جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کو اس ہفتے کے شروع میں عدالتی مداخلت کے بعد ‘مشروط’ پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست کے جواب میں سری نگر کے ریجنل پاسپورٹ آفیسر نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر پولیس سی آئی ڈی انہیں پاسپورٹ جاری کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
جموں و کشمیر پولیس نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی پر اپنی ‘ رپورٹ’ میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا ہے، غور طلب ہے کہ التجا مفتی کو اس ہفتے کے شروع میں عدالت کی مداخلت کے بعد’مشروط’ پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔
التجا کی طرف سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست کا جواب دیتے ہوئے سری نگر کے ریجنل پاسپورٹ آفیسر نے کہا کہ جموں و کشمیر پولیس کا کریمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) التجاکو پاسپورٹ جاری کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ دی وائر کے پاس اس جواب کی ایک کاپی موجود ہے۔
سی آئی ڈی نے اپنی رپورٹ ‘ٹاپ سیکریٹ’ کے طور پر دائر کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے دفعات کے تحت عام نہیں کیا جائے گا۔
یہ نوآبادیاتی دور کا ایک قانون ہے جسے حکومتیں قومی سلامتی اور جاسوسی کے معاملات میں رازداری برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔
سی آئی ڈی کی سیل بند کور رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سری نگر کے پاسپورٹ آفیسر دیویندر کمار نے ڈپٹی سالیسٹر جنرل (حکومت ہند)، جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کو لکھا، حالات کے پیش نظر، خاص طور پر یہ کہ درخواست گزار متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس دفتر نے 05/04/2023 کو پاسپورٹ جاری کیا، جو کہ 04/04/2025 تک کے لیے ہے۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ ماہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت میں سیل بندکور دستاویزجمع کرانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے: التجا
جمعہ (7 اپریل) کو سری نگر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے التجا نے کہا کہ انہوں نے پاسپورٹ کے لیے گزشتہ سال جون میں درخواست دی تھی، جس کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جہاں یہ معاملہ گزشتہ دو ماہ سے زیر سماعت ہے۔
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد فعال سیاست میں قدم رکھنے والی التجا نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولنے کی وجہ سے انہیں اور ان کے خاندان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی نانی (محبوبہ کی والدہ گلشن مفتی) کو بھی تین سال تک پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا، لیکن عدالتی مداخلت کے بعد وہ اس سال کے شروع میں پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
التجا نے کہا، ‘کیا میں دہشت گرد ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟ اگر میں مرکزی حکومت کے خلاف بولتی ہوں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ملک پر حملہ کر رہی ہوں؟ اپنے جذبات کا اظہار کرناایک ہندوستانی شہری کے طور پر میرا بنیادی حق ہے۔ میں نے کوئی قانون نہیں توڑا ہے، پھر بھی مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،میں پاسپورٹ کی حقدار نہیں ہوں کیونکہ محبوبہ مفتی صاحبہ میری والدہ ہیں۔ میں پاسپورٹ کی حقدار ہوں کیونکہ میں قانون کی پاسداری کرنے والی ہندوستانی شہری ہوں۔
التجا نے کہا کہ ریجنل پاسپورٹ آفیسر کی طرف سے 5 اپریل کو جاری کیا گیا پاسپورٹ ‘صرف متحدہ عرب امارات کے لیے’ دو سال کی میعاد کے ساتھ ہے، حالانکہ ایک عام پاسپورٹ کی میعاد 10 سال ہوتی ہے۔
التجا نے سی آئی ڈی کی سیل بند کور رپورٹ پر بھی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا، پولیس عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اس میں میرے خلاف کچھ بھی ٹھوس نہیں ہے۔ اگر انہیں رپورٹ پر یقین ہے تو اسے پبلک کیا جانا جاہیے۔
انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز اور صحافی عرفان مہراج، فہد شاہ اور سجاد گل کی گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر میں خوف اور غیر یقینی کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں اور طالبعلموں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کشمیرکو سائلنٹ موڈ میں ڈال دیا گیا ہے۔ بنیادی حقوق کو جرم بنا دیا گیا ہے ، جو بولنے کی جرأت کرتے ہیں ان کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں،’اگر میرے ساتھ ایسا ہو رہا ہے تو عام کشمیریوں کی حالت کا تصور کریں۔’ انھوں نے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر میں بہت سے لوگوں کو مرکزی حکومت نے ‘نو فلائی لسٹ’ میں ڈال دیا ہے۔
بتادیں کہ دی وائر نے بھی ‘نو فلائی لسٹ‘ پر رپورٹ کی ہے، جسے مبینہ طور پر مرکزی حکومت کے 2019 میں جموں و کشمیر کا براہ راست چارج سنبھالنے کے بعد تیار کیا گیا تھا۔
ناکامیاں اور گھوٹالے
التجا نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ بدعنوانی اور گھوٹالوں کی سیریز میں الجھی ہوئی ہے۔ انہوں نے گجرات کے بی جے پی کارکن کرن پٹیل کی سری نگر کے ہوٹل سے گرفتاری اور تاجر نیرو مودی کے ہندوستان سے فرار ہونےکا بھی حوالہ دیا۔
غور طلب ہے کہ پچھلے دو سالوں میں مرکزکے زیر انتظام علاقے کے محکمہ داخلہ اور مالیات اور دیگر میں آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے جموں و کشمیر سروسز سلیکشن بورڈ کی جانب سےمنعقد کیے گئے امتحانات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔
بے ضابطگیوں کے سامنے آنے کے بعد انتظامیہ کو ان میں سے کم از کم دو بھرتیوں میں تقرریوں کو منسوخ کرنےکے لیے مجبور ہونا پڑا، جبکہ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) پہلے ہی ایک گھوٹالے میں چارج شیٹ داخل کر چکی ہے۔
سب انسپکٹر گھوٹالے میں دو سیکورٹی افسران کو گرفتار کیا گیا ہے۔
التجا نے کہا، ‘آج جموں و کشمیر کے فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈپارٹمنٹ میں ایک نیا بھرتی گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 40 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ لیکن جو لوگ ان مسائل کے خلاف بولتے ہیں، حکومت کی زیادتیوں، فرضی انکاؤنٹر اور کرپشن کے خلاف بولتے ہیں ، ان کو سزا دی جا رہی ہے۔
التجا نے کہا کہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے سی آئی ڈی جموں و کشمیر میں ایک ‘گندہ کردار’ ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، کچھ سی آئی ڈی افسران عدالت میں جھوٹ بول کر اور لوگوں کو ہراساں کرکے اپنے دفتر کو بدنام کر رہے ہیں اور اس کو نیچا دکھا رہے ہیں۔ نازی جرمنی میں گسٹاپو پولیس کی طرح، جسے یہودیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر ظلم کرنے کا کام سونپا گیا تھا، سی آئی ڈی کشمیریوں کو کچلنے اور انہیں ستانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
التجا نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ناانصافی کے خلاف بولنے کی وجہ سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور جموں و کشمیر انتظامیہ ‘مفتی فیملی کی مثال بنانا چاہتی ہے’۔
التجا نے مزید کہا، وہ لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ اگر وہ ناانصافی کے خلاف بولیں گے تو ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا، ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جائیں گے یا ان کی روزی روٹی چھین لی جائے گی۔ کئی ملازمین کو بے بنیاد بنیادوں پر برخاست کیا گیا ہے۔
مزید کہا، ‘مرکزی حکومت ڈھول پیٹ رہی ہے کہ اب جموں و کشمیر میں آئین ہند کا نفاذ ہو چکا ہے، لیکن میں یہاں صرف بی جے پی کا آئین نافذ ہوتا ہوا دیکھ سکتی ہوں نہ کہ ہندوستان کا آئین۔’
التجا نے کہا کہ حکومت اور جموں و کشمیر پولیس نے عدالت کو بتایا ہے کہ وہ اس کے پاسپورٹ پر اعتراض نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ‘مشروط پاسپورٹ’ جاری کرنے سے ہائی کورٹ میں ان کی درخواست کے مسترد ہونے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘بیرون ملک سفر کا حق بنیادی حق ہے، لیکن مجھے اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ میرے ساتھ ہو رہا ہے اور میں ایک سابق وزیر اعلیٰ کی بیٹی ہوں، لیکن یہ لڑائی صرف میری نہیں ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ڈپٹی سالیسٹر جنرل ان کے وکیل پر درخواست واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘میں بہت دباؤ میں ہوں، لیکن مجھے عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اور میں لڑتی رہوں گی۔’
سی آئی ڈی کا جواب
تاہم سی آئی ڈی نے ان الزامات کی تردید کی کہ التجا کو اپنی عدالتی درخواست واپس لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
پریس کانفرنس کے بعد ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ اندرونی تحقیقات کے حکم دے دیے گئے ہیں اور اگر کوئی پی ڈی پی سربراہ کی بیٹی پر درخواست واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ملوث ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
پولیس ترجمان نے ایک بیان میں کہا، التجا نے اپنی ذاتی شکایت کو کشمیری عوام کی شکایت کے طور پر پروجیکٹ کیا ہے۔ یہ بہت ہی پریشان کن مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر پولیس اور اس کے ساتھی عوامی ادارے ہیں اور ان کا مقصد عوامی مفاد کی خدمت کرنا ہے۔ جھوٹے الزامات کی بنیاد پر شخصی شکایتوں کے لیے کمیونٹی کے اپنے اداروں کی مذمت کرنا ، اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے۔’
ترجمان نے اس دوران گزشتہ تین سالوں میں جاری کیے گئے پاسپورٹ کی کل تعداد کی تفصیلات بھی فراہم کیں اور کہا کہ 2020، 2021 اور 2022 میں اوسطاً تقریباً 99 فیصد پاسپورٹ کی تصدیق کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ جاری کرنے سے پہلے سکیورٹی ویری فکیشن کرانا ضروری ہے۔ 2017-18 کے دوران 54 لڑکوں کو غلط طریقے سے پاسپورٹ دیے گئے تھے۔ ان سب نے پاکستان کے دہشت گردوں کے کیمپوں میں پہنچ کر اسلحہ کی تربیت لی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو ایل او سی کے ذریعے جموں و کشمیر واپس بھیجا گیا اور ان میں سے 26 انکاؤنٹر میں یا سرحد پار کرتے ہوئے مارے گئے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں