادھیائے نے اس ماہ کے شروع میں پی آئی ایل دائر کی تھی، جس میں غیر ملکی حملہ آوروں کے ذریعے تبدیل کیے گئے قدیم تاریخی، ثقافتی اور مذہبی مقامات کے ‘اصل’ ناموں کو بحال کرنے کے لیے  مرکز کو ایک ‘نام تبدیل کرنے کا کمیشن’ قائم کرنے کی ہدایت دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

پی آئی ایل میں کہا گیا تھا کہ مغل گارڈن کا نام حال ہی میں بدل کر امرت ادیان کر دیا گیاتھا، لیکن حکومت نے حملہ آوروں کے نام پر سڑکوں کا نام تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان ناموں کو جاری رکھنا آئین کے تحت دی گئی خودمختاری اور دیگر شہری حقوق کے خلاف ہے۔

اس کے مطابق، متبادل  کے طور پر عدالت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو قدیم تاریخی اور ثقافتی مذہبی مقامات کے ابتدائی ناموں پرتحقیق کرنے اور شائع کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے، جن کے نام’وحشی غیر ملکی حملہ آوروں’ نے تبدیل کیے تھے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ ‘ہم آزادی کی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں، لیکن سفاک بیرونی حملہ آوروں، ان کے نوکروں اور خاندان کے افراد کے نام پر کئی قدیم تاریخی ثقافتی مذہبی مقامات ملک میں اب بھی موجود ہیں۔’

دی ہندو کے مطابق، اپادھیائے نے دلیل دی، غیر ملکی حکمرانوں کے دور میں رامائن اور مہابھارت کے  دور کے نام من مانے طور پر تبدیل کیے گئے تھے۔ ہماری قدیم تہذیب کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں بحال کرنا ضروری ہے۔

اس پر جسٹس ناگ رتنا نے ان سے کہا کہ ‘اس ہندودھرم  کو چھوٹا نہ کریں، جس میں شدت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔’ انھوں نے مزید کہا، ‘ہندو صرف مذہب نہیں  بلکہ  زندگی  جینے کا ایک طریقہ ہے، اس نے تمام لوگوں کو قبول کیا ہے، چاہے وہ حملہ آور ہوں یادوست۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب مل جل کر رہنے کے قابل ہیں۔

جسٹس ناگ رتنا نے مزید کہا، ‘انگریز ملک میں ‘پھوٹ ڈالو اورراج  کرو’ کی پالیسی لائے تھے، جس نے سماج کو توڑ ا۔ ہمیں ایسی درخواستوں سے اسے دوبارہ نہیں توڑنا چاہیے… ملک کو ذہن میں رکھ کر سوچیں، مذہب کو نہیں۔

اپادھیائے نے ‘حملہ آوروں’ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی، جس کے بعد جسٹس جوزف نے کہا کہ درخواست کا مقصد ‘ایک  خاص مذہب پر انگلی اٹھانا اور ملک میں کشیدگی کو برقرار رکھنا’ ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آپ کی تشویش  ماضی کے بارے میں ہے۔ آپ اسے کھود کر موجودہ اور آنے والی نسلوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں… ماضی میں جو چیزیں ہوئی ہیں، انہیں اب مستقبل میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا… ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ یہ عدالت ایک سیکولر فورم ہے۔ وزارت داخلہ، جو ایک سیکولر محکمہ ہے، کو  معاشرے کے تمام طبقات کا خیال رکھنا چاہیے نہ کہ صرف ایک طبقے کا۔

اس کے بعد اپادھیائے نے فوراً کہا کہ وہ اپنی عرضی واپس لے لیں گے۔

تاہم جسٹس جوزف نے اسے مسترد کرتے ہوئے مزید کہا کہ،’لیکن ہم آپ کو پٹیشن واپس لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم صرف تاریخ کے بارے میں آپ کا تصور جاننا چاہتے تھے۔ اب چونکہ ہم نے اسے  سن لیا ہے، ہم آپ کی درخواست پر غور کریں گے… دھرم  انسان اور ایشور کے درمیان کا رشتہ ہے۔ یہ رشتہ تمام طبقات کے لیے ہے… براہِ کرم ہماری آنے والی نسلوں کو ان کا عقیدہ خودتلاش کرنے دیں… کیرالہ میں ہندو مذہب نے دوسرے مذاہب کو زمین دی۔ ہندو مذہب سب سے بڑا مذہب ہے۔ ویدوں نے جو بلندیاں حاصل کی ہیں اور جو روشنی دی ہے وہ کئی زمانوں تک  پھیلی … دریا دل بنیں۔